توانائی کا بحران ٹھوس اقدامات کی ضرورت

ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔بدقسمتی سے اس بحران کو ہمارے ارباب اختیار اور توانائی کے مشیروں اور وزیروں۔۔۔


Editorial May 29, 2013
پہلے ایٹمی دھماکے کیے، اب آیندہ پانچ سالوں میں معاشی دھماکا کریں گے، نوازشریف فوٹو: فائل

ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔بدقسمتی سے اس بحران کو ہمارے ارباب اختیار اور توانائی کے مشیروں اور وزیروں کی اجتماعی ناکامی کا شاخسانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ یا ملک دشمن قوتیں ملوث نہیں ہیں جب کہ اکیسویں صدی میں جسے سائنس و ٹیکنالوجی کا دور کہتے ہیں پاکستان کا ایٹمی ملک ہوتے ہوئے بجلی جیسی نعمت سے محرومی ایک بڑا المیہ ہے ۔

عوام کو مہیاکی جانے والی یہ وہ بنیادی ضرورت ہے کہ جس کے مستقل اور شفاف و باقاعدہ نظام کے بغیرکوئی بھی حکومت ملکی ترقی ، تجارتی و کاروباری پھیلاؤ ، صنعتی استحکام اور غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ بجلی کی فراہمی کا مستقل نظام قومی معیشت کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے اس ضرورت کا ادراک آج نئی حکومت کے لیے صبر آزما اور اعصاب شکن چیلنج بن کر سامنے آگیا ہے، چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے صدرونامزد وزیراعظم میاں نوازشریف نے اس حوالہ سے جو معروضات پیش کی ہیں ان پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ پہلے ایٹمی دھماکے کیے، اب آیندہ پانچ سالوں میں معاشی دھماکا کریں گے، بحران دیکھ کر نیند اڑگئی، یہ توقع نہ کریں کہ آج حکومت آئی کل بجلی آ جائے گی، اس کے لیے صبرکا مظاہرہ کرنا ہوگا، حالات کٹھن ضرور ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اﷲ تبدیلی آئیگی ۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں پاکستان کے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کے تاریخ ساز دن '' یوم تکبیر'' کے موقعے پر منعقدہ تقریب سے اپنے خطاب میں کیا۔

یہ خوش آیند اتفاق ہے کہ چین کے ایگزم بینک نے 969میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے نیلم جہلم پاورپروجیکٹ کے لیے 448 ملین ڈالر مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پیر کو ایگزم بینک اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدے پردستخط کیے گئے۔ یہ معاہدہ زیرتعمیر نیلم جہلم پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے مالی انتظامات کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔یہ پروجیکٹ آزاد کشمیر میں دریائے نیلم پر تعمیر کیاجا رہا ہے۔ واپڈا شیڈول کے مطابق سال2016 میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے تمام ممکنہ اقدامات عمل میں لارہا ہے۔

پروجیکٹ کی تمام سائٹس پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ 67کلومیٹر میں سے 34کلومیٹر طویل سرنگوں کی کھدائی مکمل ہوچکی ہے۔ زیر زمین پاور ہاؤس کی کھدائی 75فیصد اور زیر زمین ٹرانسفارمرز ہال کی کھدائی 96فیصد مکمل ہوچکی ہے۔ منصوبے کا ڈی سینڈر 95فیصد اوردریائے نیلم پر نوسیری پل 100 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔تاہم لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی عدم دستیابی پر عدلیہ کا اضطراب بھی دیدنی ہے۔سپریم کورٹ نے نندی پور پاور پروجیکٹ کے لیے وقت پرمشینری منتقل نہ کرنے کے بارے میں متعلقہ اداروں سے وضاحت طلب کر لی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے وقت پر پلانٹ نہ لگانے کے باعث پاور پلانٹ کی لاگت 23 ارب سے بڑھ کر57 ارب روپے ہوگئی، 4 سال سے فائل دبا کر رکھی گئی، مشینری کئی سال سے کراچی بندرگاہ پر پڑی ہے ۔جسٹس اعجاز چوہدری نے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ سے کہا کہ لوگ لوڈ شیڈنگ سے مر رہے ہیں اور سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری پانی و بجلی آپس میں میٹنگ تک نہیں کرتے، آپ جیسے لوگوں کو تو جیل بھیج دینا چاہیے ۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال نے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ اور وی وی آئی پی شخصیات کو استثنیٰ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ ڈسٹری بیوشن سسٹم واپڈا کے پاس تھا تو بہتری تھی۔ اِس وقت نقصان ایک ہزار ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے، جب واپڈا تھا تو بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بن رہے تھے، ایماندار آفیسر تعینات ہوتے تھے اور ایسی لوڈشیڈنگ کبھی نہ تھی، اگر چند بجلی چوروں کے خلاف اقدامات کیے تو معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔

ایوان صنعت و تجارت لاہور نے وزارت خزانہ اور ایف بی آر کو اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ آیندہ وفاقی بجٹ برائے 2013-2014 میں صوبوں کو اپنی بجلی خود پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کی اجازت دی جائے ۔توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں ، صنعتوں کو بلاتعطل بجلی اور گیس فراہم کی جائے ۔ایل این جی درآمد کی جائے ۔بھارت اور ایران سے فوری بجلی خریدی جائے ۔ دریں اثنا سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل بھی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کرنے کی ہدایات جاری کرچکی ہے جب کہ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل حکام نے یقین دہانی کروائی کہ منصوبہ مقررہ وقت دسمبر2013تک مکمل کر لیا جائے گا۔

ادھر پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمدخان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے یہاں سبسڈی کی مد میں اربوں روپے تو دیے جاتے ہیں لیکن بجلی کے نرخوں میں کمی نہیں کی جاتی ، سابقہ حکومت نے بھاشا ڈیم کے افتتاح پر کئی ملین روپے خرچ کردیے لیکن وہاںکنکر برابر بھی کام شروع نہیں کیا گیا ،14چھوٹے پراجیکٹس میں سے اگرتین پر بھی کام مکمل ہوجاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے ۔ایک طرف عدلیہ لوڈ شیڈنگ پر عوام کو در پیش مصائب پر بے قراری اور برہمی کا اظہار کررہی ہے تو دوسری جانب نیپرا نے اس ساری صورتحال سے لا تعلق رہتے ہوئے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 75 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ اپریل کے لیے کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق کے ای ایس سی کے سوا بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں پر ہوگا۔

نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں اضافہ منگل کو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔ کیا ملک کو توانائی کا درپیش بحران اس قسم کے فیصلوں سے حل ہوسکتا ہے ۔ارباب اختیار دیکھ رہے ہیں کہ ملک بھر میں طویل لوڈشیڈنگ اوراس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے ،لاہور میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے پرآ گیا البتہ پنجاب کے دوسرے شہروں فیصل آباد، ملتان، ساہیوال، بہاولپور، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، ڈیرہ غازیخان، رحیم یارخان اورقصبات میں لوڈشیڈنگ کادورانیہ 15گھنٹے سے زائد ریکارڈ کیا گیا ، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اورکئی علاقوںمیں پانی کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی۔

بلوچستان میں چوبیس گھنٹوں میں صرف دوگھنٹے بجلی کی فراہمی سے لوگوں کا جینا محال ہوگیا، ادھر کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ کے بعد اب اضافی لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ۔ یہ صورتحال برس ہا برس کی ان عاقبت نا اندیش پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے جس میں توانائی کے بنیادی اور اہم مسئلہ پر شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپا کر حکمرانی کی جاتی رہی۔ایسا تو پھر ہونا تھا۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف کا یہ اعتراف کہ بجلی بحران نے نیند اڑا دی ہے حقیقت پسندی کا کھلا پیغام ہے۔اس لیے حکومت بجلی کی پیداواری استعداد اور تقسیم کے نیٹ ورک کو ایک جامع ماسٹر پلان کے تحت مستحکم کرے۔یہی واحد راستہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں