پاکستان قیامت تک ہماری شناخت رہے گا وزیراعظم پاکستان

ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام...


ایکسپریس August 15, 2012
’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘اور ’’دی یونیورسٹی آف لاہور‘‘ کے زیر اہتمام ’’میری شناخت پاکستان سیمینار‘‘ کے موقع پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر مہدی حسن، پروفیسر ایم اے رئوف، عارف لوہار، شافع تھوبانی اور اجمل ستار ملک اسٹیج پر بیٹھے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام ''میری شناخت پاکستان سیمینار '' کا انعقاد اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہوا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان راجہ پرویز اشرف تھے جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ، شاعر و ادیب امجد اسلام امجد، دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن ، دی یونیورسٹی آف لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے چیئر مین پروفیسر ایم اے رئوف ، گلوکار عارف لوہار ، دنیا کا کم عمر ترین آئی ٹی انجینئر شافع تھوبانی تھے۔ خطبہ استقبالیہ صدر اسلام آباد کیمپس ، دی یونیورسٹی آف لاہور بریگیڈئر(ر)محمد عجائب نے دیا جبکہ تلاوت کی سعادت حافظ راشد عمار نے حاصل کی۔ سیمینار کی مفصل رپورٹ نذر قارئین ہے۔

راجہ پرویز اشرف
(وزیر اعظم، اسلامی جمہوریہ پاکستان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جشن آزادی کے سلسلے میں اس خوبصورت تقریب کا انعقاد کیااور اسے ''میری شناخت پاکستان '' کا موضوع دیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری شناخت پاکستان ہی ہے، قیامت تک ہماری شناخت پاکستان ہی رہے گا۔ بہت غریب لوگ جب اپنے معاش کی تلاش میں کسی بہتر جگہ جانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں وہاں جاکر بہت محنت کرتے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ ان کے حالات بہتر ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار امراء میں شروع ہوجاتا ہے، آپ نے ایک بات اکثر نوٹ کی ہوگی کہ کوئی چاہے کہیں بھی چلا جائے لیکن جب ہمارا کوئی پیارا ہم سے بچھڑ جاتا ہے اور دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تو اس کا جسد خاکی وہیں پر آتا ہے جو اس کا آبائی علاقہ ہوتا ہے۔

شاید ہمارے بنگلے ، کوٹھیاں اور عالی شان گھر ہماری پہچان نہ بن سکیں لیکن ہمارے آبائو اجداد کی قبریں ہی ہماری پہچان بنتی ہیں۔ پاکستان کی مٹی ہی ہمارا اصل ہے اور ہم نے اسی مٹی میں واپس جانا ہے۔ اس مٹی سے ہمارا تعلق نہ ٹوٹنے والا ہے۔ہماری تحریک آزادی ایک ایسی تحریک تھی جو جمہوری قوت اور جمہوری راہنمائی کی بہترین مثال ہے، جمہوریت عوام سے ہے اور عوامی سوچ ، عوامی قوت و جدوجہدکے ذریعے کامیابی ملتی ہے۔طاقت کے بل بوتے پر آزادی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ دنیا کے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آج تک کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کو عوام کی طاقت کے بغیر آزادی ملی ہو، بڑے بڑے فریڈم فائٹرز بھی گزرے ہیں لیکن ان کو بھی تبھی کامیابی ملی جب ان کے ساتھ عوام شامل ہوئے۔

جمہوریت کے بغیر کوئی اور نظام عوام یا ریاست کے مسائل کا مداوا نہیں کرسکتا۔ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کا مارشل لاء لگا اس وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ، ہمیں سکول میں ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ''ملک میںمارشل لاء لگ گیا ہے اور جنرل ایوب خان نے حکومت سنبھال لی ہے '' اس وقت ہمیں تو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے؟ صرف یہ پتہ تھا کہ کوئی نئی حکومت آگئی ہے۔ ایوب خان نے بہت لمبا عرصہ حکومت کی، اس میں سب سے بڑی کمی یہ تھی کہ جمہوریت نہیں تھی جس کا کوئی بدل نہیں، بنیادی جمہوریت کا جو نظام انہوں نے دیا وہ جمہوریت کا متبادل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس میں فیصلہ سازی کا اختیار اسی ہزار افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا تھا جن کو حکومت وقت کے لئے کنٹرول رکھنا آسان تھا۔

یہ سب پاکستان کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے تھا، جمہوریت کا لبادہ اوڑھے بنیادی جمہوریت کے اس نظام سے ملک میں نفرتیں اتنی بڑھیں کہ آخر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ اگر مذاہب اقوام کو جوڑ کر رکھتے تو دنیا میں جتنے بڑے مذاہب ہیں اتنے ہی ممالک اور ریاستیں ہوتیں، اگر افواج ملک کو جوڑ کر رکھ سکتیں تو ہماری فوج بھی ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے بچالیتی۔ تقسیم پاکستان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی ایسی وفاقی جماعت نہیں تھی جس کا اثر ملک کے دونوں حصوں میں ہوتا اور جس کی جڑیں پورے وفاق میں ہوتیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں جن کی وفاق میں جڑیں ہوتی ہیں ان سے ملک مضبوط ہوتا ہے۔

وفاقی جماعتوں میں ہر زبان، نسل اور قومیت اور طبقے کا بندہ ہوتا ہے، یہ ایک قوت ہوتی ہے جو ایک پروگرام کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ کوئی ٹیکنوکریٹ یا کوئی بیوروکریٹ ملک نہیں سنبھال سکتا، ہم اس کے تجربات کرچکے ہیں۔ کسی بھی ملک کو جوڑ کر رکھنے والی قوتیں سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ یہ ادارے ہم سب کے ہیں۔ اگرچہ سوچ اور منشور مختلف ہوسکتا ہے لیکن ہم سب پاکستانی ہیں، ہم نے اپنی سوچ کو محدود کردیا ہے، ہم سمجھتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں وہی ہو۔ ہم تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی مسئلہ کا حل جمہوریت کے بغیر نہیں ہوسکتا، سینکڑوں سال کی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ وہی نظامِ حکومت چلتا ہے جو عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ جمہوریت ، جمہور سے ہے اور جمہور عوام ہیں، عوامی سوچ، عوامی تگ و دو اور عوامی طاقت اور شعور جمہوریت ہے، جمہوریت کے بل بوتے پر ہی آزادی حاصل ہوتی ہے۔

میڈیا معاشرہ کا سب سے مضبوط جزو ہے، اسے سچ بولنا چاہئے، اس کا قبلہ درست ہونا چاہئے، اسے غیر جانبدار اور پاکستانی سوچ کا حامل ہونا چاہئے۔ میڈیا ہی پاکستان کے لوگوں کو جوڑ کررکھ سکتا ہے۔ پاکستان اتنا برا نہیں جتنا ہم نے اسے بناکر پیش کردیا، یہ رہنے کے لئے اتنی خطرناک جگہ نہیں ہے جتنی ہم نے بنا کر پیش کردی ہے۔ مذہب کا تو پیغام ہی تحمل اور بردباری ہے۔ میڈیا حکومت پر تنقید ضرور کرے لیکن ملک پر تنقید نہ کرے۔ ہم بغیر تحقیق کے الزام لگاتے ہیں۔کوئی قوم کسی دشمن سے زیر نہیں ہوتی، حادثات سے بھی گزر کر اقوام ابھرتی ہیں، قومیں صرف اس وقت مرتی ہیں جب ان کے اندر امید ختم کر دی جاتی ہے۔

ہمیں انہیں دیکھنا چاہئے جن کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہے، ہمیں اپنی سمت ٹھیک کرنی ہے۔ سیاستدانوں میں بھی کوتاہیاں ہیں لیکن میڈیا والوں کو ہمیشہ امید کا چراغ روشن رکھنا ہے اور ملک کے بارے میں مثبت امیج کو ابھارنا ہے۔ ایکسپریس نے بہت اچھا کام کیا ہمیں شافع جیسے آئی ٹی سرٹیفائیڈ کم عمر بچے کو دیکھ کر ہمت کرنی چاہئے۔جس قوم کے اندر ایسے ٹیلنٹڈ بچے ہوں،اس کے ہاں امید کا چراغ گل نہیں ہوسکتا۔ ہم اپنے ملک پر فخر کریں اور اسے اچھا کہیں۔ ہماری سب سے بڑی شناخت ہماری قومی زبان ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں بی اے میں پہلی پوزیشن تندور میں روٹیاں لگانے والے نے لی، تیسری پوزیشن ایسی لڑکی نے لی جس کے بہن بھائی سماعت سے محروم ہیں اور جو اپنے والد کے ساتھ خراد کی مشین پر کام کرتی ہے۔میڈیا ایسے لوگوں کے بارے میں بتائے قوم کی مثبت تصویر سامنے لائے نہ کہ اپنے پروگراموں میں سیاستدانوں کو آپس میں لڑواکر تماشا دیکھے۔ اچھے کام کرنے والوں کو دکھائیں۔شافع جیسے بچوں کو آگے لائیں، میں آج کے اس سیمینار میں اس بچے کے لئے دس لاکھ روپے انعام کا اعلان کرتا ہوں جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

قمر زمان کائرہ
(وفاقی وزیر اطلاعات )

میں ایکسپریس میڈیا گروپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے یوم آزادی کے حوالے سے ہرسال کی طرح آج بھی اس سیمینار کا اہتمام کیا اور اس میں ہمیں بھی موقع دیا کہ ہم اپنے ملک کی محترم ترین شخصیات کے ساتھ بیٹھ سکیں ان سے رہنمائی لے سکیں۔

پاکستان کی شناخت کے بہت سے پہلو ہیں جن پر اس مختصر وقت میں روشنی ڈالنا ممکن نہیں، آج ہم جن حالات کا شکار ہیں ان کے پیش نظر ہمیں پاکستان کے اندر شناخت کا ایک مسئلہ نظر آتا ہے،65سال بعد آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ تو پہلے دن ہی حل ہونا چاہیے تھا۔ آزادی کی تحریکوں میں بہت کم وہ قومیں ہیں جن کو شناخت کا سامنا ہوا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ ملک بنا تھا اسی وقت یہ ریاست بھی بنی تھی۔

ہمارے وہ سیاسی قائدین جنہوں نے اس ملک کے حصول کے لئے جدو جہد کی ان کے فلسفوں میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے اتار چڑھائودیکھنے میں آئے لیکن آخر کار سب اس بات پر متفق ہوئے کہ پاکستان مختلف قومیتوں پر مشتمل ایک ملک ہوگا سب کو ایک جگہ کس طرح اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے ہمارے سیاسی قائدین نے پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کا تصور دیا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہمارے قائد اللہ کو پیارے ہوگئے، وہ بیوروکریٹ جن کا پاکستان کے حقیقی ویژن سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا وہ برسراقتدار آگئے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ رہا کہ پاکستان کو کس طرح چلانا ہے اور اِسی خواہش اور کوشش میں کئی تجربات کرڈالے اسی میں ہم پاکستان کو دو ٹکڑے کر بیٹھے۔

پاکستان کے عوام کو پہلی مرتبہ اپنے نمائندے چننے کا حق انیس سو ستر میں ملا۔ ہم کبھی ترقی کے نام پر ملک چلانے کی کوشش کرتے رہے، ایوب دور میں ملک میں صنعتی و زرعی ترقی تو ہوئی لیکن یہ سب کچھ ملک کو ٹوٹنے سے نہ بچاسکا کیونکہ یہ اس بنیادی فلسفہ کی نفی تھا کہ یہ ایک وفاق ہوگا، ملک کو وحدانیت کی طرح چلایا گیا، آمریت بھی وحدانیت پر چلاتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک رہنے کے لئے بنا اگر یہ رہنے کے لئے بنا تھا تو پھر یہ ٹوٹا کیوں؟ ہمیں اسے بچاکر رکھنا ہے اور اس کے بنیادی اصولوں کے تحت چلانا ہے ورنہ فوج، پارلیمنٹ یا عدلیہ سمیت کوئی ادارہ اسے نہیں بچاسکتا۔1970ء میں وفاقیت کا معاہدہ ہوا اس سے قبل ایک فرد واحد کا بنایا ہوا نظام کام کر رہا تھا۔اس وقت کو ئی قومیت کی بات کرتا تھا تو اسے غدار کہا جاتا تھا۔

