گوادر پورٹ سے گیس پائپ لائن تک
’ہمیں سرحد (خیبر پختونخوا) کی بجلی، سندھ کی زمینیں اور بلوچستان کی معدنیات درکار ہیں۔ ون یونٹ کے قیام سے ہمیں یہ...
''ہمیں سرحد (خیبر پختونخوا) کی بجلی، سندھ کی زمینیں اور بلوچستان کی معدنیات درکار ہیں۔ ون یونٹ کے قیام سے ہمیں یہ سب حاصل ہو جائے گا۔'' ون یونٹ کے قیام سے قبل پنجاب کے سابق سیاست دان ممتاز احمد خان دولتانہ کی خفیہ دستاویز کا یہ فقرہ، پنجاب ہی کے معروف ترقی پسند ادیب احمد سلیم نے اپنی حالیہ کتاب ''بلوچستان، آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک'' کے ایک باب میں نقل کیا ہے۔ ایسی ہی 'خفیہ دستاویزات' کی روشنی میں ون یونٹ قائم ہوا۔ پختونخوا کی بجلی بھی استعمال کی جا چکی، سندھ کی زمینیں بھی 'اہلِ ون یونٹ' کو حاصل ہوئیں، بلوچستا ن کی معدنیات بھی لے لی گئیں، لیکن یہ ون یونٹ ملک کو 'یونیٹی' تو نہ دے سکا، اُلٹا اس کے ایک یونٹ کو الگ کرنے کا باعث بنا۔
ون یونٹ تو مزید نہ رہا لیکن اس کی باقیات آج بھی قائم ہیں۔ یہ 'ون یونٹی خانوادہ' ہی ہے، جسے جمہوریت کفار کی سازش لگتی ہے، اور سیاست دان سبھی برائیوں کی جڑ نظر آتے ہیں۔ ون یونٹ سے استفادہ کرنے والی قوتوں کے دل آج بھی پھر فرصت کے وہی رات دن ڈھونڈتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے اور ماننے کو تیار ہی نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی دلچسپیوں کے محور اب تبدیل ہو چکے۔ کافر سوویت ٹوٹ چکا، سو عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات کا مرکز و منبع اب کچھ اور ٹھہرا۔ جنگوں کی شکلیں بھی اب بدل چکیں۔ ڈرون حملے شاید رواں دہائی کے آخری جنگی حربے ہوں۔ آنے والے برسوں میں ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کو اب کوئی اورکاروبار سوچنا ہو گا۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں نے عالمی اسلحہ سازوں کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ انھی طاقتوں میں ایک کا نام چین ہے۔ ... بوٹے قد اور زرد رنگت والی اس قوم نے عالمی سپر پاور کی ناک میں پہلے ہی کیا کم دم کر رکھا تھا کہ گوادر پورٹ کا انتظام بھی سنبھال لیا۔ وہ حسیں مگر خونی پورٹ، جس تک رسائی کے چکر میں سوویت یونین اپنے نظام سمیت زمیں بوس ہوا، جس نے افغانستان کو کئی دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی ایک پراکسی وار میں دھکیل رکھا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید اندرونی بحرانوں سے نبرد آزما ہے، گوادر پورٹ کی چین کو سپردگی اور ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ محض پیپلز پارٹی کا کارنامہ نہیں بلکہ پاکستان میں بعض پالیسیوں کا تسلسل اور بالخصوص حالیہ انتخابی نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ ملک میں ابھی سیاسی قوتیں اتنی خود مختار اور بااختیار نہیں کہ بین الاقوامی سطح کے فیصلے، مقتدرہ کی مرضی و منشا کے بغیر لے سکیں۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ چین کی گوادر پورٹ تک رسائی ہو یا ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ، بظا ہر یہ سرگرمیاں خواہ کسی بھی سیاسی قوت کے ہاتھوں کیوں نہ انجام پذیر ہوں، ان کا اصل کریڈٹ مقتدرہ کو ہی جانا چاہیے، جو ان فیصلوں کی اصل مالک ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں گوادر پورٹ کو سنگاپور کے حوالے کرنے والے فیصلے پر عمل در آمد میں اس قدر وقت کیوں کر صرف کیا گیا؟ کیا اس میں محض انتظامی معاملات کا عمل دخل تھا یا پس پردہ صورت حال کچھ اور بھی تھی؟ نیز پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود، ایران سے ہونے والا گیس پائپ لائن کامعاہدہ کیوں کر تاخیر کا شکار ہے؟
باخبر احباب کو یاد ہو گا کہ گوادر پورٹ کی تکمیل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں ہی ہو چکی تھی۔ سن دوہزار پانچ اور چھ کے درمیان اسے باضابطہ آپریشنل کر دیا گیا تھا۔ لیکن اسی دوران چینی انجینئرز کے قتل نے معاملات کو الجھا دیا۔ چین نے تیزی سے بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روک دیا ۔ اسی دوران مکران میں مزاحمتی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزاحمتی تنظیموں کے نیٹ ورک تک رسائی کے لیے جنگی حکمت عملی کے تحت انھیں کھلا میدان مہیا کیا۔ جس کے باعث بلوچ گوریلے مخالف قوت کو کمزور سمجھ کر کھل کر وار کرنے پہ اتر آئے ۔ اگلے دو، تین برس یہ معمول جاری رہا۔ اس دوران گو کہ پاکستان میں بظاہر سیاسی میدان میں تبدیلیاں آئیں، ایک فوجی آمر کا دور اختتام کو پہنچا اور اقتدارسیاسی قوتوں کے حوالے ہوا۔
لیکن بلوچستان میں جاری اس کھیل میں کوئی تبدیلی نہ آئی، ماسوائے اس کہ اس دوران سیکیورٹی اداروں نے مزاحمتی تنظیموں کے اندرونی نیٹ ورک تک خاصی رسائی حاصل کر لی، اور پھر جوابی کارروائیوں پر عمل در آمد کا آغازکر دیا۔ آیندہ دو، سے تین برس کے دوران ان مزاحمتی تنظیموں کو شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص شہری علاقوں میں ان تنظیموں کی قیادت کا صفایا کر دیا گیا۔ سیکیورٹی اداروں نے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اختیار کی، ہر مشکوک فرد کو اٹھا کرسخت پیغام کے ساتھ اسے مسخ شدہ پھینک دیا۔ گو کہ اس کے نتیجے میں مزاحمتی تنظیموں کو فی الوقت پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن ظاہر ہے اس کا جواب آنا ابھی باقی ہے، جس کا ہلکا سے مظاہرہ حالیہ انتخابات میں ہوا، جہاں مکران اوراس سے ملحقہ اضلاع میں پولنگ کی شرح تین فیصد سے پانچ فیصد تک رہی۔
اب جب کہ امریکا افغانستان سے واپسی پر ہے تو ظاہر ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی امداد ختم ہو جائے گی، جس نے پاکستانی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ون یونیٹی خانوادے' کی قوتیں جن کا سارا انحصار عالمی سامراجی اداروں کی امداد پر رہا ہے، انھیں امریکا کی اس خطے سے واپسی گوارا ہے، نہ ہی اس خطے سے وابستہ مستقل مفادات کو چھوڑکر امریکا مستقل واپسی پر رضامند ہو گا۔ وہ تو کمیونزم نامی دشمن کے خاتمے کے بعد سے ہی نئے دشمن کی تلاش کے لیے پریشان تھا۔ بالآخر القاعدہ اس کی مدد کو آگے آئی، اور اسے اس خطے میں واپسی کا بہانہ عطا کیا۔ اب جب یہ بہانہ بھی ختم ہونے کو ہے، تو کوئی نیا دشمن تلاشنا اور تراشنا ضروری ہے۔ اس سارے کھیل کو اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ گوادر پورٹ کی چین کو حوالگی اور ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ محض امریکا کی خطے میں واپسی کا بہانہ ہیں۔
خواہ بظاہر کتنا ہی یہ محسوس کرایا جائے کہ پاکستان یہ اقدامات ملکی مفاد کے تحت اٹھا رہا ہے، یا دوسری طرف یہ دکھانا کہ امریکا کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیے تو پاکستان دوسری قوتوں کی طرف ہاتھ بڑھا سکتا ہے، یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان ابھی خود مختاری کی اس سطح کو نہیں پہنچا، جہاں عالمی مفادات کے حامل فیصلے اَز خود کر سکے۔ اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے لے کر، ریمنڈ ڈیوس کیس اور سی آئی اے کے پاکستانی ملازم شکیل آفریدی کا قضیہ، عالمی معالات میں اس کی بے اختیاری کی چغلی کھا رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دو فیصلوں پرعمل درآمد نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر مہر تصدیق ثبت کر سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بھی زبردست بنیادیں فراہم ہو سکتی ہیں، پر اس المیے کا کیا کیجیے کہ پاکستان کی مقتدر قوتیں اب تک اپنے زورِ بازو پہ بھروسہ کرنے کی بجائے نہ تو عالمی طاقتوں کے نرغے سے نکلنے کو تیار ہیں، نہ ہی عوام کو شاملِ حال کرنے پر مائل ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ تو گوادر پورٹ فعال ہو گا، نہ گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل در آمد ہو گا... بلکہ عالمی قوتوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں خون خرابہ مزید بڑھے گا، خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ عوام کمزور ہوں گے، عوام دشمن قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ملکی معیشت کا بحران بڑھے گا، البتہ چند خانوادوں کے بینک اکائونٹس میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے بلوچستان، وفاقی اور صوبائی آنے والی ہر دو حکومتوں کی سیاسی دانش کے لیے کڑا امتحان ثابت ہو گا۔
