پاک امریکا تعلقات ایک جائزہ پہلا حصہ
چین میں کمیونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کا خاتمہ کردیا
بدھ 5 ستمبر کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو پاکستان کا چند گھنٹوں کا دورہ کرنے کے بعد بھارت چلے گئے۔ یہاں انھوں نے وزیراعظم، آرمی چیف اور وزارت خارجہ میں مختصر ملاقاتیں کیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے ہمراہ اس سفر میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفولڈ (Gen. Joseph Dunfold) بھی تھے، مگر انھوں نے اس دورے کے دوران نہ تو اپنے ہم منصب سے علیحدہ ملاقات کی اور نہ ہی خطے کی تزویراتی صورت حال پر پاکستانی آرمی چیف سے کسی قسم کا کوئی تبادلہ خیال کیا۔ لہٰذا ان کی آمد کا مقصد سمجھ میں نہیں آسکا۔
دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیں، تو پاکستانی وزارت خارجہ کے جاری کردہ اعلامیہ اور وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے مختلف منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ CNN کے مطابق امریکا ہند۔الکاہل (Indo-Pacific) ریجن میں بھارت کے ساتھ تزویراتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے وزیر خارجہ کا مختصر دورہ پاکستان دراصل اپنے اس موقف کا اعادہ کرنا تھا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات میں موجود حالیہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے دہشتگردی کے خلاف واضح حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
رائٹر کے مطابق سیکریٹری آف اسٹیٹ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو تعلقات میں حالیہ تناؤ میں قدرے کمی کی جانب پیش قدمی قرار دیا ہے۔ امریکا نے 300 ملین ڈالر کی سپورٹ امداد اس لیے روکی ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خاتمہ میں خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہا۔ پاک امریکا تعلقات میں نشیب وفراز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں مختلف ادوار میں جنم لینے والے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لیے ان تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے:
امریکی انتظامیہ اپریل 1947ء تک تقسیم ہند کی مخالف تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چین میں کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی تھی، جب کہ کوریا میں بھی کمیونسٹ سر اٹھا رہے تھے۔ لہٰذا امریکا نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کا کوئی دوسرا خطہ یا علاقہ شورش یا بدامنی کا شکار ہو۔ البتہ تقسیم ہند کے بعد اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی درخواست پر دونوں ممالک کو نہ صرف تسلیم کر لیا، بلکہ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لیے اپنے مشن بھی ان ممالک میں بھیجے۔ امریکا کا جھکاؤ روز اول ہی سے بھارت کی جانب تھا۔ اس کی وجہ وسیع رقبہ اور بڑی آبادی کے علاوہ جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت تھی۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کے سوشلسٹ نظریات امریکا کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان باضابطہ اور رسمی تعلقات قیام پاکستان کے دو ماہ اور چھ روز بعد 20 اکتوبر 1947ء کو قائم ہوئے۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان نے قیام پاکستان کے فوری بعد پالیسی بیانات دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان عالمی نظریاتی تنازعات میں غیر جانبدار رہے گا اور تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں تعلقات قائم کرے گا۔ یہ بیانات اس زمانے میں آئے تھے، جب دنیا تیزی کے ساتھ دو قطبیت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسی اثنا میں قائداعظم نے امریکا سے پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے دو بلین ڈالر امداد کی درخواست کی۔ جسے امریکی منصوبہ سازوں نے سردمہری کے ساتھ نظر انداز کرتے ہوئے صرف 10 ملین ڈالر کی مدد دینے کی خواہش ظاہر کی۔
