’’مسئلہ کراچی‘‘ کے لیے بھی جے آئی ٹی بنا دیں
آخر کراچی کے ساتھ ایسا کیا ہُوا ہے کہ مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
WASHINGTON:
٭ معاملہ سنگین ہو اور فوری طور پر اس کو حل کرنے میں مشکلات در پیش آرہی ہوں تو پاکستان جیسے ملک میں اس کا علاج جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی ہی نظر آرہی ہے۔ کرپشن کا کیس ہو یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی کہانی، منی لانڈرنگ ہو یا اقربا پروری کے ذریعے ملکی خزانہ لُوٹنے کی داستان ، ملزمان کو مجرم ثابت کرنے یا کسی بے گناہ کی بے گناہی کا اعلان کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ جے آئی ٹی معاملات کی بھرپور تحقیقات کرے اور اصل مجرموں کا تعین کرے۔
میں یہ سوچ رہا ہُوں کہ ہماری محترم عدلیہ کے نوٹس لینے پر اور پھر عدالتی احکام کی روشنی میں قانون نافذکرنے والے ادارے، فوج، پولیس، رینجرز اور دیگر تفتیشی ادارے جس طرح ملک بھر میں انسداد بد عنوانی اور انسداد دہشت گردی کے لیے کام کررہے ہیں ، وہ قابل قدر ہے اور اس پر دو رائے ہوہی نہیں سکتی کہ پاک سرزمین سے بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے۔
جب یہ بات طے ہے کہ ہرکیس میں جے آئی ٹی بہت کلیدی کردارادا کرتی ہے اور اس کے ذریعے معاملے کو سلجھانے میں بھی مدد ملتی ہے توکیوں نہ اس سے فائدہ شہرِ قائد میں بھی اٹھایا جائے۔
مجھ جیسے طالبعلم کی رائے میں کراچی کے شہری جن مسائل اور مشکلات کو دہائیوں سے جھیل رہے ہیں، اُن کے حل کے لیے بھی اب کراچی کو جے آئی ٹی کی ضرورت ہے ۔
کراچی والوں کوکسی سے کچھ نہیں چاہیے سوائے اپنے مسائل کے حل کے، برسوں گزرگئے لیکن اہلِ کراچی کے مسائل وہی کے وہی ہیں ، جنھیں دیکھتے دیکھتے کئی بچے ، بڑے ہوئے اور رفتہ رفتہ انہی مسائل کی حدت سے سلگ سلگ کر بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئے۔
قلت آب، پبلک ٹرانسپورٹ کی ابتر صورتحال، نکاسی آب کی انتہائی خراب حالت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا سنگین مسئلہ، شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر، اسٹریٹ کرائمزکا نہ رُکنے والا سلسلہ، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب، چوریاں اور ڈکیتیاں، بے روزگاری کا مسلسل پھیلتا عفریت، مہنگائی کا بے قابو جن ، یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہر شخص اور ہر سیاسی پارٹی اُس وقت ضرور آواز اٹھاتی ہے جب وہ حکومت میں نہیں ہوتی لیکن عملی طور پر مسائل کا حل دیکھنا ابھی تک کراچی والوں کو نصیب نہیں ہُوا ۔
کراچی کے مسائل کوئی انوکھے نہیں، دنیا بھر میں ایسے مسائل اور معاملات پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کا حل طویل المدتی بنیادوں پر نکالا جاتا ہے اور ہرکوئی اپنے مفادات کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے جس کی وجہ سے مسئلے ماضی کا قصہ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اور خاص طور پرکراچی شہر کو درپیش مسائل ماضی کا قصہ نہیں بلکہ حال کا حصہ بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ارباب اختیار اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے کبھی بھی اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کیں، عوامی مسائل اور شہریوں کی فریاد ایک دوسرے پر الزام تراشی کی گونج میں دبا دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شہر ہر قسم کے مسائل میں گِھرا ہُوا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کراچی کے شہریوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ معروف شاعر غلام محمد قاصر نے ایسی ہی صورتحال کے لیے کہا تھاکہ
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق ِ سفر ایسا اک عمر سے یارو نے
منزل بھی نہیں پائی ، رستہ بھی نہیں بدلا
میری رائے میں یہ چار مصرعے کراچی اورکراچی میں رہنے والوں کی حالت کی بھرپور عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
میری حقیر رائے میں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے بنائی جانے والی مجوزہ جے آئی ٹی کے لیے سب سے اہم کام تو ہوگا کہ سب سے پہلے تو اُن عناصرکی نشاندہی کرے جو ان مسائل کے حل میں برسوں سے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ اُن کے اپنے مفادات مسائل حل نہ ہونے میں ہی پنہاں ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل نُکات پر چل کر ''مسئلہ کراچی'' کا حل نکالا جاسکتا ہے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی مفاد میں کام کیا جائے۔
٭ شہرکے نظام کی بے ترتیبی کا سب سے بڑا سبب قانون کا دہرا نظام اور وی آئی پی کلچر ہے، اگر شہر بھر میں قانون سب کے لیے یکساں ہوجائے توکئی مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہوجائیں گے۔ جن ممالک اور اقوام کو ہم بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں ، اُنھوں نے ترقی اسی لیے کی کہ وہاں قانون سب کے لیے برابر ہے۔٭ شہر بھر میں ہر محلے میں وہاں رہنے والوں پر مشتمل خصوصی کمیٹیاں بنائی جائیں جو علاقے میں صفائی ستھرائی کے کاموں کی نگرانی کریں، سنگین مسائل کی طرح ارباب اختیار کی توجہ مبذول کرائیں۔ یونین کونسلز اسی لیے بنی ہیں لیکن یہاں معاملہ اختیارات ہونے اور نہ ہونے کا ہے جس کی وجہ سے مسائل کے حل کے لیے پیشرفت نہیں ہو پا رہی۔ اس طرف توجہ دینے کی خاص ضرورت ہے۔٭ قانون شکنی ہو، سگنل توڑنا ہو، غلط پارکنگ ہو یا سر عام رہائشی علاقوں یا راستوں پرکچرا پھینکنا، ایسے تمام ''جرائم'' کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ مرتکب افراد کو فوری طور پر سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ وہ ایسی حرکات نہ کریں اور دوسرے عبرت حاصل کریں۔ ضروری ہے کہ شہرکی خوبصورتی، اس کے ماحول اور عوام کے لیے پریشانیوں کا باعث بننے والوں کو ایسی سزائیں ملیں جو آئندہ کے لیے مسائل کا راستہ روک سکیں، اب صرف تنبیہہ سے کام نہیں چلے گا۔٭ یہ نعرے ہم نے بہت سُنے، یہ وعدے بھی شہر والوں سے کیے گئے اور بہت سارے لوگوں نے یہ دعوے بھی کیے کہ
''شہر کراچی کی ترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرینگے''،
''کراچی والوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گیُ''،
''جلد شہرکو جرائم اور جرائم پیشہ عناصر سے نجات مل جائے گی''
''اہل کراچی کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل ہونگے''،وغیرہ وغیرہ
مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہُوا ۔ جب بھی دعوے اور وعدے کرنے والوں سے پوچھا گیا تو کبھی مخالفین پر سارا ملبہ ڈال دیا گیا،کبھی نظام کو ذمے دار ٹھہرایا گیا، کبھی مختلف واقعات اور اقدامات کو کام نہ ہونے کی وجہ گردانا گیا اورکبھی کراچی والوں کے سب خواب پورے کرنے کے لیے کچھ وقت مانگ لیا گیا۔ یہ ہمارے شہرکراچی کی افسوسناک، پُر غم اور درد بھری کہانی ہے۔
جے آئی ٹی بناکر اس بات کا بھی کھوج لگانا چاہیے کہ آخر کراچی کے ساتھ ایسا کیا ہُوا ہے کہ مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم مسائل کے حل کی جانب بڑھے بھی نہیں ہیں۔ سارے معاملات چھوڑکر ہمیں یعنی کراچی کے باسیوں کو تو ''مسئلہ کراچی'' کے لیے جے آئی ٹی کے قیام کی خبرکا انتظار ہے۔ ایسی جے آئی ٹی جو کراچی کے رِستے زخموں پر مرہم رکھے۔ مسائل کے انبار میں دبے شہریوں کو خوشی کے کچھ لمحات فراہم کرے۔
ارباب اقتدار و اختیارکو شہر ِ قائد کے لیے اب تو کچھ کرنا ہی ہوگا ورنہ یہ حقیقت ہے کہ
ضمیرمرتا ہے احساس کی خموشی سے
یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی