ہمارے تعلیمی ادارے اور طلبہ یونین
دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں آکسفورڈ کی ہی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں اعلیٰ معیار کی علامت بن کر رائج ہوچکی ہیں۔
برطانیہ نے دنیا پر حکومتی راج ختم ہونے کے بعد اس وقت بھی اگر اپنا دائرہ اثر برقرار رکھا ہوا ہے تو اس کی وجوہات میںسے ایک اہم وجہ برطانیہ میں موجود آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے بھی ہیں ،جہاں دنیا بھر کے طلبہ کی تعلیم کے لیے یکساں مواقع ، سہولیات اور حقوق کے ساتھ انتظام موجود ہے۔ وہاں کی یونیورسٹیز میںاعلیٰ پیمانے کی تحقیق پر مبنی تعلیمی نظام و تعلیمی ماحول کو اس قدرمعیاری، شفاف و پُرکشش رکھا گیا ہے کہ نہ صرف اُن اداروں کی ناموس ہوتی ہے بلکہ وہ اساتذہ اور اس معاشرے کی توقیر کا بھی باعث ہے ۔
اب تو دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں آکسفورڈ کی ہی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں اعلیٰ معیار کی علامت بن کر رائج ہوچکی ہیں۔دوسری طرف نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں اساتذہ کی توقیر ریاست کے سربراہ اور ایک جج سے بھی اہم ہوتی ہے تو اس کا سبب بھی وہاں کا تعلیمی نظام ہے ۔
چاہے کچھ بھی ہوجائے، معیاری تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا جب کہ اساتذہ بھی اپنے کردار پر کوئی داغ نہیں آنے دیتے لیکن ہمارے یہاں حکمرانوں اورسیاسی اثر رسوخ کی بناء پر آنے والی انتظامیہ کا تعلیمی اداروں، نظام ِ تعلیم کی سربلندی اور اساتذہ کی توقیر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تعلیمی اداروں کو اوطاق یا کسی کارخانے کی طرح چلاتے ہیں جب کہ یہاں اساتذہ کا کردار بھی متضاد رہا ہے۔
ملک کی تمام یونیورسٹیز میں مسائل کے انبار ہیں ۔ ہاسٹل و ٹرانسپورٹ اور کینٹین کے مسائل ، فیکلٹی و فرنیچر کی کمی ، آلات اور فنڈز کی کمی ، حتیٰ کہ جدید ریسرچ پر مبنی کُتب کی کمی جیسے مسائل بھی یہاں عام ہیں ۔ صحت مند تدریسی و غیر تدریسی سرگرمیاں اور امن امان بھی یہاں ناپید ہے ۔ طلبہ کے جھگڑے اور تنازعات تعلیمی اداروں کو الگ اکھاڑہ بنائے رہتے ہیں ۔ یہاں تحقیق برائے نام کی رہ گئی ہے ۔
یہاں تک کہ تحقیق کی بناء پر دی جانیوالی ڈگریاں جیسے پی ایچ ڈی ، ایم فل اور ماسٹر وغیرہ بھی دوسروں کی تحقیق پر مبنی تھیسزچوری کرکے نام تبدیل کرکے جمع کروانے پر عطا کی جارہی ہیں ۔ HECو دیگر مجاز اتھارٹیز بھی چشم پوشی کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے صرف الحاق و مالیات کے معاملات میں دلچسپی رکھتی نظر آتی ہیں ۔ ایسے میں کیا معیاری تعلیم ،کیا اساتذہ کی توقیر اور کیا طلبہ کے حقوق ، سب کے سب اُمور صرف اور صرف پسند ناپسند اور ذاتی و سیاسی اور تنظیمی مفاد کے چکر ویو میں پھنسے گھومتے رہتے ہیں ۔
اس ساری صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر یونیورسٹیز کاسب سے اہم فریق طالب علم ہی ہوتا ہے ۔ جو یہاں آتا تو تعلیم کے حصول کے لیے ہے لیکن وہ یہاں پڑھائی سے زیادہ یہاں موجود مسائل کو حل کروانے اور انتظامیہ کی پیدا کردہ صورتحال سے نبرد آزما ہونے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے پر مجبور رہتا ہے ۔ جس کے لیے بھی انھیں ایک فورم کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ویسے تو دنیا میں طلبہ کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے قانونی طور پر طلبہ یونین ہوتی ہیں لیکن یہاں 34برس قبل ضیائی آمریت کے دوران اُس پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ جس سے طلبہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سرکاری طور پر یہ مشہور کیا گیا کہ طلبہ کے گروہوں کا یونین کے انتخابات میں ایک دوسرے سے تصادم خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔لیکن اصل وجہ جاننے کے لیے لازم ہے کہ طلبہ سیاست پر ایک نظر ڈالی جائے ۔
ملک میں پہلی طلبہ تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن 1947میں قائم ہوئی ۔ جو مسلم لیگ کی اسٹوڈنٹ ونگ تھی ۔ جو کہ اس وقت مسلم لیگ کے ایجنڈا کے مطابق کام کرتی تھی ۔ 1950میں دو دیگر طلبہ سیاسی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ جن میںایک طرف بائیں بازو کی تنظیمیں جیسے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی جو مارکسسٹ نظریات کی حامل تھیں جب کہ دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتیں جیسے انجمن طلبہ اسلام اور اسلامی جمیعت ِ طلبہ تھیں ۔
ملک کا اس وقت کا منظرنامہ مذہبی رنگ میں ڈھلا ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کی نظر ِ کرم مذہبی تنظیموں پر پڑی جب کہ کمیونسٹ نظریات کی حامل طلبہ تنظیموں سے سختی برتی گئی ۔ یہاں تک کہ1953میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک مظاہرے کو روکنے کے لیے سرکار نے سخت کارروائی کی جس میں پولیس کی فائرنگ میں 6طلبہ ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد ایوب خان کی آمریت کے خلاف اور اینٹی ون یونٹ موومنٹ کے دوران بھی سوشلسٹ و قوم پرست طلبہ تنظیمیں متحرک رہنے کی وجہ سے عتاب کا نشانہ بنتی رہیں لیکن سب سے بھیانک صورتحال ضیائی آمریت کے دوران نظر آئی جب ایم آر ڈی کی تحریک و قوم پرست تحریکوں میں متحرک رہنے والے کئی طلبہ کو ہلاک کیا گیا اور کئی طلبہ کو کوڑے مارے گئے اور جیل یاترائیں بھی کرائی گئیں۔
اس شدید سختی کے باوجود طلبہ کی جانب سے رد عمل جاری رہنے کے باعث پہلے قدم کے طور پر طلبہ یونین پر پابندی عائد کرکے تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن ساتھ ہی دائیں بازو کی مذہبی و پروسرکاری تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ اُنہیں پروان چڑھایا گیا ۔اس پر سونے پے سہاگہ یہ کہ پروسرکاری طلبہ تنظیموں کو ہتھیاروں کی نمائش پر بھی نہیں روکا گیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیمی اداروں میں فرقہ واریت اور نسلی کشیدگی بڑھی اور خونریزیاں ہونے لگیں ۔
اس صورتحال کے مد نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ طلبہ یونین نے ماضی میں ملک پر مسلط ہونیوالی آمریتوں کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ، جس کی بناء پر طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی جو تین عشرے سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد بھی برقرار ہے ۔ طلبہ یونین وہ پلیٹ فارم تھا جہاں سے مڈل کلاس و غریب اور قابل طلبہ اپنے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں حصہ بھی لیتے تھے اور یوں مستقبل کے رہنماؤں کی تربیت ہوتی تھی ۔
1988میں جمہوریت بحال ہوئی اور بے نظیر بھٹو کی حکومت نے اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے بھرپور کوشش کی لیکن اُسے عدالتی کارروائی اور فیصلے سے روکا گیا ، پھر اس پر کسی نے کام نہیں کیا ۔ گذشتہ برس پھر پارلیمنٹ کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں قرار داد پاس کی گئی لیکن اُس کے باوجود بھی اس ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے فیصلے میں کہیں یہ بندش نہیں کہ پارلیمنٹ اس ضمن میں قانون سازی نہیں کرسکتی ۔
''تعلیم روشن مستقبل کی ضمانت ہے ''جیسے جملے ہمارے یہاں صرف فیشن کے طور پر تقاریر و سیمینارز اور میڈیائی بیانات میں ہی دہرائے جاتے ہیں ، حقیقت میں تعلیم اب تک ہماری اولین ترجیح نہیں بن سکی ہے ۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر عالمی سطح پر ہم نے ''تعلیم سب کے لیے '' کے مقصد کے حصول کی خاطر ملک بھر میں معیاری و مفت تعلیم کی فراہمی کا وعدہ کررکھا ہے لیکن دو عشرے گذرنے کے بعد بھی اس وعدے کی تکمیل اورملک کے قیام کو 70سال پورے ہونے کے بعد بھی ملک کے روشن مستقبل کے لیے معمار تیار کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی ہیں ۔
ہر آنیوالی حکومت تعلیم کے فروغ کے بڑے بڑے وعدے کرتی ہے لیکن عملی طور پر آج بھی تعلیم کا شعبہ ملکی بجٹ میں اولیت یا خصوصی حصہ نہیں رکھتا۔ تعلیم پرائمری سے سیکنڈری اور پھر اعلیٰ تعلیم تک انتہائی وسیع اور توجہ طلب شعبہ ہے لیکن تعلیم وفاقی جُز رہی ہو یا 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی جُز مگر تعلیم کا شعبہ ہمیشہ یا تو عدم توجہی کا شکار رہا ہے یا پھر اقتدار کی رسہ کشی اور اداروں کے آپس میں ٹکراؤ اور غیر مستحکم خارجہ پالیسی کے باعث پیداہونیوالی عدم استحکام کی صورتحال کے سبب تعلیم کا شعبہ ثانوی اُمور میں شامل رہا ہے۔
اسکول کی سطح کی تعلیم کا تو یہ حال ہے کہ فعال سرکاری اسکول صرف دیہات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیںجب کہ شہروں میں چلنے والے نجی اسکولوں کی اکثریت بھی معیاری تعلیم کے عالمی معیار پر پوری نہیں اترتی ۔ اگر بات کی جائے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تو ملک بھر میں پھیلی جامعات میں سے کوئی بھی جامعہ عالمی رینکنگ میں قابل ذکر سطح پر شمار نہیں ہوتی ۔ جس کی وجہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے متعلق پالیسیاں ہیں ، جس کے تحت انتظامی اُمور میں سیاسی مداخلت ،انتظامی عہدوں پر من پسند بیورو کریسی کی تعیناتی اور اساتذہ کی انتظامی عہدوں پر تقرریاں ہیں ۔
دوسری جانب یونیورسٹیز میںفیصلہ سازی کے ادارے سینڈیکٹ میں آفیسرز یونین ، اساتذہ یونین اور ایمپلائیز یونین کی موجودگی اور اُن کو سپورٹ کرنا لیکن تعلیمی شعبے کے سب سے اہم فریق طلبہ کو اپنی بات کہنے اور اپنے حقوق کے لیے وہاں کوئی رسائی نہیں ۔سینڈیکٹ میں طلبہ یونین کی موجودگی کے دروازے بند رکھنا بھی یونیورسٹیز کی موجودہ بربادی کی وجوہات میں سر فہرست ہے ۔
طلبہ کوفیس میں اضافے ، ہاسٹل میں سہولیات کی عدم دستیابی سے لیکر اساتذہ کی جانب سے حاضری ، مارکس اور پروجیکٹس کی مد میں بلیک میل کرنے سمیت کئی دیگر معاملات درپیش رہتے ہیں جن کے حل کے لیے کوئی مناسب پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ ہمیشہ پریشانی اور الجھن کا شکار رہتے ہیں ۔ اور بلیک میل ہوتے رہتے ہیں ،جس کا سب سے بھیانک پہلو یونیورسٹیز میں طالبات کو اساتذہ و انتظامیہ کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کرنے جیسے واقعات کا رونما ہونا ہے ۔
