خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت
دوستی اور تعاون کے رشتوں کا یہ دائرہ ان ملکوں تک بھی بڑھایا جانا چاہیے۔
طویل عرصے تک ارض وطن امریکا کو ہم نے ''پٹے'' پر دی ہوئی تھی، پھر معلوم ہوا کہ ملک کے بیشتر حقوق عرب ریاستوں کے ہاں رہن رکھے گئے ہیں ۔ بہرحال حقیقت اس ملک کی یہی چلی آ رہی ہے کہ ہمارے غیر ملکی دوست پاکستان کو ہمیشہ سے اپنی ''چراگاہ'' ہی سمجھتے ہیں، جب کہ عالمی تعلقات کا پہلا اور بنیادی سبق یہی ہے کہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ حتمی دشمن ۔ یہاں دوستیاں یا دشمنیاں نہیں نبھائی جاتیں بلکہ دو طرفہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوارکیے جاتے ہیں، مگر ہمارے ارباب اختیار ہر بار ان عالمی تعلقات کو دوستی کے اٹوٹ رشتے سمجھ کر حد سے گزر جاتے ہیں۔
اب جب پاکستان کا برا چاہنے والے ممالک پھر اس کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں، تو قومی ضمیر کے نگہبان حیرت انگیز طور پر خاموش ہیں یا تو وہ ایسے معاملات پر بات کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے جس میں ان کا اپنا مفاد وابستہ نہ ہو یا پھر وہ جان بوجھ کر اس حوالے سے صرف نظر کر رہے ہیں ۔ تاہم معاملات کچھ بھی ہوں ان کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں یا ذمے داروں کو وطن عزیز کی خارجہ پالیسی ان کی ترجیحات کا محور اور پاکستان اور اس کے مفادات عزیز ہونے چاہئیں، عوام کی بہتری کے لیے اقتصادی سفارت کاری کو بروئے کار لانا ضروری ہے، اس لیے بھی کہ تیز رفتاری سے تبدیل ہوتی بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر قومی اہداف اور وقت کے تقاضوں کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔
بالخصوص پاکستان کے قریبی ممالک افغانستان، بھارت، ایران، سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بھی اپنا نقطہ نظر ہماری نئی حکومت کو پیش کرنا چاہیے۔ نئی تشکیل پانے والی پاکستانی حکومت کو ماضی کی طرح یک رخی پالیسی کے بجائے متوازن حکمت عملی پر مبنی پالیسی کی تشکیل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہے اور امریکا، چین، یورپ اور برادر مسلم ملکوں سے تعلقات میں توازن کو یقینی بنانا چاہیے۔
گو عمران خان کی پہلی تقریر میں خارجہ پالیسی کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بہرحال ایک سمجھدار وزیرخارجہ رہے ہیں اور ان کی عقابی نگاہ عالمی منظر نامے پر بڑی گہری کہی جاسکتی ہے ۔ آج پاکستان جس سنگین اقتصادی بحران کا شکار ہے، وہ بظاہر اتنا ہی تشویشناک ہے جتنا یقینی پاکستان کا تابناک مستقبل ۔ یقینی یوں کہ ہم اس کی طرف ابتدائی قدم بڑھاچکے، اپنی داخلی اصلاح کرکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس سے پاکستان بیرونی دنیا میں عزت و مقام بھی پائے گا اور برابری کی بنیاد پر ہم باہمی خوشحالی و امن واستحکام کے حوالے سے خارجی تعلقات کے اہداف بھی حاصل کریں گے۔
بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹیجک اسٹریٹجز کے ماہرین کے مطابق پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد روس کو نظرانداز کرکے اور امریکا پر انحصار کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی مگر چین سے تعلقات کی صورت میں اس کا ازالہ کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر سمت دی ۔ امریکا سے دوستی روس کی قیمت پر کی گئی جس کا نتیجہ 1971 میں ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ امریکا ہمارے کسی کام نہ آیا ۔ آج امریکا پاکستان کو دولخت کرنیوالے ملک بھارت کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور پاکستان کو مختلف حوالوں سے زک پہنچانے کی کوششوں میں سب سے آگے ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ خارجہ پالیسی بذات خود مقصد نہیں بلکہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے، ہر ملک اپنی ترجیحات و ضروریات کا تعین کرتا ہے جس میں ملک کو مضبوط ومستحکم کرنا، سرحدوں کا دفاع اور معیشت کی مضبوطی بنیادی اجزا ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارا المیہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہم امریکا اور روس کے اتحادی بنے رہے۔ چنانچہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی اقوام متحدہ میں اٹھانے کی کوشش ہوئی روس نے اسے ویٹوکردیا اور چار جنگوں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے، اب جب کہ پاکستان ایک ''نیا آغاز'' کر رہا ہے اور بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے تو بھارت کو چاہیے کہ دنیا کے اس سب سے زیادہ گنجان آباد خطے کے امن اور بہتری کے لیے آگے آئے۔ آخرکب تک دونوں ملک کشیدگی کے ماحول میں رہ کر اپنی ترقی وخوشحالی کی راہ کھوٹی کرتے رہیں گے۔ ہمیں اب اپنی خارجہ پالیسی میں اہم اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی، خاص طور پر دنیا بھرکے ممالک کے ساتھ اقتصادی مراسم بڑھانا ہوں گے تاکہ ہماری معیشت کو بھی استحکام ملنے کی راہیں استوار ہوں۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ گزشتہ حکومت (ن) لیگ خارجہ پالیسی جیسے موثر میڈیم کے قلمدان کو سرے سے بروئے کار ہی نہیں لائی، نتیجے میں ہماری خارجہ پالیسی انتہائی نحیف ونزار حالت میں دنیا بھرکے سامنے کھڑی رہی، یوں دہشتگردی، معیشت کی تباہی، مسئلہ کشمیر اور امریکا، افغانستان اور بھارت کے کردار اور ان سے مراسم کے حوالے سے ایک ٹھوس جامع پالیسی کی ضرورت سر اٹھائے کھڑی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کا مسند اقتدار پر آ بیٹھنا ایک خوشگوار حیرت سے ہی تعبیرکیا جا رہا ہے اس لیے بھی کہ پاکستان میں حکومت کرنا ویسے بھی ناقابل تصور چیلنجز قبول کرنے کا نام ہے۔
عمران خان تبدیلی کو اپنا موٹو بناکر لوگوں کے سامنے نمایاں ہوئے ہیں اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فلسفے کو بھی انھوں نے اپنی سیاست کا محور بنانے کی بات کی ہے۔ یوں ان کی زندگی اور ان کی سانسیں اس ملک کے مفاد میں ہی چلنی ضروری ہوگئی ہے۔ ویسے بھی اگر زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو تو اسے صرف جینا کہتے ہیں اور اگرکوئی مقصد ہو تو زندگی قابل رشک، قابل تقلید اور قابل فخر بن جاتی ہے اور یہی زندہ رہنے اور جینے کا فرق بھی ہوتا ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عافیہ صدیقی کی پاکستان حوالگی کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ بنانا ہوگا کیونکہ اقتدار میں آنے سے قبل یہ عمران خان کا بنیادی ایجنڈا تھا، جسے پورا کرنے کا انھوں نے 2003 میں خود اعلان کیا تھا اور پہلی بار عافیہ صدیقی کی گمشدگی کو بھی اپنی زبان سے پورے ملک کو آگاہ کیا تھا۔ لہٰذا اب عافیہ صدیقی کا مسئلہ ان کی خارجہ پالیسی کے لیے ٹیسٹ کیس سے کم نہیں ہوگا۔
ویسے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کی بے جان اور بے سمت خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور آزمائے ہوئے دوستوں پر زیادہ انحصار کرنے کے بجائے قوموں کی برادری میں ایک امن پسند ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کی شناخت کرائے اور ماضی میں جن ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی سبب باہمی رشتے (تعلقات) زیادہ مضبوط نہ ہوسکے ان پر خصوصی توجہ دے۔ چین وسط ایشیا اور دوسرے خطوں میں بہت سے ممالک سے باہمی مفاد کی بنیاد پر ہمارے بہت اچھے تعلقات استوار ہیں۔
دوستی اور تعاون کے رشتوں کا یہ دائرہ ان ملکوں تک بھی بڑھایا جانا چاہیے جن پر ماضی کی حکومتوں نے ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی۔ دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، ایسے میں کوئی ملک تنہا ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے، ہمیں یا ہمارے ارباب اختیارکو اپنی قومی سلامتی اور معاشی خوشحالی کے لیے داخلی ترجیحات پر توجہ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کو بھی بامقصد اور جاندار بنانا چاہیے۔
