مصرمیں اخوان المسلمون کے 75 افراد کو سزائے موت سنا دی گئی

سزائیں انتہائی غیر منصفانہ اور مصری آئین کی خلاف ورزی ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل


ویب ڈیسک September 09, 2018
سزائیں انتہائی غیر منصفانہ اور مصری آئین کی خلاف ورزی ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل فوٹو:فائل

مصر کی عدالت نے اخوان المسلمون کے دھرنے میں شرکت پر 739 افراد کو مختلف سزائیں دی ہیں جن میں سے 75 کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مصر میں 739 افراد کو سزائیں سنادی گئی ہیں جنہوں نے 2013 میں فوج کی جانب سے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اخوان المسلمون کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کی تھی۔

فوجداری عدالت نے 75 افراد کو سزائے موت، 47 افراد کو عمر قید جب کہ باقی ملزمان کو قید اور جرمانے کی مختلف سزائیں سنائیں۔ ان افراد پر ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے ، سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے۔

جن افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں اخوان المسلمون کے معروف قائدین اعصام العریان ، محمد بلتاجی اور معروف اسلامی مبلغ صفوت حجازی بھی شامل ہیں۔ عمر قید کی سزا پانے والے رہنماؤں میں اخوان المسلون کے سربراہ محمد بدیع بھی شامل ہیں جب کہ سابق صدر مرسی کے بیٹے اسامہ کو دس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔

ایک صحافی محمود ابوزید المعروف شوقان کو بھی پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ احتجاج کی کوریج کررہے تھے۔ انھیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے سال کے عالمی آزادی انعام سے بھی نوازا تھا۔



انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان سزاؤں کو انتہائی غیر منصفانہ اور مصری آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی مقدمات اور سزاؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مصری سکیورٹی فورسز نے اپنے خلاف احتجاج کرنے والے کم از کم 817 افراد کو ہلاک کیا جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔

3 جولائی 2013 کو مصری آرمی چیف عبدالفتاح السیسی نے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کی حکومت کا اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد ہی تختہ الٹ دیا تھا۔ حکومت کے حامی مظاہرین نے قاہرہ کے مشہور چوک رابعہ العدویہ میں دھرنا دیا۔ 14 اگست 2013 کو مصری فوج نے نہتے مظاہرین کے خلاف آپریشن شروع کیا جس میں 2600 افراد جاں بحق ہوئے جن میں صحافی بھی شامل تھے۔ مصر میں اخوان المسلون کو کالعدم اور دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں