اٹھاؤ سر سوگوار لوگو
تمام مسائل پر بھی بھرپور توجہ رہے اور ’’گورنر ہاؤس کی آزادی‘‘ بھی زبردست قدم ہے
65ء کی جنگ پاکستان اس لیے جیتا تھا کہ عوام دل و جان سے اپنی افواج کے ساتھ تھے۔ لاہور اور گرد و نواح کے شہری لاٹھیاں اٹھائے بارڈر کی طرف دوڑتے جارہے تھے۔ وہ تو فوجیوں نے انھیں روکا، اور واپس جانے کا کہا، مگر شہری بے خوف و خطر، گلیوں، محلوں میں گھوم پھر رہے تھے اور اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھے، پاکستانی اور ہندوستانی ہوائی جہازوں کے مقابلے دیکھ رہے تھے، یوں جیسے پتنگوں کے میچ ہو رہے ہیں۔
عورتیں گھروں سے ناشتے کھانے لے کر بارڈر پر گئیں، فوجیوں نے انھیں بھی منع کردیا، مگر وہ بضد تھیں، تو فوجیوں نے ان کے کھانے ناشتے لے کر انھیں واپس جانے کا کہا۔ ادھر سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی بڑی جنگ ہوئی، ہندوستان کو اپنے فوجی ساز و سامان پر بڑا ناز تھا، بھروسہ تھا، مگر چونڈہ کے محاذ پر فوجی جوان اور شہری بم باندھ کر بھاری ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور یوں دشمن کے ٹینک تباہ کردیے۔ ہندوستان کو فوجی طاقت پر بھروسہ تھا اور ادھر پاکستانی فوجی اور شہری جذبہ شوق شہادت لے کر میدان میں اترے تھے۔ یہ جذبہ دیکھ کر قدرت کی طرف سے مدد آ پہنچی۔ ہندوستان جنگی جہازوں کے ہوا باز بتاتے ہیں کہ ہم لاہور شہر پر بم گرا رہے تھے لیکن وہ پھٹتے نہیں تھے۔ یوں ہم 65 کی جنگ جیت گئے تھے۔
1971 کی جنگ میں پاکستان کو رسوا کن شکست ہوئی۔ 71 کی جنگ میں عوام فوج کے ساتھ شانہ بہ شانہ نہیں تھے۔ اصلی بانیان پاکستان بنگال کے عوام کو انتخابات میں واضح ترین اکثریت کے باوجود انھیں اقتدار نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں عوامی لیگ نے 156 سیٹیں جیتی تھیں، دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 85 سیٹوں کے ساتھ موجود تھی۔ مجیب الرحمن کے چھ نکات میں سے ساڑھے پانچ نکات مان لیے گئے تھے بس آدھا نکتہ نہیں مانا گیا اور آدھے سے زیادہ پاکستان گنوا دیا گیا۔ ملک افراتفری کا شکار تھا، ان حالات میں ہندوستان نے پاکستان کے مشرقی حصے پر دھاوا بول دیا۔ ہم جنگ ہار گئے۔ ہمارے فوجی کمانڈر جنرل نیازی نے ہندوستانی جرنل اروڑا کو اپنا پسٹل دیا اور 93 ہزار پاکستانی فوجی اور عوام جنگی قیدی بنا کر ہندوستان اپنے ساتھ لے گیا۔
ادھر مغربی پاکستان کا بھی بہت سا علاقہ ہندوستانی حصے میں چلا گیا۔ ''کیا یہ مناسب نہیں تھا شیخ مجیب الرحمن کا آدھا نکتہ بھی مان کر 56 فیصد پاکستان کو بچا لیا جاتا۔ مجیب الرحمن پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے۔ خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، محمود الحق عثمانی، ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مفتی محمود، ملک حامدسرفراز، شیخ مجیب الرحمن سے گفت و شنید کے ذریعے آدھے نکتے کا حل بھی نکال لیتے۔'' مگر ایسا نہیں کیا گیا اور ہم صرف 44 فیصد پاکستان کے ساتھ آگے روانہ ہوگئے اور پھر اس باقی ماندہ 44 فیصد ملک کو بھی ہمارے حکمرانوں نے جی بھر کے لوٹا، حتیٰ کہ یہ باقی ماندہ پاکستان ادھ موا ہوکر رہ گیا۔
اس ملک کا اب جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، اربوں ڈالر کا قرضہ سر پر چڑھا ہوا ہے، خزانہ خالی ہے اور پاکستان کا لوٹا ہوا اربوں کھربوں روپیہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں پڑا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان ہے کہ ''پاکستان کا 200 ارب ڈالر سرمایہ بیرون ملک پڑا ہے'' اور واقعہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار بھی باہر پڑا ہے۔ اسحاق ڈار کو بلایا جا رہا ہے کہ ''ہماری مدد کرو، تاکہ ہم 200 ارب ڈالر واپس ملک میں لاسکیں'' مگر وہ نہیں آرہا اور لندن میں صبح کی سیر کرتا ہے، چلتا پھرتا ہے جب کہ اس کی کمر میں چک پڑی ہوئی ہے۔ یہی اسحاق ڈار جس کے پکڑے جانے سے اس کے خلاف چل رہے بہت سے اہم مقدمات کا ''فیصلہ'' ہوسکتا ہے۔ اسحاق ڈار کیسے آجائے، وہ تو اپنے ''ساتھیوں'' کی پناہ میں ہے اور وہ اسے کبھی نہیں آنے دیں گے۔ اب یہ موجودہ پاکستانی حکمرانوں کی آزمائش ہے کہ وہ اسحاق ڈار کو کیسے پاکستان واپس لاسکتے ہیں۔
گورنر ہاؤس کراچی 7 ستمبر 2018 بروز سے عوام کے کھول دیا گیا ہے۔ آج کے اخبارات میں عوام کو گورنر ہاؤس کے سبزہ زار پر گھومتے دکھایا گیا ہے۔ گورنر ہاؤس کے خوبصورت فوارے کے ساتھ عوام تصاویر اور جامعہ کراچی کی طالبات قائداعظم کے زیر استعمال گورنر جنرل کا دفتر وزٹ کر رہی ہیں۔ یہ سب بہت خوش آیند ہے مگر عوام کو ان ''بہلاوؤں'' سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ عوام کے مسائل حل ہونے چاہئیں، کراچی جیسا بڑا شہر حیف صد حیف اس شہر کی عورتیں سروں پر پانی اٹھائے اورنگی، لیاری، سرجانی ٹاؤن اور دیگر بستیوں میں نظر آتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کا حال انتہائی خراب ہے۔ کراچی کی سڑکوں، گلیوں میں بھیک مانگتے عورتیں، مرد، بچے، بچیاں۔ گندگی کے ڈھیروں کا ذکر تو ہم اہل کراچی بھول گئے۔
لوگوں کو پانی نہیں مل رہا۔ ان تمام مسائل پر بھی بھرپور توجہ رہے اور ''گورنر ہاؤس کی آزادی'' بھی زبردست قدم ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کو بھی آزاد کردو، کہ عوام کے قدم وہاں پہنچیں۔ امریکا کا وزیر خارجہ آیا اور چند گھنٹے گزار کر چلا گیا۔ 8 ستمبر 2018 کے دن ہمارے دوست چین کے وزیر خارجہ تین دن کے لیے آئے ہیں۔ یہ ہوتا ہے دوستی کا انداز۔ وزیراعظم عمران خان! اب آپ نے ہی سب کچھ کرنا ہے۔ عوام خصوصاً نوجوانوں نے آپ کا ساتھ دے دیا، کراچی نے بھی آپ کا دامن ووٹوں سے بھردیا۔ اور نوجوان آج بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ان کی امیدوں کا محور آپ ہیں۔ آخر میں جالب کی شاعری لکھنے کے لیے کلیات جالب کھولی ہے اور جو بھی سامنے آیا لکھ رہا ہوں:
تمہارے دم سے ہری زمینیں
خوشی سے، امن بھری مشینیں
ہیں ان کے باوصف بھیگی بھیگی
تمہاری اشکوں سے آستینیں
میں سوچتا، رہیں گی کب تک
ستم کے آگے جھکی جبینیں
اٹھاؤ سر سوگوار لوگو
سلام اے اشکبار لوگو