ون یونٹ تو مزید نہ رہا لیکن اس کی باقیات آج بھی قائم ہیں۔ یہ 'ون یونٹی خانوادہ' ہی ہے، جسے جمہوریت کفار کی سازش لگتی ہے، اور سیاست دان سبھی برائیوں کی جڑ نظر آتے ہیں۔ ون یونٹ سے استفادہ کرنے والی قوتوں کے دل آج بھی پھر فرصت کے وہی رات دن ڈھونڈتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے اور ماننے کو تیار ہی نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی دلچسپیوں کے محور اب تبدیل ہو چکے۔ کافر سوویت ٹوٹ چکا، سو عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات کا مرکز و منبع اب کچھ اور ٹھہرا۔ جنگوں کی شکلیں بھی اب بدل چکیں۔ ڈرون حملے شاید رواں دہائی کے آخری جنگی حربے ہوں۔ آنے والے برسوں میں ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کو اب کوئی اورکاروبار سوچنا ہو گا۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں نے عالمی اسلحہ سازوں کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ انھی طاقتوں میں ایک کا نام چین ہے۔ ... بوٹے قد اور زرد رنگت والی اس قوم نے عالمی سپر پاور کی ناک میں پہلے ہی کیا کم دم کر رکھا تھا کہ گوادر پورٹ کا انتظام بھی سنبھال لیا۔ وہ حسیں مگر خونی پورٹ، جس تک رسائی کے چکر میں سوویت یونین اپنے نظام سمیت زمیں بوس ہوا، جس نے افغانستان کو کئی دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی ایک پراکسی وار میں دھکیل رکھا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید اندرونی بحرانوں سے نبرد آزما ہے، گوادر پورٹ کی چین کو سپردگی اور ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ محض پیپلز پارٹی کا کارنامہ نہیں بلکہ پاکستان میں بعض پالیسیوں کا تسلسل اور بالخصوص حالیہ انتخابی نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ ملک میں ابھی سیاسی قوتیں اتنی خود مختار اور بااختیار نہیں کہ بین الاقوامی سطح کے فیصلے، مقتدرہ کی مرضی و منشا کے بغیر لے سکیں۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ چین کی گوادر پورٹ تک رسائی ہو یا ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ، بظا ہر یہ سرگرمیاں خواہ کسی بھی سیاسی قوت کے ہاتھوں کیوں نہ انجام پذیر ہوں، ان کا اصل کریڈٹ مقتدرہ کو ہی جانا چاہیے، جو ان فیصلوں کی اصل مالک ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں گوادر پورٹ کو سنگاپور کے حوالے کرنے والے فیصلے پر عمل در آمد میں اس قدر وقت کیوں کر صرف کیا گیا؟ کیا اس میں محض انتظامی معاملات کا عمل دخل تھا یا پس پردہ صورت حال کچھ اور بھی تھی؟ نیز پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود، ایران سے ہونے والا گیس پائپ لائن کامعاہدہ کیوں کر تاخیر کا شکار ہے؟
باخبر احباب کو یاد ہو گا کہ گوادر پورٹ کی تکمیل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں ہی ہو چکی تھی۔ سن دوہزار پانچ اور چھ کے درمیان اسے باضابطہ آپریشنل کر دیا گیا تھا۔ لیکن اسی دوران چینی انجینئرز کے قتل نے معاملات کو الجھا دیا۔ چین نے تیزی سے بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روک دیا ۔ اسی دوران مکران میں مزاحمتی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزاحمتی تنظیموں کے نیٹ ورک تک رسائی کے لیے جنگی حکمت عملی کے تحت انھیں کھلا میدان مہیا کیا۔ جس کے باعث بلوچ گوریلے مخالف قوت کو کمزور سمجھ کر کھل کر وار کرنے پہ اتر آئے ۔ اگلے دو، تین برس یہ معمول جاری رہا۔ اس دوران گو کہ پاکستان میں بظاہر سیاسی میدان میں تبدیلیاں آئیں، ایک فوجی آمر کا دور اختتام کو پہنچا اور اقتدارسیاسی قوتوں کے حوالے ہوا۔
لیکن بلوچستان میں جاری اس کھیل میں کوئی تبدیلی نہ آئی، ماسوائے اس کہ اس دوران سیکیورٹی اداروں نے مزاحمتی تنظیموں کے اندرونی نیٹ ورک تک خاصی رسائی حاصل کر لی، اور پھر جوابی کارروائیوں پر عمل در آمد کا آغازکر دیا۔ آیندہ دو، سے تین برس کے دوران ان مزاحمتی تنظیموں کو شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص شہری علاقوں میں ان تنظیموں کی قیادت کا صفایا کر دیا گیا۔ سیکیورٹی اداروں نے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اختیار کی، ہر مشکوک فرد کو اٹھا کرسخت پیغام کے ساتھ اسے مسخ شدہ پھینک دیا۔ گو کہ اس کے نتیجے میں مزاحمتی تنظیموں کو فی الوقت پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن ظاہر ہے اس کا جواب آنا ابھی باقی ہے، جس کا ہلکا سے مظاہرہ حالیہ انتخابات میں ہوا، جہاں مکران اوراس سے ملحقہ اضلاع میں پولنگ کی شرح تین فیصد سے پانچ فیصد تک رہی۔
اب جب کہ امریکا افغانستان سے واپسی پر ہے تو ظاہر ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی امداد ختم ہو جائے گی، جس نے پاکستانی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ون یونیٹی خانوادے' کی قوتیں جن کا سارا انحصار عالمی سامراجی اداروں کی امداد پر رہا ہے، انھیں امریکا کی اس خطے سے واپسی گوارا ہے، نہ ہی اس خطے سے وابستہ مستقل مفادات کو چھوڑکر امریکا مستقل واپسی پر رضامند ہو گا۔ وہ تو کمیونزم نامی دشمن کے خاتمے کے بعد سے ہی نئے دشمن کی تلاش کے لیے پریشان تھا۔ بالآخر القاعدہ اس کی مدد کو آگے آئی، اور اسے اس خطے میں واپسی کا بہانہ عطا کیا۔ اب جب یہ بہانہ بھی ختم ہونے کو ہے، تو کوئی نیا دشمن تلاشنا اور تراشنا ضروری ہے۔ اس سارے کھیل کو اس پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ گوادر پورٹ کی چین کو حوالگی اور ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ محض امریکا کی خطے میں واپسی کا بہانہ ہیں۔
خواہ بظاہر کتنا ہی یہ محسوس کرایا جائے کہ پاکستان یہ اقدامات ملکی مفاد کے تحت اٹھا رہا ہے، یا دوسری طرف یہ دکھانا کہ امریکا کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیے تو پاکستان دوسری قوتوں کی طرف ہاتھ بڑھا سکتا ہے، یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان ابھی خود مختاری کی اس سطح کو نہیں پہنچا، جہاں عالمی مفادات کے حامل فیصلے اَز خود کر سکے۔ اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے لے کر، ریمنڈ ڈیوس کیس اور سی آئی اے کے پاکستانی ملازم شکیل آفریدی کا قضیہ، عالمی معالات میں اس کی بے اختیاری کی چغلی کھا رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دو فیصلوں پرعمل درآمد نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر مہر تصدیق ثبت کر سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو بھی زبردست بنیادیں فراہم ہو سکتی ہیں، پر اس المیے کا کیا کیجیے کہ پاکستان کی مقتدر قوتیں اب تک اپنے زورِ بازو پہ بھروسہ کرنے کی بجائے نہ تو عالمی طاقتوں کے نرغے سے نکلنے کو تیار ہیں، نہ ہی عوام کو شاملِ حال کرنے پر مائل ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ تو گوادر پورٹ فعال ہو گا، نہ گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل در آمد ہو گا... بلکہ عالمی قوتوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں خون خرابہ مزید بڑھے گا، خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ عوام کمزور ہوں گے، عوام دشمن قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ملکی معیشت کا بحران بڑھے گا، البتہ چند خانوادوں کے بینک اکائونٹس میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے بلوچستان، وفاقی اور صوبائی آنے والی ہر دو حکومتوں کی سیاسی دانش کے لیے کڑا امتحان ثابت ہو گا۔