جمہوریت، وفاقیت اور وفاقی اکائیوں پر یقین رکھتی ہے۔ تہتر کا آئین ملک کی اس وقت کی سیاسی قیادت کی طرف سے دیا گیا، یہ ایسا عمرانی معاہدہ ہے جس نے لوگوں کو آپس میں باندھ دیا۔77ء میں پھر وفاقی کی بجائے وحدانیت سے کام لیا گیاآج کے سارے مسائل کی جڑ ضیاء الحق ہیں، پاکستان بننے سے لے کر1977ء تک جو حاصل کیا گیا وہ 1950ء کے غیر جماعتی انتخابات نے ڈھادیا۔ اگر فکری تحاریک نہ ہوں تو لوگ بکھر جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ انہی فکری سوچوں پر مشتمل عوام کی آراء ہوتی ہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں ملک میں انتخابات ہوئے لوگوں نے ملک کو مضبوط بنانے کا کام شروع کیا لیکن ہمارے ہاں ایک کے بعد دوسری آمریت آجاتی ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ہاں دہشت گردی، انتہاء پسندی ہے، تحمل اور برداشت ختم ہوچکی ہے، مختلف سوچ رکھنے والوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ختم ہوچکا ہے، ہم اقلیتوں اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ضیاء کی سوچ کی وجہ سے مسائل ہی مسائل ہیں آج جماعتیں مضبوط نہیں امیدوار مضبوط ہیں۔ بینظیر کی حکومت دو مرتبہ ختم کی گئی، دو مرتبہ نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا اور انہیں جان بچانے کے لئے ملک سے باہر جانا پڑا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی اور دوسرے وزیراعظم کو نا اہل قرار دے دیا گیا ہے، کیا یہی ہماری شناخت اور پہچان ہے؟ کل کسی ایک ادارے کو شک تھا کہ وہ پاکستان کو مضبوط کرسکتا ہے تو آج یہی شک ایک دوسرے ادارے کو ہے۔

جب آمریت جاتی ہے تو ملک میں ارتعاش ہوتا ہے، جمہوریت عوام کے زخموں پر پھاہا رکھتی ہے، آج بلوچستان ہمیں جلتا نظر آرہا ہے۔ہماری حکومت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اس لئے جیتی گئی کہ فوج کے پیچھے پوری قوم کھڑی تھی اور عوام نے اسے اونر شپ دی۔ مسئلہ کا حل صرف سیاست اور جمہوریت میں ہے جمہوریت کے ہی کمالات ہیں کہ آج آئین میں بہترین ترامیم کی گئیں اور اسے بہتر شکل میں لایا گیا ہے، صدر نے اپنے اختیارا پارلیمنٹ کو دے دئیے اور یوں جمہوری طاقت کے مرکز کو اس کا اختیار دیا گیا۔

آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آیا پارلیمنٹ بالادست ہے یا کوئی اور ادارہ ہے؟ پاکستان کا وہ ادارہ جو صوبائی قومیتوں اور عوام کا ضامن ہے وہ پارلیمان ہے، ہمیں پارلیمان کو بے توقیر نہیں کرنا، پارلیمان کو بے توقیر کرکے نظام کو گالی مت دیں۔پیپلز پارٹی سے اختلاف ہے تو اسے جو مرضی کہیں لیکن سسٹم کو گالی نہ دیں، جمہوریت نہ رہی تو ملک نہیں چلے گا۔

بریگیڈئر(ر)محمد عجائب
(صدر اسلام آباد کیمپس، دی یونیورسٹی آف لاہور)

خواتین و حضرات ! میں تہہ دل سے آپ کی آمد کا شکر گزار ہوں۔یہ سیمینار جشن آزادی کے سلسلے میں ہمارے ان ہیروز کی خدمات کے اعتراف میں منعقد کیا گیا جن کی اپنے اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات ہیں۔ اس سیمینار کا انعقاد ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ دس سال قبل دی یونیورسٹی آف لاہور اور ایکسپریس میڈیا گروپ نے اپنی زندگی کا سفر اکٹھے ہی شروع کیا تھا۔ دونوں نے بے پناہ ترقی کی۔ آج ہمیں فخر ہے کہ دی یونیورسٹی آف لاہور میں ناصرف پندرہ ہزار طلبا و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں بلکہ یونیورسٹی نے ہر شعبے میں ایک منفرد مقام پیدا کیا ہے۔

ہماری یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی ان چھ یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے جو دنیا کی نامور ترین یونیورسٹیوں کی صف میں کھڑی ہیں۔دی یونیورسٹی آف لاہور ایشیاء کی ٹاپ 300یونیورسٹیوں میں شامل ہے ، گو کہ ہم نے بڑی محنت کی، ہمارے چیئرمین پروفیسر ایم اے رئوف نے اپنی ہر چیز یونیورسٹی کے لئے وقف کر دی۔ اس سیمینار کے ذریعے میں اپنے طلبا اور پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا ایک قومی تشخص ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہونا ہے۔ ہمارے طلبا نے زلزلے کے بعد جس طرح امدادی کاموں میں حصہ لیا وہ سب کے سامنے ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد گلگت بلتستان سے لے کر جنوبی پنجاب تک جس انداز سے کام کیا ہمیں اس پر فخر ہے۔

