ایک پیج پر
سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں استواری کی وجہ عمران خان کا اچھا امیج ہے۔
پاکستان میں اب تک جتنی بھی جمہوری حکومتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے مخصوص کردار کی وجہ سے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل نہیں رہی اور شاید اسی لیے وہ اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بہت خوش قسمت ہے کہ اس کے اسٹیبلشمنٹ سے خوشگوار اور مضبوط تعلقات کی خبر آئی ہے اور اس خوش خبری سے قوم نے اطمینان اور سکون کا سانس لیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پہلی باقاعدہ ملاقات نہایت خوشگوار رہی ہے، انھوں نے وہاں کافی وقت گزارا جب کہ اس سے قبل کسی وزیر اعظم نے وہاں اتنا وقت نہیں گزارا تھا۔ عمران خان نے صحافیوں سے اپنی ایک ملاقات میں جی ایچ کیو پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ آرمی چیف کا جمہوریت پر پختہ یقین ہے وہ جمہوریت کی ملک میں مضبوطی کے خواہاں ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں استواری کی وجہ عمران خان کا اچھا امیج ہے۔ دونوں مل کر ہر مسئلے پر اکٹھے ہوکر کام کریں گے تو ملک کا گرا ہوا امیج ضرور بحال ہوگا اور اندرون خانہ بھی کھینچا تانی کی فضا ختم ہوجائے گی۔ یوں عمران خان ملک کے پہلے خوش قسمت وزیر اعظم ہوں گے جنھیں اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں کم ہی مشکلات پیش آئیں گی اور اس طرح جمہوریت بھی پٹری سے اترنے سے محفوظ رہے گی۔
وزیر اعظم کی ایک اور خوش قسمتی بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ ان کے وزیر اعظم بننے سے لے کر صدارتی الیکشن تک انھیں پیپلز پارٹی کا مسلسل تعاون حاصل رہا ہے، اگرچہ پیپلز پارٹی کے سوا باقی تمام اپوزیشن پارٹیاں شہباز شریف کے ساتھ ہیں مگر پیپلز پارٹی 2013 کے الیکشن کے بعد سے ہی مسلم لیگ(ن) کو نیچا دکھانے اور عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ اس نے صدارتی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوارکو جتانے کے لیے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار بناکر اپنا حق دوستی ادا کردیا تھا۔
الیکشن کے دوران تمام ہی جماعتیں پیپلز پارٹی کو ان کا ساتھ دینے کی درخواست کرتی رہیں مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہی اس دوران پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کی ''بی ٹیم'' بھی کہا گیا مگر اس کا بھی اس پرکوئی اثر نہیں پڑا ۔ اب بالآخر عارف علوی صدر پاکستان کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں۔ یہ انتخاب سراسر کراچی والوں کے لیے ہمت افزائی کا باعث بنا ہے کیونکہ کراچی کے ایک اور سپوت کو اب صدر پاکستان بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔
اب جہاں تک پیپلز پارٹی کے اپنے علیحدہ صدارتی امیدوارکھڑے کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے اس کردارکو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ یقینا پیپلز پارٹی کے امیج کے لیے ایک بری خبر ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر اس وقت منی لانڈرنگ کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اس کے پاس اس سلسلے میں انمٹ ثبوت موجود ہیں۔
چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقصد پی ٹی آئی کی طرفداری کرکے اس کی مدد سے ان مقدمات کو ختم کرانا ہے مگر شاید ایسا کبھی بھی نہ ہوسکے کیونکہ ادارے اب کسی بھی کرپٹ خاندان کو ملک میں من مانی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ پھر عمران خان بھی اعتزاز احسن سے مضبوط دوستی کے باوجود بھی ایسا نہیں کرسکیں گے ورنہ ان کے اقتدار سنبھالنے کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جائے گا۔
تاہم اعتزاز احسن نے آصف زرداری کو شروع سے ہی عمران خان کے قریب اور میاں صاحب سے دور رکھ کر اور میاں صاحب کے خلاف سخت بیانات دلوا کر پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اگرچہ یہ دشمنی آصف زرداری کی جبلت کے خلاف ہے کیونکہ وہ تو ہر سیاسی پارٹی سے مفاہمت کے حامی ہیں۔ وہ 2008 کے الیکشن میں میاں صاحب کے حلیف تھے اور ان کے ہی تعاون سے صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں یہ اشتراک نہ رہا اور دونوں میں اختلاف بڑھ گیا ۔
