پاک بھارت مذاکرات وقت کا تقاضا
پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا البتہ بھارت نے ہی ہر بار مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔
LONDON:
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے موجودہ حکومت کا مؤقف واضح ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ دہلی ایک قدم آگے بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے، اب گزشتہ روز وزیر اطلاعات نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت کو مذاکرات اور تعلقات میں بہتری کے جو اشارے دیے انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے، انڈیا کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
خطے میں امن نہ ہوا تو سب پیچھے رہ جائیں گے، پاکستان جلد ہی بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور بارڈر کھول دے گا جس کے بعد یاتری ویزے کے بغیر گوردوارہ دربار صاحب کے درشن کر سکیں گے، ہم اداروں کے ساتھ ہیں اور ادارے ہمارے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہاکہ حکومت اور فوج دونوں ہی خطے میں امن کے لیے انڈیا سے بات چیت کرنے کی خواہشمند ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بھارت میں جو سرکار برسراقتدار ہے وہ ہندو انتہاپسندی کی لہر پر اقتدار میں آئی ہے۔
پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا البتہ بھارت نے ہی ہر بار مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ بھارت نے تنازع کشمیر کے حل کی جانب کبھی پیش قدمی نہیں کی۔ یہی نہیں بلکہ نسبتاً آسان تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب پانی کے تنازعے پر بھی بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت مسلسل مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں پر ڈیم اور بیراج بنا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زیرزمین پانی بھی کم ہو رہا ہے۔ اب موجودہ حکومت نے بھی بھارت کی جانب خوش دلی سے ہاتھ بڑھایا ہے۔ بھارتی قیادت کو بھی مثبت جواب دینا چاہئے۔
بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کسی بھی مسئلے کا من مرضی کا حل تلاش نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے مذاکرات کا آپشن ہی استعمال کرنا پڑے گا لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے اور پاکستان کے ساتھ موجود متنازعہ معاملات پر بات کرے تاکہ کشیدگی کی فضا ختم ہو سکے اور دونوں ملک تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
پاکستان کی جانب سے کرتارپور سرحد کو کھولنے کی بات بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے لازمی طو رپر مثبت پیش رفت کا آغاز کرنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ وجدل سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ موجودہ خوش گوار فضا سے بھارتی قیادت کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور پاکستان کو مذاکرات کے حوالے سے مثبت جواب دینا چاہئے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے موجودہ حکومت کا مؤقف واضح ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ دہلی ایک قدم آگے بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے، اب گزشتہ روز وزیر اطلاعات نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت کو مذاکرات اور تعلقات میں بہتری کے جو اشارے دیے انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے، انڈیا کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
خطے میں امن نہ ہوا تو سب پیچھے رہ جائیں گے، پاکستان جلد ہی بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور بارڈر کھول دے گا جس کے بعد یاتری ویزے کے بغیر گوردوارہ دربار صاحب کے درشن کر سکیں گے، ہم اداروں کے ساتھ ہیں اور ادارے ہمارے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہاکہ حکومت اور فوج دونوں ہی خطے میں امن کے لیے انڈیا سے بات چیت کرنے کی خواہشمند ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بھارت میں جو سرکار برسراقتدار ہے وہ ہندو انتہاپسندی کی لہر پر اقتدار میں آئی ہے۔
پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا البتہ بھارت نے ہی ہر بار مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ بھارت نے تنازع کشمیر کے حل کی جانب کبھی پیش قدمی نہیں کی۔ یہی نہیں بلکہ نسبتاً آسان تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب پانی کے تنازعے پر بھی بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت مسلسل مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں پر ڈیم اور بیراج بنا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زیرزمین پانی بھی کم ہو رہا ہے۔ اب موجودہ حکومت نے بھی بھارت کی جانب خوش دلی سے ہاتھ بڑھایا ہے۔ بھارتی قیادت کو بھی مثبت جواب دینا چاہئے۔
بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کسی بھی مسئلے کا من مرضی کا حل تلاش نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے مذاکرات کا آپشن ہی استعمال کرنا پڑے گا لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے اور پاکستان کے ساتھ موجود متنازعہ معاملات پر بات کرے تاکہ کشیدگی کی فضا ختم ہو سکے اور دونوں ملک تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
پاکستان کی جانب سے کرتارپور سرحد کو کھولنے کی بات بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے لازمی طو رپر مثبت پیش رفت کا آغاز کرنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ وجدل سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ موجودہ خوش گوار فضا سے بھارتی قیادت کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور پاکستان کو مذاکرات کے حوالے سے مثبت جواب دینا چاہئے۔