ایسے واقعات کی متاثرطالبات کی اکثریت گھر والوں کی جانب سے تعلیم بند کرانے کے خدشے کی وجہ سے ایسی ذلت پر خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہتی ہیں یا پھر خود کشی کرلیتی ہیں ،لیکن اگر ہمت کرکے ایسے مکروہ چہرہ اساتذہ و انتظامیہ کے پول کھولتی بھی ہیں تو انھیں اپنی آواز اٹھانے کے لیے میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ انتظامی سطح پر ان کی داد رسی نہیں ہوتی بلکہ اُن کو اور اُن کے گھر والوں کو ذہنی و جسمانی عقوبتیں پہنچائی جاتی ہیں ، اُنہیں بدنام کیا جاتا ہے ۔ کبھی کبھی تو اُنہیں جیل کی ہوا بھی کھلائی جاتی ہے ۔
دوسری جانب جامعات میں طلباء کے درمیان نصابی و غیرنصابی مسابقتی ماحول کو پروان چڑھنے کے بجائے سیاسی و مذہبی اختلافات کی بناء پر تصادم کی فضا قائم ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر طاقتور طلبہ گروپ و تنظیمیں مخالف سوچ کے حامل اور عام طلبہ پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی ہیںجس کی ایک مثال جامعہ کراچی میں طالبات کو کرکٹ کھیلنے پر مذہبی طلبہ جماعت کی جانب سے دھمکانا ہے ، جب کہ کبھی کبھی تو نوبت زدو کوب کرنے تک آجاتی ہے ، جس کی مثال بیدردی سے قتل کیے گئے مردان یونیورسٹی کے مشعل خان اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہورکے بہترین آرٹسٹ طالب علم قطب رند کی ہے ۔
ایسے ماحول اوراُن جیسی طلبہ تنظیموں کی وجہ سے تمام طلبہ تنظیموں کو بدنام کرکے اُن کے خلاف کارروائی کرنا آسان بن گیا اورپھر فورسز کے ذریعے تعلیمی اداروں میں کارروائی کرکے طلبہ سیاست کو محدود کردیا گیا ۔ جس سے جامعات کی انتظامیہ اور اساتذہ و ملازمین کو شہہ ملی اور اُن کی ہرزہ سرائیاں زور پکڑنے لگیں۔
حالانکہ ہمارے بیشتر حکمران بیرونی ممالک کے متذکرہ بالا تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہاں کے تعلیمی نظام سے مکمل طور پر آشنائی رکھنے کے باوجود اپنے ملک میں ایسے نظام کی تشکیل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے ۔ گذشتہ برس جنوری میں لاہور میں طلبہ یونین کی بحالی سے متعلق منعقد ہونیوالے سیمینار میںدیگر مقررین کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی تھے ۔جنھوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں تقریر کی تھی تو اب اسے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
جب کہ تمام وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف طلبہ یونین کی بحالی کے لیے اقدامات کریں بلکہ تعلیمی اداروں کو ہتھیاروںسے پاک کریں۔ تدریسی و انتظامی عہدوں پر تقرریوں میں شفافیت و میرٹ کے ساتھ ساتھ اچھی شہرت کے حامل کردار کا ہونا بھی لازمی قرار دینے کی پالیسی لاگو کرنے کے لیے قانون سازی کریں ۔
اساتذہ کی انتظامی عہدوں پرتقرریوں پر نظر ثانی کی جائے جب کہ تعلیمی اداروں میں اقربا پروری ، سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کی روک تھام و طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر مانیٹرنگ کا نظام ترتیب دیا جائے جب کہ معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے تعلیمی نظام کو Followکیا جائے جوکہ تعلیم کے معیار میں اضافے کا آسان ترین راستہ بھی ہے اور طلبہ کے حقوق ، اساتذہ کے کردار کی بلندی اور اُن کی توقیر کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