کہا جا رہا ہے کہ دونوں میں خلیج بڑھانے میں اعتزاز احسن کے مسلم لیگ (ن) کے خلاف سخت رویے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اعتزاز احسن کی مخالفت کے باوجود آصف زرداری نے دھرنے کو ناکام بنانے میں میاں صاحب کی مدد کی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی عدم مقبولیت کی وجہ سے مشکل حالات کا شکار ہے، اس وجہ سے اسے اعتزاز احسن گروپ کی (ن) لیگ مخالف پالیسی پر چلنا پڑ رہا ہے کائرہ بھی اعتزاز کے ساتھ کھڑے ہیں اور دراصل یہی دونوں رہنما اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سرگرم رہنما ہیں چنانچہ زرداری پنجاب سے اعتزاز احسن کے رحم و کرم پر ہیں اور انھی کی منشا کے تحت سینیٹ کے الیکشن سے لے کر صدارتی الیکشن تک پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کا ساتھ دیتی رہی ہے۔
پی ٹی آئی اب کافی جدوجہد کے بعد اقتدارکا سہرا اپنے سر سجانے میں کامیاب تو ہوچکی ہے مگر جس تبدیلی کا برسوں سے پرچار کیا جا رہا تھا کیا وہ صرف چہروں کی تبدیلی تھی اگر یہی تبدیلی ہے تو پھر پرانا پاکستان کیا برا تھا۔ ابھی نئی حکومت کو صرف تین ہفتے ہی تو ہوئے ہیں۔ ہمارے عوام بھی بہت جلد باز ہیں وہ انتخابی وعدوں کی فوراً ہی تکمیل چاہتے ہیں شاید عوام کی بے چینی کو بھانپ کر ہی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے کے لیے تین مہینے مانگ لیے ہیں گوکہ یہ بات میڈیا سے کہی گئی ہے مگر لگتا ہے اس کا اصل ہدف عوام ہیں۔
صحافی کبھی کوئی بات اخبار میں اپنی طرف سے نہیں لکھتے۔ وہ وہی بات لکھتے ہیں جو عوام کہنا چاہتے ہیں اس لیے کہ وہ عوامی امنگوں، امیدوں اور شکایتوں کے ترجمان ہوتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر صحافی حضرات وزیر اعظم کی بات مان لیں تو پھر صحافیوں کا کام تو ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ کیونکہ ان کا یہ فرض ہی نہیں بلکہ اپنی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے ملک میں ہونے والی ہر منفی اور مثبت پیش رفت سے عوام کو آگاہ رکھیں ۔
وزیر اعظم کی بات ماننے کے لیے تو پھر تین مہینوں کے لیے اخبار بھی بند کرنا پڑیں گے اور ساتھ ہی ٹی وی چینلز بھی۔ وزیر اعظم کی تنقید نہ کرنے والی بات اس لیے بھی سب کو کلک کر رہی ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی سابقہ حکومت نے صحافیوں سے ایسی فرمائش نہیں کی تھی۔
بہرحال وزیر اعظم کی درخواست پر صحافیوں کو ضرور نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے اس لیے بھی کہ حکومت میں کئی نئے چہرے بھی شامل ہوئے ہیں جنھیں حکومت کرنے کے آداب سکھانے میں وقت لگ سکتا ہے اور اگر پھر بھی بات نہ بنی تو مزید وقت بھی مانگا جاسکتا ہے۔ جہاں تک نواز شریف کی مشکلات کا تعلق ہے لگتا ہے وہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکیں گی جب تک پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پہلی باقاعدہ ملاقات نہایت خوشگوار رہی ہے، انھوں نے وہاں کافی وقت گزارا جب کہ اس سے قبل کسی وزیر اعظم نے وہاں اتنا وقت نہیں گزارا تھا۔ عمران خان نے صحافیوں سے اپنی ایک ملاقات میں جی ایچ کیو پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ آرمی چیف کا جمہوریت پر پختہ یقین ہے وہ جمہوریت کی ملک میں مضبوطی کے خواہاں ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں استواری کی وجہ عمران خان کا اچھا امیج ہے۔ دونوں مل کر ہر مسئلے پر اکٹھے ہوکر کام کریں گے تو ملک کا گرا ہوا امیج ضرور بحال ہوگا اور اندرون خانہ بھی کھینچا تانی کی فضا ختم ہوجائے گی۔ یوں عمران خان ملک کے پہلے خوش قسمت وزیر اعظم ہوں گے جنھیں اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں کم ہی مشکلات پیش آئیں گی اور اس طرح جمہوریت بھی پٹری سے اترنے سے محفوظ رہے گی۔
وزیر اعظم کی ایک اور خوش قسمتی بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ ان کے وزیر اعظم بننے سے لے کر صدارتی الیکشن تک انھیں پیپلز پارٹی کا مسلسل تعاون حاصل رہا ہے، اگرچہ پیپلز پارٹی کے سوا باقی تمام اپوزیشن پارٹیاں شہباز شریف کے ساتھ ہیں مگر پیپلز پارٹی 2013 کے الیکشن کے بعد سے ہی مسلم لیگ(ن) کو نیچا دکھانے اور عمران خان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ اس نے صدارتی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوارکو جتانے کے لیے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار بناکر اپنا حق دوستی ادا کردیا تھا۔
الیکشن کے دوران تمام ہی جماعتیں پیپلز پارٹی کو ان کا ساتھ دینے کی درخواست کرتی رہیں مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہی اس دوران پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کی ''بی ٹیم'' بھی کہا گیا مگر اس کا بھی اس پرکوئی اثر نہیں پڑا ۔ اب بالآخر عارف علوی صدر پاکستان کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں۔ یہ انتخاب سراسر کراچی والوں کے لیے ہمت افزائی کا باعث بنا ہے کیونکہ کراچی کے ایک اور سپوت کو اب صدر پاکستان بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔
اب جہاں تک پیپلز پارٹی کے اپنے علیحدہ صدارتی امیدوارکھڑے کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے اس کردارکو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ یقینا پیپلز پارٹی کے امیج کے لیے ایک بری خبر ہے۔ آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر اس وقت منی لانڈرنگ کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اس کے پاس اس سلسلے میں انمٹ ثبوت موجود ہیں۔
چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقصد پی ٹی آئی کی طرفداری کرکے اس کی مدد سے ان مقدمات کو ختم کرانا ہے مگر شاید ایسا کبھی بھی نہ ہوسکے کیونکہ ادارے اب کسی بھی کرپٹ خاندان کو ملک میں من مانی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ پھر عمران خان بھی اعتزاز احسن سے مضبوط دوستی کے باوجود بھی ایسا نہیں کرسکیں گے ورنہ ان کے اقتدار سنبھالنے کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جائے گا۔
تاہم اعتزاز احسن نے آصف زرداری کو شروع سے ہی عمران خان کے قریب اور میاں صاحب سے دور رکھ کر اور میاں صاحب کے خلاف سخت بیانات دلوا کر پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اگرچہ یہ دشمنی آصف زرداری کی جبلت کے خلاف ہے کیونکہ وہ تو ہر سیاسی پارٹی سے مفاہمت کے حامی ہیں۔ وہ 2008 کے الیکشن میں میاں صاحب کے حلیف تھے اور ان کے ہی تعاون سے صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں یہ اشتراک نہ رہا اور دونوں میں اختلاف بڑھ گیا ۔
کہا جا رہا ہے کہ دونوں میں خلیج بڑھانے میں اعتزاز احسن کے مسلم لیگ (ن) کے خلاف سخت رویے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اعتزاز احسن کی مخالفت کے باوجود آصف زرداری نے دھرنے کو ناکام بنانے میں میاں صاحب کی مدد کی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی عدم مقبولیت کی وجہ سے مشکل حالات کا شکار ہے، اس وجہ سے اسے اعتزاز احسن گروپ کی (ن) لیگ مخالف پالیسی پر چلنا پڑ رہا ہے کائرہ بھی اعتزاز کے ساتھ کھڑے ہیں اور دراصل یہی دونوں رہنما اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سرگرم رہنما ہیں چنانچہ زرداری پنجاب سے اعتزاز احسن کے رحم و کرم پر ہیں اور انھی کی منشا کے تحت سینیٹ کے الیکشن سے لے کر صدارتی الیکشن تک پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کا ساتھ دیتی رہی ہے۔
پی ٹی آئی اب کافی جدوجہد کے بعد اقتدارکا سہرا اپنے سر سجانے میں کامیاب تو ہوچکی ہے مگر جس تبدیلی کا برسوں سے پرچار کیا جا رہا تھا کیا وہ صرف چہروں کی تبدیلی تھی اگر یہی تبدیلی ہے تو پھر پرانا پاکستان کیا برا تھا۔ ابھی نئی حکومت کو صرف تین ہفتے ہی تو ہوئے ہیں۔ ہمارے عوام بھی بہت جلد باز ہیں وہ انتخابی وعدوں کی فوراً ہی تکمیل چاہتے ہیں شاید عوام کی بے چینی کو بھانپ کر ہی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے کے لیے تین مہینے مانگ لیے ہیں گوکہ یہ بات میڈیا سے کہی گئی ہے مگر لگتا ہے اس کا اصل ہدف عوام ہیں۔
صحافی کبھی کوئی بات اخبار میں اپنی طرف سے نہیں لکھتے۔ وہ وہی بات لکھتے ہیں جو عوام کہنا چاہتے ہیں اس لیے کہ وہ عوامی امنگوں، امیدوں اور شکایتوں کے ترجمان ہوتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر صحافی حضرات وزیر اعظم کی بات مان لیں تو پھر صحافیوں کا کام تو ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ کیونکہ ان کا یہ فرض ہی نہیں بلکہ اپنی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے ملک میں ہونے والی ہر منفی اور مثبت پیش رفت سے عوام کو آگاہ رکھیں ۔
وزیر اعظم کی بات ماننے کے لیے تو پھر تین مہینوں کے لیے اخبار بھی بند کرنا پڑیں گے اور ساتھ ہی ٹی وی چینلز بھی۔ وزیر اعظم کی تنقید نہ کرنے والی بات اس لیے بھی سب کو کلک کر رہی ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی سابقہ حکومت نے صحافیوں سے ایسی فرمائش نہیں کی تھی۔
بہرحال وزیر اعظم کی درخواست پر صحافیوں کو ضرور نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے اس لیے بھی کہ حکومت میں کئی نئے چہرے بھی شامل ہوئے ہیں جنھیں حکومت کرنے کے آداب سکھانے میں وقت لگ سکتا ہے اور اگر پھر بھی بات نہ بنی تو مزید وقت بھی مانگا جاسکتا ہے۔ جہاں تک نواز شریف کی مشکلات کا تعلق ہے لگتا ہے وہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکیں گی جب تک پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک پیج پر ہیں۔