ایف بی آر کی ٹیکس تنازعات میں پھنسے 200 ارب کی ریکوری کا حکم
ذیلی اداروں کوایپلٹ ٹربیونلزسے حکم امتناع کی مدت گزرنے کے بعد کے اختیارات استعمال،عدالتوں میں پیروی موثربنانے کی ہدایت
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تمام ماتحت اداروں کو ٹیکس دہندگان سے ٹیکس تنازعات میں پھنسے ہوئے 200 ارب روپے کے ٹیکس واجبات کی ریکوری کے لیے کارروائی شروع کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تقرری کے بعد ایف بی آر میں بڑے پیمانے پر ری ویمپنگ کی جارہی ہے اس دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی ٹاپ انتظامیہ کو بتایا گیا کہ ایف بی آر کے مجموعی طور پر 385 ارب روپے سے زائد مالیت کا ریونیو ٹیکس تنازعات میں بھنسا ہوا ہے اورایپلٹ ٹربیونلز اور دیگر متعلقہ فورمز کی جانب سے ٹیکس تنازعات میں کئی کئی ماہ تک حکم امتناعی جاری رہنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ٹیکس ریکوری نہیں ہوپارہی ہے جسکی وجہ سے قومی خزانے کو بھی نقصان ہورہا ہے اور ایف بی آر و اسکے ماتحت اداروں کے کام کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف ایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے جن کیسوں میں حکم امتناعی جاری کیے ہوئے 180 روز سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے وہاں 200ارب روپے کا ریونیو پھنسا ہوا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر حکام کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹیکس تنازعات کے کیسوں کے حوالے سے ایپلٹ کے میکنزم میں کمزوریوں و خامیوں کی وجہ سے ریونیو پھنسا ہوا ہے کیونکہ بہت سے ایسے کیس ایپلٹ کی سطع پر جاکر پھنس جاتے ہیں جہاں ٹیکس دہندہ کے ذمہ ٹیکس واجبات کے سو فیصد شواہد موجود ہوتے ہیں۔
ایپلٹ ٹربیونلز اور دیگر فورمز پر ٹیکس تنازعات کے کیسوں میں تاخیر کی ذمہ داری ٹیکس ڈیپارٹمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ان کیسوں کی موثر پیروی نہیں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی یہ تنازعات طوالت اختیار کرتے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو بتایا گیا ہے کہ 200ارب روپے کے ریونیو پر مشتمل ایسے کیس ہیں جن میں ایپلٹ ٹربیونلز کی سطع سے 180کے روز سے زائد عرصے سے حکم امتناعی چلا آرہے ہیں جبکہ حکومت نے ایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے ٹیکس کیسوں میں طویل عرصے تک حکم امتناعی کے رجحان کو روکنے کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں فنانس ایکٹ کے ذریعے ترامیم کی ہیں جس کے ذرئعیے ایپلٹ ٹربیونلزکوٹیکس کیسوں میں حکم امتناعی جاری کرنے کی مدت کو180 روز تک محدود کردیا گیا ہے اورایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے جاری کردہ حکم امتناعی کی مجومعی مدت جیسے ہی 180 روز سے زائد ہوتی ہے توایپلٹ ٹربیونل کا حکم امتناعی ازخود ختم ہوجاتا ہے اورٹیکس گزار کو اگر مزید توسیع درکار ہوتی ہے تو اسے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوتا ہے اور اگر ٹیکس گزار کی جانب سے ہائیکورٹ سے مزید حکم امتناعی حاصل نہ کیا گیا ہو تو ایف بی آر کی ٹیکس اتھارٹیز کو اس کیس میں ٹیکس واجبات کی ریکوری کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
ایف بی آر کو موصول ہونے والے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ایپلٹ ٹربیونل کی جانب سے جن ٹیکس کیسوں میں حکم امتناعی جاری کیے ہوئے مجموعی معیاد ایک 180 روز سے زائد ہوچکی ہے ان کیسوں میں 200 ارب روپے کا ریونیو پھنسا ہوا ہے جہاں ایف بی آر نے ماتحت اداروں کو فوری کارروائی کرکے ریکوری کے احکامات جاری کردیے ہیں اور بعض کیسوں میں ایف بی آر کی ٹیکس اتھارٹیز کی جانب سے ریکوری کی جاچکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایپلٹ ٹربیونل کے علاوہ ہائیکورٹ اور دیگر عدالتی فورمز پر بھی جو ٹیکس کیس چل رہے ہیں ان کیسوں کی بھی موثر پیروی کرکے انہیں جلد نمٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں تاکہ جن کیسوں میں ایف بی آر کے حق میں فیصلے آتے ہیں وہاں ٹیکس واجبات کی ریکوری کی جائے البتہ ٹیکس کیسوں کو زیادہ عرصے تک التواء میں نہ رکھا جائے اور پیروی موثر کی جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تقرری کے بعد ایف بی آر میں بڑے پیمانے پر ری ویمپنگ کی جارہی ہے اس دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی ٹاپ انتظامیہ کو بتایا گیا کہ ایف بی آر کے مجموعی طور پر 385 ارب روپے سے زائد مالیت کا ریونیو ٹیکس تنازعات میں بھنسا ہوا ہے اورایپلٹ ٹربیونلز اور دیگر متعلقہ فورمز کی جانب سے ٹیکس تنازعات میں کئی کئی ماہ تک حکم امتناعی جاری رہنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ٹیکس ریکوری نہیں ہوپارہی ہے جسکی وجہ سے قومی خزانے کو بھی نقصان ہورہا ہے اور ایف بی آر و اسکے ماتحت اداروں کے کام کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف ایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے جن کیسوں میں حکم امتناعی جاری کیے ہوئے 180 روز سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے وہاں 200ارب روپے کا ریونیو پھنسا ہوا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر حکام کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹیکس تنازعات کے کیسوں کے حوالے سے ایپلٹ کے میکنزم میں کمزوریوں و خامیوں کی وجہ سے ریونیو پھنسا ہوا ہے کیونکہ بہت سے ایسے کیس ایپلٹ کی سطع پر جاکر پھنس جاتے ہیں جہاں ٹیکس دہندہ کے ذمہ ٹیکس واجبات کے سو فیصد شواہد موجود ہوتے ہیں۔
ایپلٹ ٹربیونلز اور دیگر فورمز پر ٹیکس تنازعات کے کیسوں میں تاخیر کی ذمہ داری ٹیکس ڈیپارٹمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ان کیسوں کی موثر پیروی نہیں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی یہ تنازعات طوالت اختیار کرتے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو بتایا گیا ہے کہ 200ارب روپے کے ریونیو پر مشتمل ایسے کیس ہیں جن میں ایپلٹ ٹربیونلز کی سطع سے 180کے روز سے زائد عرصے سے حکم امتناعی چلا آرہے ہیں جبکہ حکومت نے ایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے ٹیکس کیسوں میں طویل عرصے تک حکم امتناعی کے رجحان کو روکنے کے لیے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں فنانس ایکٹ کے ذریعے ترامیم کی ہیں جس کے ذرئعیے ایپلٹ ٹربیونلزکوٹیکس کیسوں میں حکم امتناعی جاری کرنے کی مدت کو180 روز تک محدود کردیا گیا ہے اورایپلٹ ٹربیونلز کی جانب سے جاری کردہ حکم امتناعی کی مجومعی مدت جیسے ہی 180 روز سے زائد ہوتی ہے توایپلٹ ٹربیونل کا حکم امتناعی ازخود ختم ہوجاتا ہے اورٹیکس گزار کو اگر مزید توسیع درکار ہوتی ہے تو اسے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوتا ہے اور اگر ٹیکس گزار کی جانب سے ہائیکورٹ سے مزید حکم امتناعی حاصل نہ کیا گیا ہو تو ایف بی آر کی ٹیکس اتھارٹیز کو اس کیس میں ٹیکس واجبات کی ریکوری کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
ایف بی آر کو موصول ہونے والے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ایپلٹ ٹربیونل کی جانب سے جن ٹیکس کیسوں میں حکم امتناعی جاری کیے ہوئے مجموعی معیاد ایک 180 روز سے زائد ہوچکی ہے ان کیسوں میں 200 ارب روپے کا ریونیو پھنسا ہوا ہے جہاں ایف بی آر نے ماتحت اداروں کو فوری کارروائی کرکے ریکوری کے احکامات جاری کردیے ہیں اور بعض کیسوں میں ایف بی آر کی ٹیکس اتھارٹیز کی جانب سے ریکوری کی جاچکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایپلٹ ٹربیونل کے علاوہ ہائیکورٹ اور دیگر عدالتی فورمز پر بھی جو ٹیکس کیس چل رہے ہیں ان کیسوں کی بھی موثر پیروی کرکے انہیں جلد نمٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں تاکہ جن کیسوں میں ایف بی آر کے حق میں فیصلے آتے ہیں وہاں ٹیکس واجبات کی ریکوری کی جائے البتہ ٹیکس کیسوں کو زیادہ عرصے تک التواء میں نہ رکھا جائے اور پیروی موثر کی جائے۔