شائننگ انڈیا میں ’’ہجوم گردی‘‘
مشتعل بھارتی اکثریت کے ہاتھوں ہونے والے قتل کی لرزہ خیزکارروائیوں نے انتہا پسندی کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
برصغیرکی قدیم، خوبصورت اور رنگا رنگ تاریخ پرکالک ملنے کا عمل موجودہ بھارت میں تیزی سے جاری ہے ۔ایک طرف تو خلا سَرکرنے کی باتیں اور دوسری طرف اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا ظلم ، دراصل یہی ہے بھارت کا اصلی تضاد اور مکروہ چہرہ ۔
بھارت میں شاید داخلی امن کی ضرورت مودی سرکارکو اس لیے محسوس نہیں ہورہی کہ بہت جلد وہ دوسرے سیاروں پرکمند ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں سو زمین پر جتنا گند پھیل رہا ہے ان کی بلا سے پھیلے ۔ اسی ریاستی بے حسی اور بے پروائی کے باعث بھارتی قوم میں غیرانسانی رویے تیزی سے پنپ رہے ہیں ۔ خلا پر جھنڈا گاڑنے کا خواب برا نہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ پہلے اسی زمین کو ہر ایک کے بسنے کے لیے پر امن بنا دیا جائے۔
یہ تحریر میں ہرگزکسی تعصب کی بنیاد پر نہیں لکھ رہی ۔میری نظر میں بھارت سن سینتالیس کے بعد سے ہمارا ایک اہم پڑوسی ملک ہے اور نہایت قابلِ احترام ہے، لیکن معدوم ہوتی ہوئی انسانی اخلاقیات پر بات کرنا بہت ضروری ہے چاہے چوٹ پڑوسی ممالک کی ریاستی پالیسیوں پر ہی کیوں نہ پڑے ۔ بھارت میں یوں تو ہر قسم کے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اس وقت مشتعل بھارتی اکثریت کے ہاتھوں ہونے والے قتل کی لرزہ خیزکارروائیوں نے انتہا پسندی کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور بھارتیوں کے مجموعی اخلاقی رویوں کی بھی قلعی کھول دی ہے، لیکن سلام ہے بھارت کے عالمی طاقتوں سے بہترین تعلقات پر، جو بھارت کے اندر پھیلا ہوا سارا گند چھپا لیتی ہیں اور چوں بھی نہیں کرتیں ۔
کسی واقعے کو بھارتی رسوائی اور جگ ہنسائی کی وجہ نہیں بننے دیتیں ۔ حتیٰ کہ انسانی حقوق کی وہ عالمی تنظیمیں بھی چُپ کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھی ہیں ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پنچایتوں اور جرگوں کی طرف سے دیے جانے والے فیصلوں کو ریاستی رٹ چیلنج کیے جانے کے مترادف قرار دیا اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا بہت شور مچایا ۔ عورتوں کوکوڑے مارنے کی ویڈیوز خوب خوب وائرل کی گئیں ۔
ظلم ہوا، آواز اٹھائی تو صحیح کیا ، ہونا بھی یہی چاہیے، لیکن انسانی حقوق کی پامالی دنیا کے جس حصے میں بھی ہو سب جگہ برابرکا ردعمل دینا ہی عین انسان دوستی ہے ورنہ صرف دھندا ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے تو ماضی میں ہونے والے کئی واقعات کو بنیاد بنا کر پھبتی بھی کسی کہ آخر پاکستانی سرکار ہے کہاں؟ تو جناب پاکستان بھی یہیں ہے اور پاکستانی سرکار بھی ۔ یہ بتائیے بھارتی ریاست کہاں ہے؟ جو سڑکوں پر یوں نہتے اقلیتی بھارتی باشندے اکثریت کے جبرکا شکار ہوکر مارے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے اندوہناک واقعات کی پردہ پوشی کرنے والی طاقتوں کے ساتھ بظاہرکتنے ہی بہتر تعلقات کیوں نہ ہوں ، لیکن وہ حقیقی دوست کہلائے جانے کے قابل نہیں۔
الجزیرہ سے لے کر واشنگٹن پوسٹ، دی گارجین سے لے کر خلیج ٹائمز اور ڈان سے لے کر دی ہندو تک، چاہے کوئی بھی اخبار اٹھا لیجیے، ہر جگہ بھارت میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے اعداد وشمار مل جائیں گے۔ خود بھارتی اخبارات کے مطابق ، سال اور چھ مہینے تو دور، صرف مئی سے لے کر اب تک چوبیس لوگ ''ہجوم گردی'' کا شکار بنا دیے گئے۔
مرنے والوں کا تعلق صرف مسلمان اور دلت برادری سے ہے ۔ بھارت کو اقلیتوں کے وجود سے پاک کرنے کے کریہہ منصوبے کی تکمیل کے لیے بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک اینٹ دھری جا رہی ہے۔ پہلے تواتر سے یہ واقعات '' گاؤ ماتا'' کے تحفظ کے نام پر کیے جاتے رہے۔گائے کا گوشت کھانے والے انسانی خون پینے والوں کے ہتھے چڑھ کر زندگی کی بازی ہارتے رہے۔ اور اب لگاتار کئی واقعات میں بچے اغوا کرنے کے شبے میں نہتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر بیدردی سے مار دیا گیا۔
تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کے باوجود اگر بھارت کسی خانہ جنگی سے بچا ہوا ہے تو اس میں سارا کریڈٹ اقلیتوں کو جاتا ہے جو ہر ظلم کے آگے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں ورنہ اس وقت دنیا کے کتنے ہی خطوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی اور ہولناک جنگیں چھڑی ہوئی ہیں۔گزشتہ سال عیدالفطر سے قبل پندرہ سالہ لڑکے جنید خان کو چلتی ٹرین میں گائے کھانے والا کہہ کر مشتعل ہندؤں نے قتل کردیا تھا ، جس کے ردعمل میں پورے انڈیا میں مسلمانوں نے عید کی نماز بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ادا کی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اب تک اقلیتوں نے برداشت کا دامن تھام کر ہی بھارت کوکسی بڑی خانہ جنگی سے بچا رکھا ہے ۔
2015ء میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کا پہلا بڑا واقعہ باون سالہ اخلاق احمد کا پیش آیا ۔ مجرم پکڑے گئے لیکن کسی پر جرم ثابت نہ کرکے قانون نے مزید سانحات کا دروازہ کھول دیا۔ نتیجتاً ایسے واقعات کی لائن لگ گئی۔ ان میں سے بہت سارے واقعات میں اشتعال پھیلانے اور ہجوم جمع کرنے کا ذریعہ واٹس ایپ بنا ۔ واٹس ایپ کی جعلی ویڈیوز تیزی سے پھیلائی گئیں اور وہی کھیل کھیلا گیا جو 2015ء سے تواترکے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ ایک عرصے تک تو مودی سرکار نے ان واقعات کو نظر انداز کیا ۔
بھارتی حکمراں ریاست کی رِٹ پر اٹھنے والے سوالات سے کنی کترا کترا کر نکلتے رہے ۔ اب ظلم کی انتہا ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ بند باندھنے کا عندیہ ظاہرکرکے ایک بڑا احسان کیا ہے۔ اس کے لیے حکومتی ارکان نے سارا ملبہ واٹس ایپ پر ڈال کر اس کے سی ای او کے ساتھ میٹنگ بھی کی ۔ گوکہ فیک ویڈیوز پر قابو پانا اس وقت پوری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن تیزی سے ترقی پاتی ٹیکنالوجی سے مطابقت رکھنے والے نئے قوانین بنانا اور عوامی رویوں کی اصلاح کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمام واقعات محض افواہوں پر کان دھرنے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ شائننگ انڈیا میں تعلیم کی شرح تو بڑھ رہی ہے مگر اخلاقی اقدارکا گراف مسلسل نیچے آرہا ہے۔ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی اہمیت اور بڑھا دی ہے کیونکہ اب تک بیس قتل کی وارداتیں واٹس ایپ پر وائرل ہونے والی جعلی ویڈیوز کی وجہ سے ہوئیں ۔ اس وقت ہر تین میں سے ایک بھارتی شہری کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ پچھلے سال یہاں ایک سو چونتیس ملین اسمارٹ فون فروخت ہوئے ۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاںہر معاملے میں سوچنے کا زاویہ بدلا ہے وہیں منفی سوچ کے حامل لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کا غلط استعمال بھی کررہے ہیں۔
اسمارٹ فون صرف زندگی کو سہل ہی نہیں بنا رہے بلکہ پوری دنیا میں جرائم کے نت نئے طریقے بھی متعارف کروا رہے ہیں۔ بھارت میں اس وقت دو سو ملین واٹس ایپ یوزرز موجود ہیں، جن کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہجوم گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں حالیہ ہونے والے قتل کا باعث جو واٹس ایپ ویڈیو بنی اس کی تحقیق سے بعد میں ثابت ہوا کہ ویڈیو میں جس بچے کی لاش دکھائی گئی ہے وہ بھارتی نہیں بلکہ شامی بچہ ہے جو نرو گیس کے ایک حملے میں جاں بحق ہوا تھا ۔
یوں تو دو سو ملین واٹس ایپ صارفین کی تربیت کے لیے انڈیا میں اقدامات شروع کردیے گئے ہیں لیکن رویوں کی تبدیلی جس صبر اور مستقل مزاجی کی متقاضی ہے وہ بھارتی قوم کی گُھٹی میں ہی نہیں۔
ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کا مسئلہ صرف بھارت کا ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی بن رہی ہے۔ تمام ریاستوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کے استعمال کے لیے معاشرتی شعور اجاگر کریں اور ان معاشرتی قوانین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں جو جدید دنیا کے نت نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔
بھارت میں شاید داخلی امن کی ضرورت مودی سرکارکو اس لیے محسوس نہیں ہورہی کہ بہت جلد وہ دوسرے سیاروں پرکمند ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں سو زمین پر جتنا گند پھیل رہا ہے ان کی بلا سے پھیلے ۔ اسی ریاستی بے حسی اور بے پروائی کے باعث بھارتی قوم میں غیرانسانی رویے تیزی سے پنپ رہے ہیں ۔ خلا پر جھنڈا گاڑنے کا خواب برا نہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ پہلے اسی زمین کو ہر ایک کے بسنے کے لیے پر امن بنا دیا جائے۔
یہ تحریر میں ہرگزکسی تعصب کی بنیاد پر نہیں لکھ رہی ۔میری نظر میں بھارت سن سینتالیس کے بعد سے ہمارا ایک اہم پڑوسی ملک ہے اور نہایت قابلِ احترام ہے، لیکن معدوم ہوتی ہوئی انسانی اخلاقیات پر بات کرنا بہت ضروری ہے چاہے چوٹ پڑوسی ممالک کی ریاستی پالیسیوں پر ہی کیوں نہ پڑے ۔ بھارت میں یوں تو ہر قسم کے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اس وقت مشتعل بھارتی اکثریت کے ہاتھوں ہونے والے قتل کی لرزہ خیزکارروائیوں نے انتہا پسندی کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور بھارتیوں کے مجموعی اخلاقی رویوں کی بھی قلعی کھول دی ہے، لیکن سلام ہے بھارت کے عالمی طاقتوں سے بہترین تعلقات پر، جو بھارت کے اندر پھیلا ہوا سارا گند چھپا لیتی ہیں اور چوں بھی نہیں کرتیں ۔
کسی واقعے کو بھارتی رسوائی اور جگ ہنسائی کی وجہ نہیں بننے دیتیں ۔ حتیٰ کہ انسانی حقوق کی وہ عالمی تنظیمیں بھی چُپ کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھی ہیں ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پنچایتوں اور جرگوں کی طرف سے دیے جانے والے فیصلوں کو ریاستی رٹ چیلنج کیے جانے کے مترادف قرار دیا اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا بہت شور مچایا ۔ عورتوں کوکوڑے مارنے کی ویڈیوز خوب خوب وائرل کی گئیں ۔
ظلم ہوا، آواز اٹھائی تو صحیح کیا ، ہونا بھی یہی چاہیے، لیکن انسانی حقوق کی پامالی دنیا کے جس حصے میں بھی ہو سب جگہ برابرکا ردعمل دینا ہی عین انسان دوستی ہے ورنہ صرف دھندا ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے تو ماضی میں ہونے والے کئی واقعات کو بنیاد بنا کر پھبتی بھی کسی کہ آخر پاکستانی سرکار ہے کہاں؟ تو جناب پاکستان بھی یہیں ہے اور پاکستانی سرکار بھی ۔ یہ بتائیے بھارتی ریاست کہاں ہے؟ جو سڑکوں پر یوں نہتے اقلیتی بھارتی باشندے اکثریت کے جبرکا شکار ہوکر مارے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے اندوہناک واقعات کی پردہ پوشی کرنے والی طاقتوں کے ساتھ بظاہرکتنے ہی بہتر تعلقات کیوں نہ ہوں ، لیکن وہ حقیقی دوست کہلائے جانے کے قابل نہیں۔
الجزیرہ سے لے کر واشنگٹن پوسٹ، دی گارجین سے لے کر خلیج ٹائمز اور ڈان سے لے کر دی ہندو تک، چاہے کوئی بھی اخبار اٹھا لیجیے، ہر جگہ بھارت میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے اعداد وشمار مل جائیں گے۔ خود بھارتی اخبارات کے مطابق ، سال اور چھ مہینے تو دور، صرف مئی سے لے کر اب تک چوبیس لوگ ''ہجوم گردی'' کا شکار بنا دیے گئے۔
مرنے والوں کا تعلق صرف مسلمان اور دلت برادری سے ہے ۔ بھارت کو اقلیتوں کے وجود سے پاک کرنے کے کریہہ منصوبے کی تکمیل کے لیے بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک اینٹ دھری جا رہی ہے۔ پہلے تواتر سے یہ واقعات '' گاؤ ماتا'' کے تحفظ کے نام پر کیے جاتے رہے۔گائے کا گوشت کھانے والے انسانی خون پینے والوں کے ہتھے چڑھ کر زندگی کی بازی ہارتے رہے۔ اور اب لگاتار کئی واقعات میں بچے اغوا کرنے کے شبے میں نہتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر بیدردی سے مار دیا گیا۔
تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کے باوجود اگر بھارت کسی خانہ جنگی سے بچا ہوا ہے تو اس میں سارا کریڈٹ اقلیتوں کو جاتا ہے جو ہر ظلم کے آگے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں ورنہ اس وقت دنیا کے کتنے ہی خطوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی اور ہولناک جنگیں چھڑی ہوئی ہیں۔گزشتہ سال عیدالفطر سے قبل پندرہ سالہ لڑکے جنید خان کو چلتی ٹرین میں گائے کھانے والا کہہ کر مشتعل ہندؤں نے قتل کردیا تھا ، جس کے ردعمل میں پورے انڈیا میں مسلمانوں نے عید کی نماز بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ادا کی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اب تک اقلیتوں نے برداشت کا دامن تھام کر ہی بھارت کوکسی بڑی خانہ جنگی سے بچا رکھا ہے ۔
2015ء میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کا پہلا بڑا واقعہ باون سالہ اخلاق احمد کا پیش آیا ۔ مجرم پکڑے گئے لیکن کسی پر جرم ثابت نہ کرکے قانون نے مزید سانحات کا دروازہ کھول دیا۔ نتیجتاً ایسے واقعات کی لائن لگ گئی۔ ان میں سے بہت سارے واقعات میں اشتعال پھیلانے اور ہجوم جمع کرنے کا ذریعہ واٹس ایپ بنا ۔ واٹس ایپ کی جعلی ویڈیوز تیزی سے پھیلائی گئیں اور وہی کھیل کھیلا گیا جو 2015ء سے تواترکے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ ایک عرصے تک تو مودی سرکار نے ان واقعات کو نظر انداز کیا ۔
بھارتی حکمراں ریاست کی رِٹ پر اٹھنے والے سوالات سے کنی کترا کترا کر نکلتے رہے ۔ اب ظلم کی انتہا ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ بند باندھنے کا عندیہ ظاہرکرکے ایک بڑا احسان کیا ہے۔ اس کے لیے حکومتی ارکان نے سارا ملبہ واٹس ایپ پر ڈال کر اس کے سی ای او کے ساتھ میٹنگ بھی کی ۔ گوکہ فیک ویڈیوز پر قابو پانا اس وقت پوری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن تیزی سے ترقی پاتی ٹیکنالوجی سے مطابقت رکھنے والے نئے قوانین بنانا اور عوامی رویوں کی اصلاح کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمام واقعات محض افواہوں پر کان دھرنے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ شائننگ انڈیا میں تعلیم کی شرح تو بڑھ رہی ہے مگر اخلاقی اقدارکا گراف مسلسل نیچے آرہا ہے۔ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی اہمیت اور بڑھا دی ہے کیونکہ اب تک بیس قتل کی وارداتیں واٹس ایپ پر وائرل ہونے والی جعلی ویڈیوز کی وجہ سے ہوئیں ۔ اس وقت ہر تین میں سے ایک بھارتی شہری کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ پچھلے سال یہاں ایک سو چونتیس ملین اسمارٹ فون فروخت ہوئے ۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاںہر معاملے میں سوچنے کا زاویہ بدلا ہے وہیں منفی سوچ کے حامل لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کا غلط استعمال بھی کررہے ہیں۔
اسمارٹ فون صرف زندگی کو سہل ہی نہیں بنا رہے بلکہ پوری دنیا میں جرائم کے نت نئے طریقے بھی متعارف کروا رہے ہیں۔ بھارت میں اس وقت دو سو ملین واٹس ایپ یوزرز موجود ہیں، جن کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہجوم گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں حالیہ ہونے والے قتل کا باعث جو واٹس ایپ ویڈیو بنی اس کی تحقیق سے بعد میں ثابت ہوا کہ ویڈیو میں جس بچے کی لاش دکھائی گئی ہے وہ بھارتی نہیں بلکہ شامی بچہ ہے جو نرو گیس کے ایک حملے میں جاں بحق ہوا تھا ۔
یوں تو دو سو ملین واٹس ایپ صارفین کی تربیت کے لیے انڈیا میں اقدامات شروع کردیے گئے ہیں لیکن رویوں کی تبدیلی جس صبر اور مستقل مزاجی کی متقاضی ہے وہ بھارتی قوم کی گُھٹی میں ہی نہیں۔
ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کا مسئلہ صرف بھارت کا ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی بن رہی ہے۔ تمام ریاستوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کے استعمال کے لیے معاشرتی شعور اجاگر کریں اور ان معاشرتی قوانین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں جو جدید دنیا کے نت نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