پاکستان کے نئے اور 22 ویں وزیر اعظم عمران خان کا وژن، ایجنڈا یا منشور دنیا کے سامنے آچکا اور اسے دیکھ کر، پڑھ کر یا سن کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے بہت ہی تنگ گزر گاہ کا انتخاب کرچکے ہیں۔ تاہم عمران خان اس حوالے سے بہت خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ریاست کے تمام ''طاقتور ستون'' ان کی حمایت میں نظر آرہے ہیں اور وہ سبھی چاہتے ہیں کہ عمران خان کام کریں۔
اب جب پاکستان کا برا چاہنے والے ممالک پھر اس کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں، تو قومی ضمیر کے نگہبان حیرت انگیز طور پر خاموش ہیں یا تو وہ ایسے معاملات پر بات کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے جس میں ان کا اپنا مفاد وابستہ نہ ہو یا پھر وہ جان بوجھ کر اس حوالے سے صرف نظر کر رہے ہیں ۔ تاہم معاملات کچھ بھی ہوں ان کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں یا ذمے داروں کو وطن عزیز کی خارجہ پالیسی ان کی ترجیحات کا محور اور پاکستان اور اس کے مفادات عزیز ہونے چاہئیں، عوام کی بہتری کے لیے اقتصادی سفارت کاری کو بروئے کار لانا ضروری ہے، اس لیے بھی کہ تیز رفتاری سے تبدیل ہوتی بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر قومی اہداف اور وقت کے تقاضوں کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔
بالخصوص پاکستان کے قریبی ممالک افغانستان، بھارت، ایران، سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بھی اپنا نقطہ نظر ہماری نئی حکومت کو پیش کرنا چاہیے۔ نئی تشکیل پانے والی پاکستانی حکومت کو ماضی کی طرح یک رخی پالیسی کے بجائے متوازن حکمت عملی پر مبنی پالیسی کی تشکیل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہے اور امریکا، چین، یورپ اور برادر مسلم ملکوں سے تعلقات میں توازن کو یقینی بنانا چاہیے۔
گو عمران خان کی پہلی تقریر میں خارجہ پالیسی کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بہرحال ایک سمجھدار وزیرخارجہ رہے ہیں اور ان کی عقابی نگاہ عالمی منظر نامے پر بڑی گہری کہی جاسکتی ہے ۔ آج پاکستان جس سنگین اقتصادی بحران کا شکار ہے، وہ بظاہر اتنا ہی تشویشناک ہے جتنا یقینی پاکستان کا تابناک مستقبل ۔ یقینی یوں کہ ہم اس کی طرف ابتدائی قدم بڑھاچکے، اپنی داخلی اصلاح کرکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس سے پاکستان بیرونی دنیا میں عزت و مقام بھی پائے گا اور برابری کی بنیاد پر ہم باہمی خوشحالی و امن واستحکام کے حوالے سے خارجی تعلقات کے اہداف بھی حاصل کریں گے۔
بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹیجک اسٹریٹجز کے ماہرین کے مطابق پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد روس کو نظرانداز کرکے اور امریکا پر انحصار کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی مگر چین سے تعلقات کی صورت میں اس کا ازالہ کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر سمت دی ۔ امریکا سے دوستی روس کی قیمت پر کی گئی جس کا نتیجہ 1971 میں ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ امریکا ہمارے کسی کام نہ آیا ۔ آج امریکا پاکستان کو دولخت کرنیوالے ملک بھارت کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور پاکستان کو مختلف حوالوں سے زک پہنچانے کی کوششوں میں سب سے آگے ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ خارجہ پالیسی بذات خود مقصد نہیں بلکہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے، ہر ملک اپنی ترجیحات و ضروریات کا تعین کرتا ہے جس میں ملک کو مضبوط ومستحکم کرنا، سرحدوں کا دفاع اور معیشت کی مضبوطی بنیادی اجزا ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارا المیہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہم امریکا اور روس کے اتحادی بنے رہے۔ چنانچہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی اقوام متحدہ میں اٹھانے کی کوشش ہوئی روس نے اسے ویٹوکردیا اور چار جنگوں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے، اب جب کہ پاکستان ایک ''نیا آغاز'' کر رہا ہے اور بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے تو بھارت کو چاہیے کہ دنیا کے اس سب سے زیادہ گنجان آباد خطے کے امن اور بہتری کے لیے آگے آئے۔ آخرکب تک دونوں ملک کشیدگی کے ماحول میں رہ کر اپنی ترقی وخوشحالی کی راہ کھوٹی کرتے رہیں گے۔ ہمیں اب اپنی خارجہ پالیسی میں اہم اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی، خاص طور پر دنیا بھرکے ممالک کے ساتھ اقتصادی مراسم بڑھانا ہوں گے تاکہ ہماری معیشت کو بھی استحکام ملنے کی راہیں استوار ہوں۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ گزشتہ حکومت (ن) لیگ خارجہ پالیسی جیسے موثر میڈیم کے قلمدان کو سرے سے بروئے کار ہی نہیں لائی، نتیجے میں ہماری خارجہ پالیسی انتہائی نحیف ونزار حالت میں دنیا بھرکے سامنے کھڑی رہی، یوں دہشتگردی، معیشت کی تباہی، مسئلہ کشمیر اور امریکا، افغانستان اور بھارت کے کردار اور ان سے مراسم کے حوالے سے ایک ٹھوس جامع پالیسی کی ضرورت سر اٹھائے کھڑی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کا مسند اقتدار پر آ بیٹھنا ایک خوشگوار حیرت سے ہی تعبیرکیا جا رہا ہے اس لیے بھی کہ پاکستان میں حکومت کرنا ویسے بھی ناقابل تصور چیلنجز قبول کرنے کا نام ہے۔
عمران خان تبدیلی کو اپنا موٹو بناکر لوگوں کے سامنے نمایاں ہوئے ہیں اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فلسفے کو بھی انھوں نے اپنی سیاست کا محور بنانے کی بات کی ہے۔ یوں ان کی زندگی اور ان کی سانسیں اس ملک کے مفاد میں ہی چلنی ضروری ہوگئی ہے۔ ویسے بھی اگر زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو تو اسے صرف جینا کہتے ہیں اور اگرکوئی مقصد ہو تو زندگی قابل رشک، قابل تقلید اور قابل فخر بن جاتی ہے اور یہی زندہ رہنے اور جینے کا فرق بھی ہوتا ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عافیہ صدیقی کی پاکستان حوالگی کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ بنانا ہوگا کیونکہ اقتدار میں آنے سے قبل یہ عمران خان کا بنیادی ایجنڈا تھا، جسے پورا کرنے کا انھوں نے 2003 میں خود اعلان کیا تھا اور پہلی بار عافیہ صدیقی کی گمشدگی کو بھی اپنی زبان سے پورے ملک کو آگاہ کیا تھا۔ لہٰذا اب عافیہ صدیقی کا مسئلہ ان کی خارجہ پالیسی کے لیے ٹیسٹ کیس سے کم نہیں ہوگا۔
ویسے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کی بے جان اور بے سمت خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور آزمائے ہوئے دوستوں پر زیادہ انحصار کرنے کے بجائے قوموں کی برادری میں ایک امن پسند ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کی شناخت کرائے اور ماضی میں جن ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی سبب باہمی رشتے (تعلقات) زیادہ مضبوط نہ ہوسکے ان پر خصوصی توجہ دے۔ چین وسط ایشیا اور دوسرے خطوں میں بہت سے ممالک سے باہمی مفاد کی بنیاد پر ہمارے بہت اچھے تعلقات استوار ہیں۔
دوستی اور تعاون کے رشتوں کا یہ دائرہ ان ملکوں تک بھی بڑھایا جانا چاہیے جن پر ماضی کی حکومتوں نے ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی۔ دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، ایسے میں کوئی ملک تنہا ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے، ہمیں یا ہمارے ارباب اختیارکو اپنی قومی سلامتی اور معاشی خوشحالی کے لیے داخلی ترجیحات پر توجہ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کو بھی بامقصد اور جاندار بنانا چاہیے۔
پاکستان کے نئے اور 22 ویں وزیر اعظم عمران خان کا وژن، ایجنڈا یا منشور دنیا کے سامنے آچکا اور اسے دیکھ کر، پڑھ کر یا سن کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے بہت ہی تنگ گزر گاہ کا انتخاب کرچکے ہیں۔ تاہم عمران خان اس حوالے سے بہت خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ریاست کے تمام ''طاقتور ستون'' ان کی حمایت میں نظر آرہے ہیں اور وہ سبھی چاہتے ہیں کہ عمران خان کام کریں۔