سُرخاب
جاوید عرفان لکھتے ہیں ’’خالد حسن کی نجی زندگی سے ہٹ کر اس پر دو عورتوں کے بہت اثرات رہے
جاوید عرفان کی کتاب ''سُرخاب'' میں کچھ تذکرے ہیں، کچھ خاکے اورکچھ قصے۔ بیان شگفتہ، تذکرے فکر انگیز، خاکے جاندار اور قصے دلچسپ ہیں۔ کتاب سنگ میل، لاہور نے شایع کی ہے۔
سب سے پہلے ذکر خالد حسن کا ہے۔ جاوید عرفان لکھتے ہیں۔ ''ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی، محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید کے برادر نسبتی، پیرس، اوٹاوا اور لندن میں سفارتکار، چالیس کتابوں کے مصنف، باخبر اور حاضر دماغ صحافی، انگریزی کے اپنے وقت کے صاحب طرز اور صف اول کے کالم نگار اور شاندار مترجم، خالد حسن سے میں کبھی نہیں ملا۔''
لیکن ''بھٹو کی رنگین و سنگین صحبت کے رازداں، املیا ہوٹل، دڑموں والے چوک اورکشمیر کی پہاڑیوں کے قدموں میں آباد سیالکوٹ کو ٹوٹ کر چاہنے والے دمکتے ہیروں میں سجی میڈم نور جہاں کی محبت میں گرفتار، بچپن کے یاروں کے یار، فیض احمد فیض، قرۃ العین حیدر، اے حمید کے دوست، بینظیرکے شناسا، پرانی اقدار اور نفیس ریشمی نک ٹائیوں کے عاشق، راج کی اونچی ناک والی روایات کے امین، نک سک نٹ کھٹ، چلبلے پچھتر برس کی عمر تک کھلنڈرے رہنے والے خالد حسن سے جاوید عرفان ان کے بیشمار کالموں یاد داشتوں کی شاندار کتاب ''مقابل ہے آئینہ، مضامین، خطوط اور سیالکوٹ کے مشترکہ شناساؤں کی معرفت شناسا تھے۔
جاوید عرفان لکھتے ہیں ''خالد حسن کی نجی زندگی سے ہٹ کر اس پر دو عورتوں کے بہت اثرات رہے۔ معروف ادیبہ قرۃ العین اور ملکہ ترنم میڈم نور جہاں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ دونوں خواتین با رُعب شخصیت اور جلالی مزاج کی حامل تھیں، اس نے کمال آسانی سے ان سے واضح طور پر (مودبانہ) اظہار محبت کردیا۔'' پہلی ملاقات میں سفید ساڑھی میں ملبوس، سونے اور ہیرے میں دمکتی، خیرہ کن نورجہاں خالد حسن کی یاد داشت میں یوں محفوظ ہوئیں کہ بعد کی ملاقاتوں میں گلابی، فیروزی اور دیگر رنگ کے ملبوسات اور مختلف زیورات میں دیکھنے کے باوجود پہلی ملاقات کا تاثر سب سے مضبوط رہا۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ خالد حسن کا ایسا انمول تعلق رہا جس میں کئی ملاقاتیں رہیں۔ درجنوں خطوط کا تبادلہ ہوا، رسمی انٹرویو ہوا اور ٹیلی فون پر وہ باہم رابطے میں رہے۔ خالد حسن نے انھیں اردو ادب کی ''حاضر امام'' قرار دیا۔ ایک دن یہ بھی کردیا ''عینی آئی تو یوں'' خالد حسن نے دل و جان سے قرۃ العین سے عقیدت آمیز ارادت مندانہ محبت کی تھی۔
پروین شاکر سے عرفان جاوید کی شناسائی ان کی شاعری کے ذریعے ان دنوں ہوئی جب وہ اسکول میں پڑھتے تھے ان کے دوست بابر بیگ، ہر دوسری بات کے ساتھ یہ مصرع ٹانک دیا کرتے تھے ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'' اس وقت عرفان جاوید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مصرع کس کا ہے۔ بعد میں جب پروین شاکر کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا کہ کئی مصرع جو وہ سنتے آئے تھے۔ عام گفتگو میں استعمال ہوتے تھے اور ضرب المثل بن گئے تھے، پروین شاکر نامی نوجوان، منفرد اور پر اثر شاعرہ کے تھے۔
عرفان جاوید نے اپنے تذکرے میں پروین شاکرکی پوری زندگی کا خاکہ کھینچا ہے۔ یہ بڑا جذباتی مضمون ہے۔ لکھتے ہیں ''پروین کو گڑیا سے کھیلنے کا کوئی شوق نہ تھا ۔ درختوں پر چڑھنا، ان سے پھل توڑ کر کھانا اور کھیل کود پسند تھے۔ بارش پروین کی کمزوری تھی۔ وہ خود گڑیاسی تھی جسے اس کی والدہ ہلکے گلابی اور سبز رنگ کے فراک، چوڑیاں اور پازیب پہناتیں اور نظر بد سے محفوظ رکھنے کا انتظام کرتیں اسے ناناکے کمرے سے ہومیو پیتھک میں استعمال ہونے والی میٹھی گولیاں بھی پسند تھیں۔ اسے پڑھنے لکھنے کا ایسا شوق تھا کہ وہ ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتی۔ گھر کا تعلیمی ماحول اس کے ذوق کو جلا بخشتا اور شوق کو مہمیز کرتا۔''
عرفان جاوید پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم، پھر سرسید کالج کے زمانے کا ذکر کرتے ہیں جب اس کی شہرت کالج کی چار دیواری سے نکل کر پھیلنے لگی تھی۔ انھی دنوں کی بات ہے پروین محبت کے لطیف گلابی تجربے سے گزری پھر یہ تجربہ دل کا روگ بن گیا۔ وہ لکھتے ہیں ''اردو شاعرات میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ شہرت پانے والے چار شعری مجموعوں اور ایک کلیات ، کئی کالموں اور نثری تحریروں کی خالق پروین بانو شاکر نے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہ بہاری اور سر تا پا شیعہ تھی۔ متوسط خاندان سے تعلق تھا۔ والد شاعر، نانا شاعر تھے، بیوروکریسی کا حصہ بنی، ہارورڈ ایسے بین الاقوامی موقر ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی صبح کے وقت پیدا ہوئی، صبح ہی کے وقت وفات ہوئی بہ وقت ولادت بارش ہورہی تھی اور انتقال کے وقت بھی مینہ برس رہا تھا۔ ایک مجموعے کا نام خود کلامی تھا اور اپنی مختصر زندگی میں زیادہ تر خود ہی سے کلام کیا۔ عجیب دلیر عورت تھی کہ کئی مردوں کی سی زندگی جی گئی اور ایسی چھوٹی موٹی نسوانیت تھی کہ اپنی تمام دل آویزی کے ساتھ زندگی کی بہتی ندی میں ماہ تمام کے عکسی کے مانند، ہاتھ بھر فاصلے پر ہونے کے باوجود کوسوں دور رہی۔''
عرفان جاوید نے پنجابی زبان کی معروف شاعر استاد دامن کا تذکرہ ''دم دم دامن'' کے عنوان سے کیا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں بھارتی شہریت اختیارکرنے کی دعوت دی، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ان پر ایک جھوٹا کیس بنادیاگیا، اس سے پہلے وہ ایوب دور میں بھی معتوب ٹھہرے تھے۔ بھٹو حکومت کے بعد ضیا کے جبر کے دور میں بھی استاد دامن نے اپنے ضمیر کی آواز پا حاکم وقت کو بلا تفریق سول اور فوجی حکومت، للکارتے ہوئے ببانگ دہل اشعار کہے۔
عرفان جاوید نے ان کا خاکہ محبت سے لکھا ہے اور ان سے وابستہ بہت قصے بیان کیے ہیں وہ لکھتے ہیں۔ ''استاد کے ڈیرے سے بلا تفریق قومیت عوامی شاعری کی تانیں اٹھتیں، لوک صوفی شاعری کی اشرفیاں اچھالی جاتیں اور ذائقے دار رنگین فلمی شاعری کی گونج بھی سنائی دیتی۔''
عرفان جاوید لکھتے ہیں '' اردو کے صف اول کے ادیب سعادت حسن منٹو نے دو عشق کیے، ایک محبت کی، ایک رومانی شیفتگی میں مبتلا ہوا ۔ میٹرک میں دو مرتبہ اردو کے مضمون میں فیل ہونے کے باوجود اردو کا اہم ترین ادیب ٹھہرا۔ فلمیں لکھیں، سیکڑوں افسانے، خاکے، ڈرامے، کالم، مضامین اور خطوط تحریر کیے، خودکشی کی ایک ناکام کوشش کی، ہندوستان میں کسی قدر معاشی خوشحالی کے دن گزارکر تقسیم کے وقت ہندوستان میں قسمت آزمائی کے لیے رُک گیا۔ چند ماہ میں حالات دگر گوں ہوتے دیکھ کر ممبئی سے سمندر کے راستے کشتی سے 1948 میں کراچی اور پھر لاہور پہنچ گیا۔
بٹوارے کے بعد پاکستان میں تنگ دستی کی زندگی لاہور میں کاٹی، چند دوست بنائے، زیادہ مخالف اور حاسد، اپنی زندگی ہی میں شہرت کا عروج دیکھا۔ آخر میں ایسے بھی مواقعے بھی آئے کہ ہمراہی دوستوں نے شراب کی خاطر راہگیروں سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور کیا۔ 42سال کی جواں عمری میں وفات پائی، خوشحال گھرانے میں پیدا ہوا اور غریب ادیب کی موت مرا۔'' یہ منٹو کی داستانِ حیات ہے لیکن منٹو سے وابستہ قصے بہت ہیں۔ جو عرفان جاوید نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں اور آخیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ''کاش منٹوکی کہانی صفیہ کی جو اُن کی بیوی تھی، نظر اور قلم سے لکھی جاتی۔''
جون ایلیا کے بارے میں عرفان جاوید لکھتے ہیں ''ایک روپ جون صاحب طاری کرتے تھے، ڈراما، سجالیتے تھے یا ان کی عادات و حرکات مصنوعی ہوتی تھیں سمجھنے کے لیے ایک حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جون بہت سی زبانوں کے عالم، کئی علوم پر قادر اور نفسیات کی گتھیوں کے شارح تھے۔ وہ زندگی کی بے معنویت اور کائناتی وسعت میں انسان کی بے اہمیتی سمجھ چکے تھے۔ شاید زندگی کو ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہ لیتے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی حقیقی صاحب علم و ادراک تکبر نہیں ہوسکتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ جون دانائے راز تھے سو کج رو تھے وہ پیچیدہ اور مجموعہ اضداد بھی تھے۔ رقیق القلب تھے اور آمادہ پیکار بھی۔ عجیب آدمی تھے، اپنے گرد فسوں کا ایک ہالہ رکھتے تھے۔'' ان کے قصے بھی ان کی طرح پیچیدہ اور متضاد ہیں۔
عرفان جاوید نے امجد اسلام امجد کا ذکر ''وارث'' کے عنوان سے کیا ہے، ان کے ساتھ ایک نشست میں امجد صاحب نے کہا ''مجھے اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا ہنر دیا میں نے معاشرے میں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈراموں میں جاگیرداری کے خلاف تب قلم اٹھایا جب ہر سو سناٹا تھا۔ عورتوں کے تذلیل آمیز ہتک انسانیت برہنہ جلوس کو اس دور میں جب ٹی وی پر ہر طرح کی پابندیاں تھیں ایسے دل گیر انداز اور اشارے کنائے میں موضوع بنایا کہ بات مخاطب تک پوری اثر پذیری سے پہنچ گئی اور صاحبان اقتدارکے قواعد کے آبگینوں کو ٹھیس بھی نہ لگی۔ عرفان جاوید کی کتاب کی آخری کہانی کا عنوان ''کوزہ گر۔محمد الیاس'' ہے، یہ کہانی لکھنے کی نہیں پڑھنے کی ہے۔
سب سے پہلے ذکر خالد حسن کا ہے۔ جاوید عرفان لکھتے ہیں۔ ''ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی، محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید کے برادر نسبتی، پیرس، اوٹاوا اور لندن میں سفارتکار، چالیس کتابوں کے مصنف، باخبر اور حاضر دماغ صحافی، انگریزی کے اپنے وقت کے صاحب طرز اور صف اول کے کالم نگار اور شاندار مترجم، خالد حسن سے میں کبھی نہیں ملا۔''
لیکن ''بھٹو کی رنگین و سنگین صحبت کے رازداں، املیا ہوٹل، دڑموں والے چوک اورکشمیر کی پہاڑیوں کے قدموں میں آباد سیالکوٹ کو ٹوٹ کر چاہنے والے دمکتے ہیروں میں سجی میڈم نور جہاں کی محبت میں گرفتار، بچپن کے یاروں کے یار، فیض احمد فیض، قرۃ العین حیدر، اے حمید کے دوست، بینظیرکے شناسا، پرانی اقدار اور نفیس ریشمی نک ٹائیوں کے عاشق، راج کی اونچی ناک والی روایات کے امین، نک سک نٹ کھٹ، چلبلے پچھتر برس کی عمر تک کھلنڈرے رہنے والے خالد حسن سے جاوید عرفان ان کے بیشمار کالموں یاد داشتوں کی شاندار کتاب ''مقابل ہے آئینہ، مضامین، خطوط اور سیالکوٹ کے مشترکہ شناساؤں کی معرفت شناسا تھے۔
جاوید عرفان لکھتے ہیں ''خالد حسن کی نجی زندگی سے ہٹ کر اس پر دو عورتوں کے بہت اثرات رہے۔ معروف ادیبہ قرۃ العین اور ملکہ ترنم میڈم نور جہاں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ دونوں خواتین با رُعب شخصیت اور جلالی مزاج کی حامل تھیں، اس نے کمال آسانی سے ان سے واضح طور پر (مودبانہ) اظہار محبت کردیا۔'' پہلی ملاقات میں سفید ساڑھی میں ملبوس، سونے اور ہیرے میں دمکتی، خیرہ کن نورجہاں خالد حسن کی یاد داشت میں یوں محفوظ ہوئیں کہ بعد کی ملاقاتوں میں گلابی، فیروزی اور دیگر رنگ کے ملبوسات اور مختلف زیورات میں دیکھنے کے باوجود پہلی ملاقات کا تاثر سب سے مضبوط رہا۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ خالد حسن کا ایسا انمول تعلق رہا جس میں کئی ملاقاتیں رہیں۔ درجنوں خطوط کا تبادلہ ہوا، رسمی انٹرویو ہوا اور ٹیلی فون پر وہ باہم رابطے میں رہے۔ خالد حسن نے انھیں اردو ادب کی ''حاضر امام'' قرار دیا۔ ایک دن یہ بھی کردیا ''عینی آئی تو یوں'' خالد حسن نے دل و جان سے قرۃ العین سے عقیدت آمیز ارادت مندانہ محبت کی تھی۔
پروین شاکر سے عرفان جاوید کی شناسائی ان کی شاعری کے ذریعے ان دنوں ہوئی جب وہ اسکول میں پڑھتے تھے ان کے دوست بابر بیگ، ہر دوسری بات کے ساتھ یہ مصرع ٹانک دیا کرتے تھے ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی'' اس وقت عرفان جاوید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مصرع کس کا ہے۔ بعد میں جب پروین شاکر کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا کہ کئی مصرع جو وہ سنتے آئے تھے۔ عام گفتگو میں استعمال ہوتے تھے اور ضرب المثل بن گئے تھے، پروین شاکر نامی نوجوان، منفرد اور پر اثر شاعرہ کے تھے۔
عرفان جاوید نے اپنے تذکرے میں پروین شاکرکی پوری زندگی کا خاکہ کھینچا ہے۔ یہ بڑا جذباتی مضمون ہے۔ لکھتے ہیں ''پروین کو گڑیا سے کھیلنے کا کوئی شوق نہ تھا ۔ درختوں پر چڑھنا، ان سے پھل توڑ کر کھانا اور کھیل کود پسند تھے۔ بارش پروین کی کمزوری تھی۔ وہ خود گڑیاسی تھی جسے اس کی والدہ ہلکے گلابی اور سبز رنگ کے فراک، چوڑیاں اور پازیب پہناتیں اور نظر بد سے محفوظ رکھنے کا انتظام کرتیں اسے ناناکے کمرے سے ہومیو پیتھک میں استعمال ہونے والی میٹھی گولیاں بھی پسند تھیں۔ اسے پڑھنے لکھنے کا ایسا شوق تھا کہ وہ ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتی۔ گھر کا تعلیمی ماحول اس کے ذوق کو جلا بخشتا اور شوق کو مہمیز کرتا۔''
عرفان جاوید پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم، پھر سرسید کالج کے زمانے کا ذکر کرتے ہیں جب اس کی شہرت کالج کی چار دیواری سے نکل کر پھیلنے لگی تھی۔ انھی دنوں کی بات ہے پروین محبت کے لطیف گلابی تجربے سے گزری پھر یہ تجربہ دل کا روگ بن گیا۔ وہ لکھتے ہیں ''اردو شاعرات میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ شہرت پانے والے چار شعری مجموعوں اور ایک کلیات ، کئی کالموں اور نثری تحریروں کی خالق پروین بانو شاکر نے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہ بہاری اور سر تا پا شیعہ تھی۔ متوسط خاندان سے تعلق تھا۔ والد شاعر، نانا شاعر تھے، بیوروکریسی کا حصہ بنی، ہارورڈ ایسے بین الاقوامی موقر ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی صبح کے وقت پیدا ہوئی، صبح ہی کے وقت وفات ہوئی بہ وقت ولادت بارش ہورہی تھی اور انتقال کے وقت بھی مینہ برس رہا تھا۔ ایک مجموعے کا نام خود کلامی تھا اور اپنی مختصر زندگی میں زیادہ تر خود ہی سے کلام کیا۔ عجیب دلیر عورت تھی کہ کئی مردوں کی سی زندگی جی گئی اور ایسی چھوٹی موٹی نسوانیت تھی کہ اپنی تمام دل آویزی کے ساتھ زندگی کی بہتی ندی میں ماہ تمام کے عکسی کے مانند، ہاتھ بھر فاصلے پر ہونے کے باوجود کوسوں دور رہی۔''
عرفان جاوید نے پنجابی زبان کی معروف شاعر استاد دامن کا تذکرہ ''دم دم دامن'' کے عنوان سے کیا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں بھارتی شہریت اختیارکرنے کی دعوت دی، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ان پر ایک جھوٹا کیس بنادیاگیا، اس سے پہلے وہ ایوب دور میں بھی معتوب ٹھہرے تھے۔ بھٹو حکومت کے بعد ضیا کے جبر کے دور میں بھی استاد دامن نے اپنے ضمیر کی آواز پا حاکم وقت کو بلا تفریق سول اور فوجی حکومت، للکارتے ہوئے ببانگ دہل اشعار کہے۔
عرفان جاوید نے ان کا خاکہ محبت سے لکھا ہے اور ان سے وابستہ بہت قصے بیان کیے ہیں وہ لکھتے ہیں۔ ''استاد کے ڈیرے سے بلا تفریق قومیت عوامی شاعری کی تانیں اٹھتیں، لوک صوفی شاعری کی اشرفیاں اچھالی جاتیں اور ذائقے دار رنگین فلمی شاعری کی گونج بھی سنائی دیتی۔''
عرفان جاوید لکھتے ہیں '' اردو کے صف اول کے ادیب سعادت حسن منٹو نے دو عشق کیے، ایک محبت کی، ایک رومانی شیفتگی میں مبتلا ہوا ۔ میٹرک میں دو مرتبہ اردو کے مضمون میں فیل ہونے کے باوجود اردو کا اہم ترین ادیب ٹھہرا۔ فلمیں لکھیں، سیکڑوں افسانے، خاکے، ڈرامے، کالم، مضامین اور خطوط تحریر کیے، خودکشی کی ایک ناکام کوشش کی، ہندوستان میں کسی قدر معاشی خوشحالی کے دن گزارکر تقسیم کے وقت ہندوستان میں قسمت آزمائی کے لیے رُک گیا۔ چند ماہ میں حالات دگر گوں ہوتے دیکھ کر ممبئی سے سمندر کے راستے کشتی سے 1948 میں کراچی اور پھر لاہور پہنچ گیا۔
بٹوارے کے بعد پاکستان میں تنگ دستی کی زندگی لاہور میں کاٹی، چند دوست بنائے، زیادہ مخالف اور حاسد، اپنی زندگی ہی میں شہرت کا عروج دیکھا۔ آخر میں ایسے بھی مواقعے بھی آئے کہ ہمراہی دوستوں نے شراب کی خاطر راہگیروں سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور کیا۔ 42سال کی جواں عمری میں وفات پائی، خوشحال گھرانے میں پیدا ہوا اور غریب ادیب کی موت مرا۔'' یہ منٹو کی داستانِ حیات ہے لیکن منٹو سے وابستہ قصے بہت ہیں۔ جو عرفان جاوید نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں اور آخیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ''کاش منٹوکی کہانی صفیہ کی جو اُن کی بیوی تھی، نظر اور قلم سے لکھی جاتی۔''
جون ایلیا کے بارے میں عرفان جاوید لکھتے ہیں ''ایک روپ جون صاحب طاری کرتے تھے، ڈراما، سجالیتے تھے یا ان کی عادات و حرکات مصنوعی ہوتی تھیں سمجھنے کے لیے ایک حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جون بہت سی زبانوں کے عالم، کئی علوم پر قادر اور نفسیات کی گتھیوں کے شارح تھے۔ وہ زندگی کی بے معنویت اور کائناتی وسعت میں انسان کی بے اہمیتی سمجھ چکے تھے۔ شاید زندگی کو ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہ لیتے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی حقیقی صاحب علم و ادراک تکبر نہیں ہوسکتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ جون دانائے راز تھے سو کج رو تھے وہ پیچیدہ اور مجموعہ اضداد بھی تھے۔ رقیق القلب تھے اور آمادہ پیکار بھی۔ عجیب آدمی تھے، اپنے گرد فسوں کا ایک ہالہ رکھتے تھے۔'' ان کے قصے بھی ان کی طرح پیچیدہ اور متضاد ہیں۔
عرفان جاوید نے امجد اسلام امجد کا ذکر ''وارث'' کے عنوان سے کیا ہے، ان کے ساتھ ایک نشست میں امجد صاحب نے کہا ''مجھے اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا ہنر دیا میں نے معاشرے میں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈراموں میں جاگیرداری کے خلاف تب قلم اٹھایا جب ہر سو سناٹا تھا۔ عورتوں کے تذلیل آمیز ہتک انسانیت برہنہ جلوس کو اس دور میں جب ٹی وی پر ہر طرح کی پابندیاں تھیں ایسے دل گیر انداز اور اشارے کنائے میں موضوع بنایا کہ بات مخاطب تک پوری اثر پذیری سے پہنچ گئی اور صاحبان اقتدارکے قواعد کے آبگینوں کو ٹھیس بھی نہ لگی۔ عرفان جاوید کی کتاب کی آخری کہانی کا عنوان ''کوزہ گر۔محمد الیاس'' ہے، یہ کہانی لکھنے کی نہیں پڑھنے کی ہے۔