جمہوریت کا نیا ماڈل
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں پہلی بات یہ ہے کہ انتخابی دھاندلی عام بات ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن کی شکایتیں عام ہیں۔
ہم جس جمہوریت سے گزررہے ہیں وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جمہوریت میں عوامی مسائل حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہوتے جمہوری نظام بھی انسانوں ہی کا تشکیل دیا ہوا نظام ہے لیکن جمہوریت کی کارکردگی مختلف ملکوں میں مختلف رہی ہے، مثلاً ترقی یافتہ ملکوں میں جمہوری ڈھانچے حقیقی رائے عامہ پر تشکیل دیے جاتے ہیں ۔
ان ملکوں میں نہ انتخابی دھاندلی کی شکایت پسماندہ ملکوں کی طرح عام ہیں نہ سیاسی جماعتوں اور اقتدار پر اشرافیہ کا قبضہ ہوتا ہے اور عوام کسی دباؤ یا کسی تعلق کے حوالے سے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو عوام اپنے منتخب نمایندے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں یہ اس لیے ممکن ہے کہ ان کا منتخب نمایندہ ان کی پہنچ میں رہتا ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں پہلی بات یہ ہے کہ انتخابی دھاندلی عام بات ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن کی شکایتیں عام ہیں جو اکثر اوقات تحریکوں میں بدل جاتی ہیں ۔ بھٹو حکومت کے خلاف 1977 کی تحریک کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ بھٹو پر یہ الزام تھا کہ ان کی حکومت نے انتخابات میں بعض نشستوں پر دھاندلی کی ہے۔ ایسا الزام نہیں تھا کہ حکومت کے خلاف ایک ملک گیر منظم تحریک چلائی جائے۔
اسی طرح ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسا جمہوری کلچر موجود نہیں کہ اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر مسلسل قابض رہے یہ دونوں طریقے جمہوریت کی نفی کرتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابی دھاندلی بھی عام ہے اور سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کا قبضہ بھی عام ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل سے محروم رہتے ہیں اور سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ قابض رہتی ہے جب تک ان دو بیماریوں کا علاج نہ ہو ہمارا جمہوری نظام ہچکولے کھاتا رہے گا۔ اگرچہ 2018 کے الیکشن میں ایک مڈل کلاس سیاسی جماعت الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی ہے لیکن اس پر بھی دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں اور تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ اگرچہ یہ تحریکیں کمزور ہیں لیکن میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں انتخابی دھاندلی کی شہرت ہے اور پاکستانی جمہوریت کی پہچان کا ایک حوالہ دھاندلی بنا ہوا ہے۔
اس مرض کا علاج نہ بے معنی اصلاحات سے ہوسکتا ہے نہ سیاسی ٹونوں اور ٹوٹکوں سے ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بیماریاں ٹی بی جیسی ہیں جو ایک بار انسانی جسم سے چمٹ جاتی ہیں تو ان سے نجات ممکن نہیں رہتی لیکن جدید طبی تحقیقات کے نتیجے میں ٹی بی کا نیا علاج ڈھونڈ لیا گیا ہے اور یہ بیماری اب جان لیوا نہیں رہی ہے۔
ہماری جمہوریت کینسر نہیں ہے جس کا علاج ممکن نہ ہو، ٹی بی ایک زمانے تک لا علاج مرض سمجھا جاتا تھا لیکن اس کا علاج ڈھونڈ لیا گیا اور یہ مرض اب لا علاج نہیں رہا۔
بلاشبہ ہماری جمہوریت ایک 71 سالہ پرانا مرض بن گئی ہے لیکن لا علاج نہیں ہے اس سرمایہ دارانہ بیماری کا حتمی علاج ایک عوامی انقلاب ہے لیکن ایک تو ہمارے عوام ابھی شعورکی اس منزل میں نہیں کہ اس بیماری کا حتمی علاج انقلاب برپا کرسکیں۔ دوسرے اشرافیہ نے ہماری جمہوریت پر اس جنون سے قبضہ جمالیا ہے کہ عمرانی سفوف سے اس کا علاج مشکل ہے اس کے لیے کوئی اور علاج ڈھونڈنا پڑے گا۔ عوام کی بالادستی کے بغیر جمہوریت جمہوریت نہیں رہتی بلکہ اشرافیہ کی اکثریت بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں 71 سالوں سے یہی جمہوریت چل رہی ہے جس پر اشرافیہ کی بالادستی قائم ہے۔
جب ہمارے ملک کے عوام اس بیماری کے حتمی علاج کے لیے ذہنی اور شعوری طور پر تیار نہیں توکم ازکم اتنا توکیا جاسکتا ہے کہ اس جمہوریت کو عوامی جمہوریت کہا جاسکے۔ ہمارے ملک کے عوام مختلف حوالوں سے بے شمار خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ان میں سب سے بڑی تقسیم طبقاتی ہے،ایک طرف نوے فی صد سے زیادہ غریب عوام ہیں جن کا جمہوریت میں بس اتنا حصہ ہے کہ وہ اشرافیہ اور اس کے ایجنٹوں کو ووٹ دیں ، جس کے نتیجے میں وہ جمہوریت وجود میں آتی ہے جسے ہم اشرافیائی آمریت کہتے ہیں۔
ہمارے ملک کے بڑے طبقات میں کسان ہیں، مزدور ہیں، مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور کسان دیہی آبادی کا 60 فی صد ہیں اس طرح کسان اور مزدور ہماری کل آبادی کا لگ بھگ نصف حصہ ہیں ،کیا اتنی بڑی آبادی کا ہماری جمہوریت میں سوائے اشرافیہ کو ووٹ دینے کے اورکوئی کردار ہے؟
ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ان طبقات کو جمہوریت کے دودھ سے مکھی کی طرح نکلا کر پھینک دیاجاتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مزدوروں اورکسانوں کا کوئی نمایندہ قانون ساز اداروں میں پہنچ پاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہماری جمہوریت ہے ، اس خانہ ساز اشرافیائی جمہوریت کو تبدیل کیے بغیر عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں کیا اس جمہوریت کو عوامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔
اس اشرافیائی آمریت کو جس کا نام عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے جمہوریت رکھا گیا ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی اس طرح کی جاسکتی ہے کہ قانون ساز اداروں میں طبقاتی بنیادوں پر نمایندگی دی جائے۔ مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے کسان ہماری دیہی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہیں اگر ان طبقات کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمایندگی دی جائے تو ہم اسے جمہوریت کا ایک حقیقی ماڈل کہہ سکتے ہیں ۔