آؤ سب مل کر ڈیم بنائیں
ماضی کی حکومتیں بھی اس ڈیم کی تعمیر کی باتیں کرتی رہی ہیں لیکن یہ ڈیم نہ بن سکا۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہمارے فوجی صدر جنرل ایوب خان کو شیشے میں اتار کر ورلڈ بینک کی معاونت سے سندھ طاس کا معاہدہ کرا کے پاکستان کے دریاؤں پر قانونی طور پر قبضہ کرنے کی کامیاب سازش کی اور اپنے حصے میں آنے والے دریاؤں پر دھڑا دھڑ ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی کم سے کم کر دیا۔
پاکستان بار بار ورلڈ بینک اور عالمی عدالت انصاف کے پاس جاتا رہا لیکن ان عالمی اداروں پر بھی بھارتی لابی کا قبضہ ہے لہذا ہماری کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے ہمارے سب سے ضروری ڈیم کی تعمیر کے خلاف سیاسی چپقلش کھڑی کر دی چنانچہ جو مشینری ڈیم سائٹ پر پہنچائی گئی تھی، وہ کھڑے کھڑے ہی زنگ آلود ہو کر ناکارہ ہو گئی۔ اب پاکستان کے لیے نئے ڈیم کی اشد ضرورت کی نشان دہی سب سے پہلے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے کی اور بھاشا دیامر ڈیم فنڈ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے، امریکا اور یورپ میں مقیم ہر پاکستانی ایک ہزار ڈالر یا اس سے زائد جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں رہنے والے اوورسیز پاکستانی اپنی استطاعت کے مطابق رقم فنڈ میں جمع کرائیں۔
قوم کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ دو ہفتوں سے قومی مسائل پر بریفنگ لے رہا ہوں اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ قوم کے سامنے ملک کے تمام معاملات لے کر آؤں گا۔ انھوں نے بتایا ایک عشرہ پہلے پاکستان پر چھ ہزار ارب قرضہ تھا جو آج 30 ہزار ارب پر پہنچ گیا ہے،گردشی قرضوں کا بھی نہایت پیچیدہ اور تکلیف دہ معاملہ ہے لیکن ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔
ہمیں پانی کی قلت کا سامنا ہے، ڈیم بنانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بتایا کہ پاکستان کے پاس صرف 30 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اس گنجائش میں اضافے کے لیے مزید ڈیم درکار ہیں، حالانکہ جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر پاکستانی کے حصے میں ساڑھے 5 ہزار کیوبک میٹر سے زائد پانی آتا تھا اور آج یہ حصہ صرف ایک ہزار کیوبک میٹر پانی رہ گیا ہے جبکہ پانی کی اسٹوریج کی صلاحیت صرف 30 دن کی ہے دوسری طرف ہندوستان کی 190 دن اور مصر کی پانی اسٹوریج کرنے کی صلاحیت 1000 دن کی ہے۔
دنیا میں کسی بھی ملک کی 120 دن کے لیے پانی اسٹوریج کی صلاحیت محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب پاکستان کے لیے ڈیم بنانا انتہائی ناگزیر ہے کیونکہ آج پانی کم ہو کر فی کس 1000 کیوسک رہ گیا ہے اور اگر ہم نے اب بھی ڈیم بنانا شروع نہیں کیے تو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مسائل کا پہاڑ چھوڑ کر جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا ماہرین کہتے ہیں اگر ہم نے ڈیم نہ بنائے تو ملک میں خشک سالی اور قحط پڑنے کا خدشہ ہو گا اور 2025ء خشک سالی شروع ہو جائیگی، ایک وقت ایسا آئے گا کہ اناج اگانے کے لیے بھی پانی نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت آج سے کام کا آغاز کر رہی ہے اور اس حوالے سے چیف جسٹس اور پرائم منسٹرز فنڈز اکٹھا کر دیا ہے۔
پاکستان کو آج جس پانی کے بحران کا سامنا ہے، یہ نیا نہیں ہے بلکہ ماہرین برسوں سے اس کی نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مختلف اوقات میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کالا باغ ڈیم متنازعہ ہونا شروع ہوا، اس معاملے میں اس وقت کے گورنر سرحد جنرل فضل حق نے بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
ضیاء الحق کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے بھی کالاباغ ڈیم پر صوبوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ ڈیم قصۂ پارینہ ہو چکا ہے۔ اب ساری توجہ بھاشا ڈیم پر ہے۔
ماضی کی حکومتیں بھی اس ڈیم کی تعمیر کی باتیں کرتی رہی ہیں لیکن یہ ڈیم نہ بن سکا۔ ویسے بھی اس ڈیم کی تعمیر میں بعض ایسی رکاوٹیں حائل ہیں جن کا دور ہونا بظاہر آ سان نہیں۔ اب موجودہ حکومت نے بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اللہ کرے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم عمران خان نے چندے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں گو کہ وزیر اعظم نے بطور خاص کہا ہے کہ وہ اس پیسے کی حفاظت بنفس نفیس خود کریں گے۔
غالبا ان کا اشارہ قرض اتارو ملک سنوارو کے عنوان سے چلائی جانے والی ایک سابق سرکاری مہم کی طرف تھا جب تارکین وطن نے کروڑوں ڈالر کی رقوم باہر سے بھجوائی تھیں جو قرض اتارنے کے کام تو نہ آئیں البتہ خرچ ضرور ہو گئیں۔ اب ڈیم کے نام پر آنے والی رقوم کی حفاظت چیف جسٹس اور وزیر اعظم خود کریں گے لہٰذا ڈیم فنڈ کی رقم کے غتر بود ہونے کا احتمال کم ہو گا۔
پاکستان بار بار ورلڈ بینک اور عالمی عدالت انصاف کے پاس جاتا رہا لیکن ان عالمی اداروں پر بھی بھارتی لابی کا قبضہ ہے لہذا ہماری کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے ہمارے سب سے ضروری ڈیم کی تعمیر کے خلاف سیاسی چپقلش کھڑی کر دی چنانچہ جو مشینری ڈیم سائٹ پر پہنچائی گئی تھی، وہ کھڑے کھڑے ہی زنگ آلود ہو کر ناکارہ ہو گئی۔ اب پاکستان کے لیے نئے ڈیم کی اشد ضرورت کی نشان دہی سب سے پہلے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے کی اور بھاشا دیامر ڈیم فنڈ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے، امریکا اور یورپ میں مقیم ہر پاکستانی ایک ہزار ڈالر یا اس سے زائد جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں رہنے والے اوورسیز پاکستانی اپنی استطاعت کے مطابق رقم فنڈ میں جمع کرائیں۔
قوم کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ دو ہفتوں سے قومی مسائل پر بریفنگ لے رہا ہوں اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ قوم کے سامنے ملک کے تمام معاملات لے کر آؤں گا۔ انھوں نے بتایا ایک عشرہ پہلے پاکستان پر چھ ہزار ارب قرضہ تھا جو آج 30 ہزار ارب پر پہنچ گیا ہے،گردشی قرضوں کا بھی نہایت پیچیدہ اور تکلیف دہ معاملہ ہے لیکن ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔
ہمیں پانی کی قلت کا سامنا ہے، ڈیم بنانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بتایا کہ پاکستان کے پاس صرف 30 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اس گنجائش میں اضافے کے لیے مزید ڈیم درکار ہیں، حالانکہ جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر پاکستانی کے حصے میں ساڑھے 5 ہزار کیوبک میٹر سے زائد پانی آتا تھا اور آج یہ حصہ صرف ایک ہزار کیوبک میٹر پانی رہ گیا ہے جبکہ پانی کی اسٹوریج کی صلاحیت صرف 30 دن کی ہے دوسری طرف ہندوستان کی 190 دن اور مصر کی پانی اسٹوریج کرنے کی صلاحیت 1000 دن کی ہے۔
دنیا میں کسی بھی ملک کی 120 دن کے لیے پانی اسٹوریج کی صلاحیت محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب پاکستان کے لیے ڈیم بنانا انتہائی ناگزیر ہے کیونکہ آج پانی کم ہو کر فی کس 1000 کیوسک رہ گیا ہے اور اگر ہم نے اب بھی ڈیم بنانا شروع نہیں کیے تو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مسائل کا پہاڑ چھوڑ کر جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا ماہرین کہتے ہیں اگر ہم نے ڈیم نہ بنائے تو ملک میں خشک سالی اور قحط پڑنے کا خدشہ ہو گا اور 2025ء خشک سالی شروع ہو جائیگی، ایک وقت ایسا آئے گا کہ اناج اگانے کے لیے بھی پانی نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت آج سے کام کا آغاز کر رہی ہے اور اس حوالے سے چیف جسٹس اور پرائم منسٹرز فنڈز اکٹھا کر دیا ہے۔
پاکستان کو آج جس پانی کے بحران کا سامنا ہے، یہ نیا نہیں ہے بلکہ ماہرین برسوں سے اس کی نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مختلف اوقات میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کالا باغ ڈیم متنازعہ ہونا شروع ہوا، اس معاملے میں اس وقت کے گورنر سرحد جنرل فضل حق نے بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
ضیاء الحق کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے بھی کالاباغ ڈیم پر صوبوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ ڈیم قصۂ پارینہ ہو چکا ہے۔ اب ساری توجہ بھاشا ڈیم پر ہے۔
ماضی کی حکومتیں بھی اس ڈیم کی تعمیر کی باتیں کرتی رہی ہیں لیکن یہ ڈیم نہ بن سکا۔ ویسے بھی اس ڈیم کی تعمیر میں بعض ایسی رکاوٹیں حائل ہیں جن کا دور ہونا بظاہر آ سان نہیں۔ اب موجودہ حکومت نے بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اللہ کرے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم عمران خان نے چندے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں گو کہ وزیر اعظم نے بطور خاص کہا ہے کہ وہ اس پیسے کی حفاظت بنفس نفیس خود کریں گے۔
غالبا ان کا اشارہ قرض اتارو ملک سنوارو کے عنوان سے چلائی جانے والی ایک سابق سرکاری مہم کی طرف تھا جب تارکین وطن نے کروڑوں ڈالر کی رقوم باہر سے بھجوائی تھیں جو قرض اتارنے کے کام تو نہ آئیں البتہ خرچ ضرور ہو گئیں۔ اب ڈیم کے نام پر آنے والی رقوم کی حفاظت چیف جسٹس اور وزیر اعظم خود کریں گے لہٰذا ڈیم فنڈ کی رقم کے غتر بود ہونے کا احتمال کم ہو گا۔