قائداعظم کی رحلت کے چند ماہ بعد ہی چین میں کمیونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یعنی یورپ سے ایشیا تک پھیلے شمالی نصف کرے پر کمیونسٹ راج قائم ہوگیا تھا۔ کوریا میں بھی تناؤ جاری تھا۔ اس سے قبل اپریل 1948ء میں یورپ کی تعمیر نو کے لیے امریکا نے 12 بلین ڈالر امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔ جس نے دنیا کو دو قطبیت میں تقسیم کردیا تھا۔ اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی فوج کے سربراہ نے 4 مارچ 1949ء کو پینٹاگون کو خط لکھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک اچھا تزویراتی پارٹنر ثابت ہوسکتا ہے۔
پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مئی 1950ء میں پاکستانی وزیراعظم کے متوقع دورے میں ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان روسی دعوت نامہ پر پہلے روس جانے کے خواہشمند تھے، مگر بیوروکریسی میں بیٹھے برطانیہ کے نمک خواروںنے بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ مل کر وزیراعظم کو امریکا کے دورے پر مجبور کردیا۔ واشنگٹن میں لیاقت علی خان مرحوم کا صدر ہیری ٹرومین اور سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج سی مارشل نے نہ صرف پرتپاک استقبال کیا، بلکہ ان کے ساتھ مذاکرات کے کئی سیشن بھی کیے۔
گو اگلے برس (1951) فروری میں امریکا نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے پاکستان کے لیے 6 لاکھ ڈالر کی امداد منظور کی، مگر تعلقات رسمی نوعیت کے ہی رہے۔ 1953ء میں جب ری پبلکن پارٹی کے آئزن ہاور اقتدار میں آئے، تو انھوں نے کمیونزم کا راستہ روکنے کی حکمت عملی میں تیزی لانے کی خاطر مشرق وسطیٰ کے لیے ایران اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کو کمیونسٹ تصورات روکنے کی ذمے داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نائب صدر رچرڈ نکسن کو دسمبر 1953ء میں پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ جنھوں نے پاکستان کو سماجی اور دفاعی سیکٹر میں ہر قسم کی امداد کی یقین دہانی کرائی۔ یوں پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی کا پہلا دور شروع ہوا۔
پاکستان جو اپنی سلامتی اور بقا کے خوف میں مبتلا چلا آرہا تھا، امریکی شرائط کا بغور مطالعہ کیے بغیر یکے بعد دیگرے مختلف معاہدوں کو قبول کرتا چلا گیا۔ SEATO (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) ستمبر 1954ء میں قائم کی گئی۔ اس کا مقصد چین کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک تک رسائی سے روکنا تھا۔ اس میں پاکستان کو اس لیے شامل کیا گیا کہ مشرقی پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے دہانے پر تھا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد CENTO (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) نامی تنظیم 1955ء میںقائم کی گئی۔ اسے بغداد پیکٹ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم میں پاکستان، ایران، ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا مقصد سوویت یونین کو مشرق وسطیٰ میں گھسنے سے روکنا تھا۔
1953ء سے 1962ء تک آئزن ہاور کا دور پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی کا دور تھا۔ اس دور میں امریکا نے دفاعی کے ساتھ سماجی سیکٹر میں پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ PL480 پروگرام اسی دور میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کا اصل نام Food for Peace تھا۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو امریکی گندم کی فراہمی کے ساتھ گندم کی تخم ریزی کے ذریعہ غذائی پیداوار میں اضافے میں مدد دی گئی۔ اسکولوں میں بچوں کو خشک دودھ، گھی اور دیگر اشیا تحفہ کے طور پر دی گئیں۔ مگر ان تعلقات کی نوعیت دو طرفہ (Bilateral) کے بجائے Patron & Client والی تھی۔ جس پر پاکستان نے کبھی معترض ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالانکہ SEATO اور CENTO معاہدوں کی دستاویز کا مطالعہ کریں تو ان میں بعض شرائط ایسی تھیں، جو کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں، مگر پاکستانی حکمرانوں نے نہ جانے کن مفادات کے تحت ان معاہدوں پر آنکھ بند کرکے دستخط کردیے تھے۔ پارلیمان میں صرف میاں افتخار الدین مرحو م وہ واحد رہنما تھے، جو مسلسل ان معاہدوں پر تنقید کررہے تھے۔
گرم جوشی کا یہ دور 1962ء میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ امریکا کی خواہش تھی کہ چین بھارت جنگ میں پاکستان بھارت کا ساتھ دے۔ ایوب خان اس شرط پر آمادہ ہوگئے تھے کہ امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کروا دے۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ شرط منظور نہیں تھی۔ نتیجتاً پاکستان چین کے قریب چلا گیا۔ دوئم، اسی برس امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلی تھی۔ یوں پاکستان کی تزویراتی اہمیت میں قدرے کمی آگئی تھی۔ اس طرح جنوری 1963ء میںجان کینیڈی کے دور سے سردمہری کا پہلا دور شروع ہوا، جو 1971ء تک جاری رہا۔
(جاری ہے)
دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیں، تو پاکستانی وزارت خارجہ کے جاری کردہ اعلامیہ اور وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے مختلف منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ CNN کے مطابق امریکا ہند۔الکاہل (Indo-Pacific) ریجن میں بھارت کے ساتھ تزویراتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے وزیر خارجہ کا مختصر دورہ پاکستان دراصل اپنے اس موقف کا اعادہ کرنا تھا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات میں موجود حالیہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے دہشتگردی کے خلاف واضح حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
رائٹر کے مطابق سیکریٹری آف اسٹیٹ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو تعلقات میں حالیہ تناؤ میں قدرے کمی کی جانب پیش قدمی قرار دیا ہے۔ امریکا نے 300 ملین ڈالر کی سپورٹ امداد اس لیے روکی ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خاتمہ میں خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہا۔ پاک امریکا تعلقات میں نشیب وفراز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں مختلف ادوار میں جنم لینے والے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لیے ان تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے:
امریکی انتظامیہ اپریل 1947ء تک تقسیم ہند کی مخالف تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چین میں کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی تھی، جب کہ کوریا میں بھی کمیونسٹ سر اٹھا رہے تھے۔ لہٰذا امریکا نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کا کوئی دوسرا خطہ یا علاقہ شورش یا بدامنی کا شکار ہو۔ البتہ تقسیم ہند کے بعد اس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی درخواست پر دونوں ممالک کو نہ صرف تسلیم کر لیا، بلکہ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لیے اپنے مشن بھی ان ممالک میں بھیجے۔ امریکا کا جھکاؤ روز اول ہی سے بھارت کی جانب تھا۔ اس کی وجہ وسیع رقبہ اور بڑی آبادی کے علاوہ جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت تھی۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کے سوشلسٹ نظریات امریکا کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان باضابطہ اور رسمی تعلقات قیام پاکستان کے دو ماہ اور چھ روز بعد 20 اکتوبر 1947ء کو قائم ہوئے۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان نے قیام پاکستان کے فوری بعد پالیسی بیانات دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان عالمی نظریاتی تنازعات میں غیر جانبدار رہے گا اور تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں تعلقات قائم کرے گا۔ یہ بیانات اس زمانے میں آئے تھے، جب دنیا تیزی کے ساتھ دو قطبیت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسی اثنا میں قائداعظم نے امریکا سے پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے دو بلین ڈالر امداد کی درخواست کی۔ جسے امریکی منصوبہ سازوں نے سردمہری کے ساتھ نظر انداز کرتے ہوئے صرف 10 ملین ڈالر کی مدد دینے کی خواہش ظاہر کی۔
قائداعظم کی رحلت کے چند ماہ بعد ہی چین میں کمیونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یعنی یورپ سے ایشیا تک پھیلے شمالی نصف کرے پر کمیونسٹ راج قائم ہوگیا تھا۔ کوریا میں بھی تناؤ جاری تھا۔ اس سے قبل اپریل 1948ء میں یورپ کی تعمیر نو کے لیے امریکا نے 12 بلین ڈالر امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔ جس نے دنیا کو دو قطبیت میں تقسیم کردیا تھا۔ اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی فوج کے سربراہ نے 4 مارچ 1949ء کو پینٹاگون کو خط لکھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک اچھا تزویراتی پارٹنر ثابت ہوسکتا ہے۔
پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مئی 1950ء میں پاکستانی وزیراعظم کے متوقع دورے میں ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان روسی دعوت نامہ پر پہلے روس جانے کے خواہشمند تھے، مگر بیوروکریسی میں بیٹھے برطانیہ کے نمک خواروںنے بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ مل کر وزیراعظم کو امریکا کے دورے پر مجبور کردیا۔ واشنگٹن میں لیاقت علی خان مرحوم کا صدر ہیری ٹرومین اور سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج سی مارشل نے نہ صرف پرتپاک استقبال کیا، بلکہ ان کے ساتھ مذاکرات کے کئی سیشن بھی کیے۔
گو اگلے برس (1951) فروری میں امریکا نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے پاکستان کے لیے 6 لاکھ ڈالر کی امداد منظور کی، مگر تعلقات رسمی نوعیت کے ہی رہے۔ 1953ء میں جب ری پبلکن پارٹی کے آئزن ہاور اقتدار میں آئے، تو انھوں نے کمیونزم کا راستہ روکنے کی حکمت عملی میں تیزی لانے کی خاطر مشرق وسطیٰ کے لیے ایران اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کو کمیونسٹ تصورات روکنے کی ذمے داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نائب صدر رچرڈ نکسن کو دسمبر 1953ء میں پاکستان کے دورے پر بھیجا۔ جنھوں نے پاکستان کو سماجی اور دفاعی سیکٹر میں ہر قسم کی امداد کی یقین دہانی کرائی۔ یوں پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی کا پہلا دور شروع ہوا۔
پاکستان جو اپنی سلامتی اور بقا کے خوف میں مبتلا چلا آرہا تھا، امریکی شرائط کا بغور مطالعہ کیے بغیر یکے بعد دیگرے مختلف معاہدوں کو قبول کرتا چلا گیا۔ SEATO (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) ستمبر 1954ء میں قائم کی گئی۔ اس کا مقصد چین کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک تک رسائی سے روکنا تھا۔ اس میں پاکستان کو اس لیے شامل کیا گیا کہ مشرقی پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے دہانے پر تھا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد CENTO (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) نامی تنظیم 1955ء میںقائم کی گئی۔ اسے بغداد پیکٹ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم میں پاکستان، ایران، ترکی اور برطانیہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا مقصد سوویت یونین کو مشرق وسطیٰ میں گھسنے سے روکنا تھا۔
1953ء سے 1962ء تک آئزن ہاور کا دور پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی کا دور تھا۔ اس دور میں امریکا نے دفاعی کے ساتھ سماجی سیکٹر میں پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ PL480 پروگرام اسی دور میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کا اصل نام Food for Peace تھا۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو امریکی گندم کی فراہمی کے ساتھ گندم کی تخم ریزی کے ذریعہ غذائی پیداوار میں اضافے میں مدد دی گئی۔ اسکولوں میں بچوں کو خشک دودھ، گھی اور دیگر اشیا تحفہ کے طور پر دی گئیں۔ مگر ان تعلقات کی نوعیت دو طرفہ (Bilateral) کے بجائے Patron & Client والی تھی۔ جس پر پاکستان نے کبھی معترض ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالانکہ SEATO اور CENTO معاہدوں کی دستاویز کا مطالعہ کریں تو ان میں بعض شرائط ایسی تھیں، جو کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں، مگر پاکستانی حکمرانوں نے نہ جانے کن مفادات کے تحت ان معاہدوں پر آنکھ بند کرکے دستخط کردیے تھے۔ پارلیمان میں صرف میاں افتخار الدین مرحو م وہ واحد رہنما تھے، جو مسلسل ان معاہدوں پر تنقید کررہے تھے۔
گرم جوشی کا یہ دور 1962ء میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ امریکا کی خواہش تھی کہ چین بھارت جنگ میں پاکستان بھارت کا ساتھ دے۔ ایوب خان اس شرط پر آمادہ ہوگئے تھے کہ امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کروا دے۔ مگر پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ شرط منظور نہیں تھی۔ نتیجتاً پاکستان چین کے قریب چلا گیا۔ دوئم، اسی برس امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلی تھی۔ یوں پاکستان کی تزویراتی اہمیت میں قدرے کمی آگئی تھی۔ اس طرح جنوری 1963ء میںجان کینیڈی کے دور سے سردمہری کا پہلا دور شروع ہوا، جو 1971ء تک جاری رہا۔
(جاری ہے)