تھیلیسیمیا کی مریضہ ہزاروں افراد کے لیے امید کی کرن بن گئی

وطن عزیز اسی وقت تھیلیسیمیا سے پاک ہوسکتا ہے جب ہر فرد اپنا تتھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروائے

زندگی کی بقا کے لیے کوشاں مریضوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دیگر کے لیے امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں فوٹو : فائل

تھیلیسیمیاایک ایسی مہلک بیماری ہے جس میں مریض کو ہر ماہ انتقال خون کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ اس بیماری میں عموماً مریض بیش تر وقت محفوظ خون کی منتقلی اور اس کے نتیجے میں جسم میں فولاد کی زیادتی کو نارمل رکھنے کے لیے پریشان رہتے ہیں۔

اپنی زندگی کی بقا کے لیے کوشاں ایسے مریضوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے ہی جیسے دیگر مریضوں کے لیے امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ عوام کو آگاہی کا درس دیتے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ انسانیت کا درد رکھنے والی ایسی ہی ایک خاتون کا نام عائشہ محمود ہے۔ عائشہ محمود کے دو بھائی بھی اسی مرض کا شکار تھے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ لہٰذا یہ باہمت خاتون پر عزم ہیں کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایاجائے اور والدین و دیگر عوام کو اس مہلک بیماری سے آگاہی فراہم کی جائے۔

عائشہ محمود سے جب ہم نے ان کے حالاتِ زندگی اور اس بیماری کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا:''میری عمر تیس برس ہے، میرا تعلق میمن برادری سے ہے۔ مجھے ہر ماہ انتقال خون کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہم چار بہن بھائی تھے اور ہم تین بہن بھائی پیدائشی تھیلیسیمیامیجر کے مریض تھے۔ بہ فضلِ خدا ہماری ایک بہن نارمل ہیں۔ میرے ایک بھائی کا سترہ برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا، کیوں کہ اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا کے متعلق اتنی آگہی نہیں تھی جتنی آٓج ہے۔ دوسرے بھائی کا انتقال چوبیس برس کی عمر میں گردن توڑ بخار کی وجہ سے ہوا۔ میرے بڑے بھائی ''نعمان محمود'' کمپوزر تھے۔ میمن برادری کے ایک رسالے ''نیاپو'' میں کام کرتے تھے۔

ورلڈ گلوسری کا اردو ترجمہ بھی انھوں نے کمپوز کیا تھا۔ میرے دوسرے بھائی ''سلمان محمود'' امریکا کی ایک فرم میں ویب ڈیولپر تھے۔ میں اپنی بہن کے ساتھ ایک چھوٹا سا آن لائن بزنس کرتی ہوں اور ساتھ میں تھیلیسیمیاکے مریضوں اور ان کے والدین کی سوسائٹی (فائٹ اگینسٹ تھیلیسیمیا) یعنی فیتھ کی صدر ہوں۔

چوں کہ میرے دونوں بھائیوں میں اس مرض کی تشخیص پہلے ہی ہوچکی تھی لہٰذا ڈاکٹروں کے لیے مجھے تشخیص کرنا آسان تھا ۔ میرا پہلا (بلڈ ٹرانسفیوژن) انتقال خون چھ ماہ کی عمر میں ہوا تھا۔ تھیلیسیمیا کی وجہ سے اکثر بچے کمزوری کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے، بیماری کی وجہ سے اکثر تسلسل سے پڑھائی نہیں کر پاتے یعنی باقاعدگی سے اسکول نہیں جاپاتے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا لیکن چوں کہ والدین کے تعاون اور اس بیماری کے متعلق آگاہی کی وجہ سے ہماری صحت برقرار تھی توہم نے تعلیم حاصل کرلی، لیکن کچھ وجوہ کی بنا پر میں انٹرسے آگے نہیں پڑھ سکی۔

تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ دونوںتھیلیسیمیا مائنر (Thalassemia Minor) ہوں تو ہر دفعہ دورانِ حمل پچیس فی صد یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اولادتھیلیسیمیا میجر کی مریض پیدا ہوگی۔ تھیلیسیمیامائنر کوئی بیماری نہیں، لیکن تھیلیسیمیامیجر بیماری ہے۔ جس میں مریض کو ہر ماہ انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ جسم میں فولاد کم کرنے کے لیے دوائیں بھی لینی پڑتی ہیں۔

تھیلیسیمیامیجر سے بچنے کا واحد حل ایک خون کا ٹیسٹ ہے جس کو Hemoglobin Electrophoresis کہتے ہیں۔ اگر ہر شخص شادی سے قبل یہ ٹیسٹ کروالے اور کسیتھیلیسیمیامائنر سے شادی نہ کرے تو یہ بیماری آگے نہیں بڑھے گی۔

تھیلیسیمیا کے مریض اسی وقت نارمل زندگی گزارسکتے ہیں جب اگر انھیں وقت پر محفوظ خون دست یاب ہو، وقت پر دوائیں ملیں اور ان کی اچھی دیکھ بھال بھی کی جائے۔


تھیلیسیمیا کے مریض بھی دیگر صحت مند افراد کی طرح تعلیم حاصل کرتے ہیں، ملازمت کرتے ہیں، شادی کرتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے افراد موجود ہیں۔

تھیلیسیمیا کے مریض اگر چاہیں تو ایک صحت مند انسان سے شادی کرسکتے ہیں اور ان کی اولاد بھی صحت مند ہوسکتی ہے۔ بس شریک حیات کا ایک ٹیسٹ ہونا لازمی ہے جس کا پہلے ذکر کیا ہے۔

www.thalassemia.com.pk تھیلیسیمیا کے متعلق پاکستان کی واحد ویب سائٹ ہے جو آج سے پندرہ برس قبل سلمان بھائی نے تشکیل دی تھی۔ اس ویب سائٹ پر تمام معلومات دست یاب ہیں جہاں سے لوگ ہم سے رابطہ کرکے ہماری مدد لے سکتے ہیں۔ بھائی کے انتقال کے بعد میں نے اس کو آگے بڑھایا ہے۔

ہم 2009 سے پاکستان بھر کے ضرورت مند مریضوں کی اپنے خاندان، احباب اور سوشل میڈیا کی مدد سے مدد کررہے ہیں۔ ان کو بلا تعطل ادویات مہیا کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم نے اپنا ٹرسٹ بھی رجسٹرڈ کرلیا ہے جو پاکستان کی واحدتھیلیسیمیاکے مریضوں اور ان کے والدین کی سوسائٹی ہے جہاں پاکستان بھر کیتھیلیسیمیا کے مریض بچے اور ان کے والدین ہمارے ممبرز ہیں جہاں وہ اپنے مسائل بتاتے ہیں اور انھیں راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم بلڈ کیمپ لگاتے اور عوام کو آگاہی دینے کے لیے Awareness Sessions بھی کرواتے ہیں۔ پچھلے دنوں بھی ہم نے ایک قابل ڈاکٹر کے ساتھ مریضوں کا ایک سیشن کیا تھا جسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سراہا گیا۔

تھیلیسیمیامریضوں کو بہتر زندگی گزارنے کی راہ نمائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں آئرن (فولاد) کم کرنے کی ادویات Injection Desferal بھی مہیا کرتی ہوں جو مجھے کمپنی رعایتی داموں پر دیتی ہے۔ یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ یہ ایک انجکشن 280 روپے کا آتاہے اور ایک مریض کو روزانہ جسمانی وزن کے لحاظ سے چار انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت منہگا علاج ہے جو بیش تر افراد کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے۔ وہ ضرورت مند مریض جو مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، ان کو میں یہ ادویات بفضلِ خدا مہیا کررہی ہوں۔

میں ایک آئرن چیلاشن سینٹر (Iron Chelation Center) قائم کرنا چاہتی ہوں، جہاں مریض آکے آئرن چیلاشن کریں، یعنی فولاد کم کرنے کی ادویات کا علاج، مسلسل خون لگنے سے مریض کے جسم میں فولاد بڑھتا جاتا ہے۔ ایک نارمل انسان کے جسم میں فولاد کی مقدار ایک 150 سے 300 کے درمیان ہونی چاہیے۔ ہم مریضوں میں انتقال خون کی وجہ سے 4000 سے 5000 ہوجاتی ہے جس کو کم کرنے کے لیے انجکشن لگوانے پڑتے ہیں یا ادویات کھانی پڑتی ہیں۔ کم نہ کیا جائے تو ہمارے اعضا متاثر ہونے لگتے ہیں۔ ذیابیطس ہوجاتی ہے، نشوونما رک جاتی ہے، دل پر اثر ہوتا ہے اور مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا میں ایک آئرن چیلاشن سینٹر بنانا چاہتی ہوں جہاں علاج کے ساتھ وہ کچھ ہنر سیکھیں، تعلیم سے بے بہرہ افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتی ہوں، انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہوں۔

وطن عزیز اسی وقت تھیلیسیمیا سے پاک ہوسکتا ہے جب ہر فرد اپنا تتھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروالے اور اگر وہ تھیلیسیمیا مائنر ہے تو وہ دوسرے تھیلیسیمیا مائنر سے شادی نہ کرے۔ عوام کو چاہیے کہ یہ ٹیسٹ لازمی کروائیں۔ اگر آپ خون کا عطیہ دے سکتے ہیں تو لازمی کسی تھیلیسیمیا کے مریض کو خون کا عطیہ دیں، اگر آپ معاشی لحاظ سے خوشحال ہیں تو کسیتھیلیسیمیا کے مریض کے علاج کی ذمے داری اٹھالیں۔

اگر آپ کوئی ہنر جانتے ہیں تو وہ کسی تھیلیسیمیاکے مریض کو سکھادیں اور سب سے اہم اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے میرا یہ پیغام ہے کہ زندگی بار بار نہیں ملتی، اپنا ہیمو گلوبن توازن میں رکھیں۔ فولاد کم سے کم رکھیں۔ تعلیم حاصل کریں، کوئی ہنر سیکھیں، خود بھی معاشی لحاظ سے مستحکم ہوں اور ساتھ ہی ساتھ کسی ضرورت مند مریض کی بھی مدد کریں۔
Load Next Story