ہم اپنے طلبا کو یہ بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے وہ محسن جنہوں نے اس قوم کی خدمت کی وہ ہمارے دلوں میں عزت و احترام کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔ ان محسنوں میں وہ بھی شامل ہیں جو آج اس سٹیج پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ فوجی ، شہری بھی شامل ہیں جنہوں نے ہماری آزادی کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ وہ قومیں جو اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہیں، جن قوموں کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے وہ قومیں مشکلات کے باوجود ترقی کرتی ہیں، دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو سرنگوں نہیں کرسکتی۔ گذشتہ صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس اور جرمنی مکمل تباہ ہوگئے تھے ان کے اندرقومی تشخص کا جذبہ موجود تھا جس نے آج پھر ان دونوں قوموں کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن
(دانشور و ماہر تعلیم)

تعریفوں کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا گلہ بھی سن لینا چاہیے، ویسے بھی ہمارے ملک کے اس وقت جو حالات ہیں اس میں تو بہت گلے بنتے ہیں۔ جب پاکستان کی شناخت کی بات ہوتی ہے تو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کا کوئی قومی فلسفہ اور نظریہ نہیں ہے، ہم نظریاتی خلا میں زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں 11اگست 1947ء کو جو ویژن ہمارے قائد نے دیا تھاوہ ہم نے اسی دن بھلا دیا تھا ، جب قائد اعظم تقریر کرکے گورنر ہائوس پہنچے تھے تو ایک بیوروکریٹ نے اخبارات کو پریس ایڈوائس جاری کی تھی کہ اس تقریر کا مکمل متن شائع نہ کیا جائے، سب اخبارات نے اس ایڈوائس پر عمل کیا لیکن ڈان اخبار نے اس پر عمل نہیں کیا۔

ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین تھے جو محمد علی جناح کے ساتھ پہلے بھی بہت کام کر چکے تھے، انہوں نے تین رپورٹرز کی ڈیوٹی لگائی کہ معلوم کرو یہ آرڈر کس نے جاری کیا ہے؟ ۔ رپورٹرز نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ ''یہ آرڈر کیبنٹ سیکرٹری (جو اس زمانے میں سیکرٹری جنرل کہلاتا تھا ) جس نے آئی سی ایس (انڈین سول سروس )کیا ہوا تھا نے جاری کیا''۔ الطاف حسین نے انہیں فون کیا کہ ''میں قائد اعظم کے پاس جارہا ہوں میں ان سے شکایت کروں گا کہ آپ نے ان کی تقریر سنسر کی ہے''۔اس پر اس آفیسر نے جواب دیا کہ یہ نقطہ نظر کا معاملہ ہے، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ''قائد اعظم کی یہ تقریر دو قومی نظریہ کی نفی تھی''۔

مجھے اس بیوروکریٹ کے اس بیان پر دو اعتراض ہیں پہلا یہ کہ کیا کسی سرکاری ملازم کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسرا اعتراض ہے کہ ''آئی سی ایس کر لینے کے بعد کیا وہ آفیسر یہ سمجھتے تھے کہ وہ دو قومی نظریے کے تصور کو قائد اعظم سے بہتر تشریح کر سکتے تھے؟ جس قائد اعظم نے ساری زندگی اس نظرئیے پر کام کیا اور ایک ملک بنایا''۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ صاحب 1955-56ء میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے۔

جب ایسے لوگ وزیر اعظم بنیں گے تو پھر ہماری کیا پہچان ہوگی؟ پھر وہی پہچان ہوگی جو آج کل بنی ہوئی ہے، ہم ایک منقسم معاشرہ ہیں، اس میں 162 سیاسی جماعتیں ہیں جن میں سے 58پارٹیاں مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم ہیں، جو ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کفر کے فتوئے بہت آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں، مجھ پر قتل اور کفر کے فتوئے کئی بار لگ چکے ہیں کیونکہ مجھے سچ بولنے کی ''بری '' عادت ہے۔

یہاںجو فرقہ وارانہ تنظیمیں بن رہی ہیں یہ پاکستان کو کیا پہچان دے رہی ہیں؟ دنیا میں جہاں کوئی غلط کام ہوتا ہے ہمارا دل ڈرتا ہے کہ یا اللہ! کوئی پاکستانی اس میں ملوث نہ ہو،اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر و بیشتر ان میں پاکستانی ہی ملوث ہوتے ہیں، ہماری دنیا میں یہ پہچان بن کر رہ گئی ہے، اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ضیاء الحق کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں، مگرسوال یہ ہے کہ اُس فصل کو کاٹ تو دیں۔ ہم نے 40ہزار لوگوں کی قربانیاں دی ہیں ان لوگوں کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو ہم سے زیادہ بہتر مسلمان سمجھتے ہیں ، اس میں سے پانچ ہزار سکیورٹی فورسز کے جوان بھی شامل ہیں باقی 35ہزار غریب آدمی مارے گئے ہیں۔

یہ پہچان ہماری بن چکی ہے ، اس کو ختم کرنا ہے تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ''میری شناخت پاکستان '' اس صورتحال کو بدلنے کے لئے ہمیں اپنا نصاب تعلیم بدلنا ہوگا، ٹیچرز ٹریننگ تبدیل کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پرائمری سکولوں کے موجودہ اساتذہ وہ ایک ماڈرن، پروگریسو اور ڈیموکریٹک نسل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں ان کا سوشل سٹیٹس بدلنا پڑے گا ، ہم نے ان کو جو اب سٹیٹس دیا ہوا ہے اس میں کوئی اچھا ٹیلنٹڈآدمی ٹیچر بننا پسند نہیں کرے گا ، وہی آدمی پرائمری سکول کا ٹیچر بنتا ہے جسے کوئی اور کام نہیں ملتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل ان باتوں کو سمجھے گی اور صرف نعرے بازی پر یقین نہیں رکھے گی، نعرے تو ہم 65سالوں سے سن رہے ہیں۔پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کی کوشش کریں۔

امجد اسلام امجد
(ادیب و شاعر )

امجد نہ قدم روک کہ وہ دور کی منزل
نکلے گی کسی روز اسی گرد سفر سے

65سال بعد بھی ہم آج بحث کر رہے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے؟ حالانکہ ہمیں اس بحث سے بہت آگے نکل جانا چاہیے تھا۔جیسا کہ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ''جو کام وقت پر نہیں ہو پاتے بعد میں ان کی عجیب و غریب شکلیں بن جاتی ہیں''۔ میں یہاں ایک قصہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ایک آدمی گھر میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ تاش کھیل رہا تھا اس کا چھوٹا سا بچہ بار بار آتا اور انہیں ڈسٹرب کرتا، باپ نے میز پر پڑے ہوئے دنیا کے ایک نقشے کو پھاڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے بچے کو کہا کہ'' یہ ٹکڑے لے جائو اور انہیں ٹھیک طریقے سے جوڑ کر لائو، جب تک یہ مکمل نہیں جڑتا تب تک تم نے میرے پاس نہیں آنا'' باپ کا خیال تھا کہ اس کام میں وہ بچہ گھنٹوں لگائے گا اور ہمیں ڈسٹرب نہیں کرپائے گا لیکن وہ باپ حیران رہ گیا جب دس منٹ بعد ہی وہ بچہ نقشے کو بالکل ٹھیک طریقے سے جوڑ کر لے آیا۔

باپ نے پوچھا ''بیٹا تم نے دنیا کے اس نقشے کو کس طرح اتنی جلدی جوڑ دیا؟ '' بیٹے نے جواب دیا کہ ''ابا! آپ اس کاغذ کو الٹا کر دیکھیں '' نقشے کے پیچھے ایک انسان کی تصویر بنی ہوئی تھی ، بچے نے مزید کہا کہ ''میں نے انسان کو جوڑا ہے دنیا خودبخود جڑتی چلی گئی''۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کا نقشہ بھی ہم سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے، ہم دیکھنے کی کوشش کریں تو اس کے پیچھے بھی ہمارے عوام کی تصویربنی ہوئی ہے اس تصویر کو جوڑ لیا جائے تو پاکستان اپنے آپ جڑ جائے گا۔ پاکستان کے ابتدائی لیڈروں میں زیادہ تر جاگیردار تھے ان کے بعد بیوروکریٹ آئے ، پھر فوجی حکمران تشریف لائے اور آخر میں تاجر حضرات بھی شامل ہوگئے، ان چاروں کے بنائے ہوئے''ویژن '' میں ہم لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔

تین چیزیں ہمیں جوڑ سکتی ہیں، سب سے پہلا ہمارا نظام تعلیم ہے، دوسرے نمبر پر میرٹ اور تیسرے نمبر پر انصاف ہے۔ معاشرے کی یہ تین چیزیں ٹھیک کر لیں تو ہمیں اپنی شناخت پر بات نہیں کرنا پڑے گی بلکہ دنیا عزت سے ہمارا نام لے گی اور ہماری شناخت خودبخود ہوجائے گی۔ ہمیں نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی زبان کو فروغ دینا چاہیئے ۔ مجھے دکھ ہوا کہ ترکی کے صدر و وزیراعظم پاکستان آئیں تو وہ ترکی زبان میں بات کرتے جبکہ ہمارے صدر اور وزیراعظم انگریزی میں جواب دیتے ہیں۔

جب مترجم نے ترجمہ کرنا تھا تو ہمارے صدر و وزیراعظم کو بھی اپنی قومی زبان میں جواب دینا چاہیئے تھا ۔ ہر وزیر اعظم اپنے اپنے دور میں ملک و ملت کے ترجمان ہوا کرتے ہیں، لیاقت علی خان سے لے کر موجودہ وزیراعظم تک ، سب اپنے اپنے دور کے ترجمان ہوتے ہیں ، عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ صرف حکمرانوں کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے اپنے اوپر بھی نگاہ ڈالیں اور اپنی خامیاں بھی دور کریں ۔

شافع تھوبانی
(کم عمر ترین ترین آئی ٹی انجینئر)

میں اس وقت یہاں اپنے پاپا کا پرائوڈ بیٹا بن کر نہیں بلکہ ایک پرائوڈ پاکستانی بن کر کھڑا ہوں، میں نے جو ورلڈ ریکارڈ توڑا ہے وہ مشکل کام تو تھا لیکن ایک پاکستانی کے لئے مشکل نہیں تھا۔ میں پوری دنیا کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں ہے، میں پورے پاکستان کے بچوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیںاور کھیل کم کریں۔ آئو مل کر ہم سب بچوں کی ایک فورس بنائیں انہیں فیس بک پر ایڈ کریں، ہم بچوں کی ایک فورس بنا کر پاکستان کو اور مضبوط کریں گے۔

اک نئی صبح نغمے سنا رہی ہے
منزل میرے پاس آرہی ہے
میں نے کیا پرچم کو بلند
پرچم نے کیا ہے مجھ کو بلند
میں بن گیا ہوں پاکستان
اب تم بھی بنو پاکستان

عارف لوہار
(گلوکار)

میں پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کر چکا ہوں اور مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ کئی مرتبہ ایسے ملکوں میں بھی جانا ہوا جہاں وہ سہولیات میسر نہیں تھیں جو اللہ پاک نے ہمیں اپنے وطن میں عطا کررکھا ہے۔ روس جب ٹوٹا تو اس کے فوری بعد مجھے وہاں بھیجا گیا جب میں الماتی گیا تو میں وہاں اکیلا ہی پاکستانی تھاجس نے پرفارمنس کرنی تھی، وہاں پر جیسے لائن میں لگ کر لوگ روٹی لیا کرتے تھے تب میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں اس دھرتی سے تعلق رکھتا ہوں جس کے باسی احساس کرنے والے ، محبت کرنے والے ہیں۔ میرے والد حاجی محمد عالم لوہار مرحوم نے میرے لئے جو ورثہ چھوڑا وہ میرے لئے بہت بڑا اثاثہ ہے، چند اشعار اس محفل کی نذر کرتا ہوں کہ

میرے دیس تے مالکا سدا کردا رویںاحسان
تیرا وسے کعبہ سوہنیا ، میرا وسے پاکستان

میری دعا ہے کہ اللہ پاک میرے اس دیس کو ہمیشہ قائم رکھے، مشکلیں آتی رہتی ہیں لیکن ہم ان مشکلات سے منہ موڑ کر بھاگنے والے نہیں ہیںبلکہ جوانمردی سے ان کا مقابلہ کرنے والے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ قوم اپنے ملک کے لئے دل میں جذبہ رکھتی ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ

ہم پختون نہ پنجابی ، سندھی نہ بلوچستانی ہیں
ایک خدا اور ایک نبیؐ،ہم سارے پاکستانی ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں