نیا پاکستان ۔۔۔۔ کہاں ہے
ایک محاورہ ہے۔۔۔۔’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘۔ اونٹ ہی سے متعلق ایک اور محاورہ بھی ہے ۔۔۔۔
ایک محاورہ ہے۔۔۔۔''اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی''۔ اونٹ ہی سے متعلق ایک اور محاورہ بھی ہے ۔۔۔۔ ''دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے''۔۔۔۔۔ یہ دونوں محاورے پاکستان کی سیاست پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر اونٹ کی جگہ سیاست کردیا جائے تو پورا سیاسی منظرنامہ 65 سال کا مکمل طور پر سامنے آجاتا ہے۔ کل تک جن کے لیے گو۔۔۔گو۔۔۔گو۔۔۔ کے نعرے لگتے تھے۔ آج انھیں پھول پیش کیے جارہے ہیں ۔۔۔!!۔۔۔ جو کل تک لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی باتیں کرتے تھے وہ آج چپ سادھے لیٹے ہیں اور شکر کر رہے ہیں کہ ''اگلی باری'' کے لیے ان کی ٹریننگ ہونے والی ہے۔ اس موقعے پر مجھے ایک کہاوت یاد آرہی ہے کہ ''بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی''۔ یعنی جو مل گیا وہی غنیمت ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ''قناعت اور اطاعت'' نہ کرنے والوں کو وہ کہاوت یاد کرنے پڑے کہ ''آدھی کو چھوڑ کے پوری کو دوڑے، آدھی رہی نہ پوری۔''
بچوں کے ایک رسالے میں کبھی ایک کہانی پڑھی تھی جو آج کل مجھے بہت یاد آرہی ہے۔کہانی تو بہت طویل اور دلچسپ ہے لیکن میں اس کا ایک قصہ قارئین کو ضرور بتانا چاہوں گی۔ وہ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ ملک کا بادشاہ کیوں نہیں بن سکتا جب کہ وہ ایماندار بھی ہے اور فرض شناس بھی، اکثر وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا کہ کیسے کیسے برے بادشاہوں سے لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن اچھے اور دیانت دار لوگوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
ایک دن وہ اپنے باغ میں اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہی رونا رویا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ایک شخص آن کر کھڑا ہوگیا وہ اسے دیکھ کر ڈر گیا اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ اس شخص نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ گھبرائے نہیں۔ اور وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ پھر وہ اس شخص کے پاس آکر بیٹھا اور بولا ''میرا نام صمام جادوگر ہے، میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ تمہیں باتیں کرتے دیکھ کر رک گیا۔۔۔۔تمہاری باتوں سے لگا کہ تم بادشاہ بننا چاہتے ہو'' وہ شخص جس کا نام عابد تھا کہنے لگا کہ ہاں۔۔۔۔میں اپنے ربّ سے شکوہ کر رہا تھا کہ آخر مجھ میں کیا کمی ہے جو میں بادشاہ نہیں بن سکتا۔''
جادوگر بولا ''میاں عابد تم پرہیز گار ہو، نیک ہو، ہمدرد ہو، لیکن تم دولت مند نہیں ہو، بادشاہی دولت مندوں کو نصیب ہوتی ہے، لیکن میں تمہیں بادشاہ بناسکتا ہوں، بس تمہیں وہی کرنا ہوگا جو میں تم سے کہوں گا، اگر میں کہوں کہ دن ہے تو تمہیں میری ہاں میں ہاں ملانی ہوگی اور اگر دن کو رات کہوں تو بھی تم میری پیروی کروگے''۔ عابد خوش ہوکر جادوگر کے قدموں میں گر پڑا اور بولا ''مائی باپ! جو آپ کا حکم، اگر آپ چاند کو سیاہ بادل کہیں گے تو بھی میں آپ ہی کی بات کو صحیح ثابت کروں گا اور اگر اماوس کو چودھویں کی روشن رات کہیں گے تب بھی آپ ہی صحیح ہوں گے، بس مجھے بادشاہ بنادیں پھر دیکھیں میں اس ملک کے لوگوں کی کیسی خدمت کرتا ہوں، اس ملک میں کوئی فقیر نہیں ملے گا، آٹا سستا ہوگا، لالٹین میں ڈالنے کا تیل اور چراغ لوگوں کو مفت ملیں گے، آس پاس کے بادشاہوں سے دوستی کروں گا اور ایک اچھا ہمسایہ بن کے دکھاؤں گا۔ چور اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کردوں گا۔کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوگی۔ بھتہ کوئی نہیں لے گا۔''
جادوگر نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا میری ایک بات غور سے سن لو۔ اگر کبھی تم نے میری حکم عدولی کی اور میری مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تو یاد رکھنا ایک ہنٹر تمہاری کمر پر پڑے گا۔ لیکن وہ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ تمہیں اس کی دکھن محسوس ہوگی، وہیں سمجھ جانا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔'' عابد نے جادوگر سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی ہر بات مانے گا اور اسے کبھی شکایت کا موقعہ نہ دے گا۔۔۔۔بس چند دن بعد عابد ملک کا بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی ملتے ہی اس نے سوچا کہ میں کچھ ایسے کام کرجاؤں جو رعایا کے لیے مفید ہوں۔ لہٰذا سب سے پہلے اس نے تمام ہمسایہ ملکوں کے بادشاہوں کو امن اور دوستی کا پیغام بھیجا تاکہ جوکثیر رقم شاہی خزانے کی اسلحے پر اور عسکری قوت کو بڑھانے پر خرچ ہورہی ہے۔
وہ دیگر مفید کاموں میں خرچ ہو۔ عابد نے ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے مدرسے اور اسپتال قائم کرنے کا سوچا اور اس کا اعلان بھی کردیا۔ رعایا، خوش ہوگئی کہ چور اچکوں سے نجات مل گئی اب نیا بادشاہ شاہی خزانہ لوٹنے کے بجائے عوام پر اسے خرچ کرے گا۔ عوام نے ہمسایہ ملکوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پالیسی کو بھی پسند کیا اور خوب جشن منایا۔ لیکن جوں ہی عابد یہ اعلان کرکے اپنے محل میں واپس آیا اس کی کمر پر جادوگر کا ہنٹر زور سے پڑا۔
وہ حیران ہوکر کہنے لگا کہ میں نے تو کوئی غلط کام نہیں کیا پھر کوڑا کیوں مارا گیا؟ جادوگر نے سامنے آکر کہا کہ تمہیں ہماری مرضی کے بغیر ہمسایہ ملکوں سے دوستی کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسلحہ سازی بند ہوگی نہ ہی عسکری قوت میں کمی ہوگی، ورنہ تم بادشاہ نہ رہوگے، کہانی تو بہت لمبی ہے لیکن ہمارے کام کی نہیں، بس یوں ہوا کہ بار بار کے کوڑوں سے وہ گھبرا گیا اور پھر اس نے بھی وہی کرنا شروع کردیا جو اس سے پہلے والا بادشاہ کرتا تھا۔ یعنی خوب خزانہ خالی کیا، اپنے رشتے داروں کو نوازا۔۔۔۔سب کام چھوڑ کر ہر وقت عیش و عشرت کی محفلیں سجاتا۔ پانی کی جگہ شراب انڈیلتا اور جادوگر کا دیا ہوا ہر کام درباریوں سے پورا کروا دیتا۔ اس نے پوری طرح جادوگر صمصام کی غلامی اور اطاعت قبول کرلی تاکہ سکھ چین سے بادشاہت کے مزے لوٹے۔
پتہ نہیں کیوں یہ کہانی آج مجھے یکایک یاد آگئی۔ بالکل اسی طرح جیسے علی بابا اور چالیس چوروں کی کہانی بار بار یاد آتی ہے۔ پنڈورا باکس کی کہانی یاد آتی ہے اور الٰہ دین اور اس کے جادوئی چراغ کی کہانی یاد آتی ہے اور ایک تمنا ابھرتی ہے کہ کاش قدیم داستانوں کی طرح کوئی الٰہ دین اپنے جادوئی چراغ کے ساتھ نمودار ہو اور پاکستان کی کایا پلٹ دے اور ایک نیا پاکستان ہمیں دے جائے۔ مگر یہ خواہشیں بڑی ظالم ہوتی ہیں، ایک نیا پاکستان۔۔۔۔؟؟ سنا ہے کہ ایک نیا پاکستان 11 مئی کو وجود میں آچکا ہے۔ ہم نے تو بہت ڈھونڈا، ہر طرف نظر دوڑائی لیکن ہمیں تو کچھ بھی نیا نظر نہیں آیا۔۔۔۔البتہ شیروانیاں اور سفاری سوٹ نئے سل رہے ہیں۔
ہمارے اینکر پرسن، بڑے بڑے کالم نگار اور تجزیہ نگاروں کو ہر طرف نیا پاکستان نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے انھوں نے کوئی مخصوص عینک لگا رکھی ہو جس سے ہر شے نئی لگتی ہو۔ ورنہ یہ نیا پن تو بالکل ویسا ہی ہے جیسے خریداروں کو بے وقوف بنانے کے لیے پرانی چیزوں کو نئی پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے چائے کی پتی تو وہی پرانی لیکن پیکنگ نئی۔ بسکٹ وہی بدمزہ اور باسی لیکن پیکنگ نئی۔۔۔!!۔۔۔۔وہ بدمزہ آئس کریم جسے لوگ پہلے ہی ریجیکٹ کرچکے ہیں۔ نئے نام اور نئی پیکنگ کے ساتھ پھر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیی پیش کی جارہی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔کہ بار بار ہم لوگ مسترد کی ہوئی چیزوں کو نئی پیکنگ میں کیوں قبول کرلیتے ہیں۔۔۔؟ صرف جہالت، کم علمی اور نعروں کی وجہ سے۔۔۔۔بس یہی کچھ نئے پاکستان میں نظر آرہا ہے۔ البتہ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اپنے عالم فاضل مدبر اور دانش ور اینکرپرسن سے کہوں کہ ہمیں بھی وہ عینک اور وہ نظریے لادیجیے جس سے ہر شے ساون کا موسم نہ ہونے کے باوجود ہری ہری نظر آتی ہے۔ پہلے جو جمہوریت انھیں دکھائی دیتی تھی وہ بے چارے عوام کو کہیں بھی گھاس چرتی نظر نہیں آتی تھی البتہ بعض تجزیہ نگاروں اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کونئے پاکستان میں کسی مدرسے میں جھوم جھوم کر سبق پڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ نیلے رنگ کے برقعے بھی نظر آرہے ہیں۔ اور یہی نیا پاکستان ہے!!!
بچوں کے ایک رسالے میں کبھی ایک کہانی پڑھی تھی جو آج کل مجھے بہت یاد آرہی ہے۔کہانی تو بہت طویل اور دلچسپ ہے لیکن میں اس کا ایک قصہ قارئین کو ضرور بتانا چاہوں گی۔ وہ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ ملک کا بادشاہ کیوں نہیں بن سکتا جب کہ وہ ایماندار بھی ہے اور فرض شناس بھی، اکثر وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا کہ کیسے کیسے برے بادشاہوں سے لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن اچھے اور دیانت دار لوگوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
ایک دن وہ اپنے باغ میں اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہی رونا رویا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ایک شخص آن کر کھڑا ہوگیا وہ اسے دیکھ کر ڈر گیا اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ اس شخص نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ گھبرائے نہیں۔ اور وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ پھر وہ اس شخص کے پاس آکر بیٹھا اور بولا ''میرا نام صمام جادوگر ہے، میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ تمہیں باتیں کرتے دیکھ کر رک گیا۔۔۔۔تمہاری باتوں سے لگا کہ تم بادشاہ بننا چاہتے ہو'' وہ شخص جس کا نام عابد تھا کہنے لگا کہ ہاں۔۔۔۔میں اپنے ربّ سے شکوہ کر رہا تھا کہ آخر مجھ میں کیا کمی ہے جو میں بادشاہ نہیں بن سکتا۔''
جادوگر بولا ''میاں عابد تم پرہیز گار ہو، نیک ہو، ہمدرد ہو، لیکن تم دولت مند نہیں ہو، بادشاہی دولت مندوں کو نصیب ہوتی ہے، لیکن میں تمہیں بادشاہ بناسکتا ہوں، بس تمہیں وہی کرنا ہوگا جو میں تم سے کہوں گا، اگر میں کہوں کہ دن ہے تو تمہیں میری ہاں میں ہاں ملانی ہوگی اور اگر دن کو رات کہوں تو بھی تم میری پیروی کروگے''۔ عابد خوش ہوکر جادوگر کے قدموں میں گر پڑا اور بولا ''مائی باپ! جو آپ کا حکم، اگر آپ چاند کو سیاہ بادل کہیں گے تو بھی میں آپ ہی کی بات کو صحیح ثابت کروں گا اور اگر اماوس کو چودھویں کی روشن رات کہیں گے تب بھی آپ ہی صحیح ہوں گے، بس مجھے بادشاہ بنادیں پھر دیکھیں میں اس ملک کے لوگوں کی کیسی خدمت کرتا ہوں، اس ملک میں کوئی فقیر نہیں ملے گا، آٹا سستا ہوگا، لالٹین میں ڈالنے کا تیل اور چراغ لوگوں کو مفت ملیں گے، آس پاس کے بادشاہوں سے دوستی کروں گا اور ایک اچھا ہمسایہ بن کے دکھاؤں گا۔ چور اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کردوں گا۔کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوگی۔ بھتہ کوئی نہیں لے گا۔''
جادوگر نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا میری ایک بات غور سے سن لو۔ اگر کبھی تم نے میری حکم عدولی کی اور میری مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تو یاد رکھنا ایک ہنٹر تمہاری کمر پر پڑے گا۔ لیکن وہ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ تمہیں اس کی دکھن محسوس ہوگی، وہیں سمجھ جانا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔'' عابد نے جادوگر سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی ہر بات مانے گا اور اسے کبھی شکایت کا موقعہ نہ دے گا۔۔۔۔بس چند دن بعد عابد ملک کا بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی ملتے ہی اس نے سوچا کہ میں کچھ ایسے کام کرجاؤں جو رعایا کے لیے مفید ہوں۔ لہٰذا سب سے پہلے اس نے تمام ہمسایہ ملکوں کے بادشاہوں کو امن اور دوستی کا پیغام بھیجا تاکہ جوکثیر رقم شاہی خزانے کی اسلحے پر اور عسکری قوت کو بڑھانے پر خرچ ہورہی ہے۔
وہ دیگر مفید کاموں میں خرچ ہو۔ عابد نے ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے مدرسے اور اسپتال قائم کرنے کا سوچا اور اس کا اعلان بھی کردیا۔ رعایا، خوش ہوگئی کہ چور اچکوں سے نجات مل گئی اب نیا بادشاہ شاہی خزانہ لوٹنے کے بجائے عوام پر اسے خرچ کرے گا۔ عوام نے ہمسایہ ملکوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پالیسی کو بھی پسند کیا اور خوب جشن منایا۔ لیکن جوں ہی عابد یہ اعلان کرکے اپنے محل میں واپس آیا اس کی کمر پر جادوگر کا ہنٹر زور سے پڑا۔
وہ حیران ہوکر کہنے لگا کہ میں نے تو کوئی غلط کام نہیں کیا پھر کوڑا کیوں مارا گیا؟ جادوگر نے سامنے آکر کہا کہ تمہیں ہماری مرضی کے بغیر ہمسایہ ملکوں سے دوستی کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسلحہ سازی بند ہوگی نہ ہی عسکری قوت میں کمی ہوگی، ورنہ تم بادشاہ نہ رہوگے، کہانی تو بہت لمبی ہے لیکن ہمارے کام کی نہیں، بس یوں ہوا کہ بار بار کے کوڑوں سے وہ گھبرا گیا اور پھر اس نے بھی وہی کرنا شروع کردیا جو اس سے پہلے والا بادشاہ کرتا تھا۔ یعنی خوب خزانہ خالی کیا، اپنے رشتے داروں کو نوازا۔۔۔۔سب کام چھوڑ کر ہر وقت عیش و عشرت کی محفلیں سجاتا۔ پانی کی جگہ شراب انڈیلتا اور جادوگر کا دیا ہوا ہر کام درباریوں سے پورا کروا دیتا۔ اس نے پوری طرح جادوگر صمصام کی غلامی اور اطاعت قبول کرلی تاکہ سکھ چین سے بادشاہت کے مزے لوٹے۔
پتہ نہیں کیوں یہ کہانی آج مجھے یکایک یاد آگئی۔ بالکل اسی طرح جیسے علی بابا اور چالیس چوروں کی کہانی بار بار یاد آتی ہے۔ پنڈورا باکس کی کہانی یاد آتی ہے اور الٰہ دین اور اس کے جادوئی چراغ کی کہانی یاد آتی ہے اور ایک تمنا ابھرتی ہے کہ کاش قدیم داستانوں کی طرح کوئی الٰہ دین اپنے جادوئی چراغ کے ساتھ نمودار ہو اور پاکستان کی کایا پلٹ دے اور ایک نیا پاکستان ہمیں دے جائے۔ مگر یہ خواہشیں بڑی ظالم ہوتی ہیں، ایک نیا پاکستان۔۔۔۔؟؟ سنا ہے کہ ایک نیا پاکستان 11 مئی کو وجود میں آچکا ہے۔ ہم نے تو بہت ڈھونڈا، ہر طرف نظر دوڑائی لیکن ہمیں تو کچھ بھی نیا نظر نہیں آیا۔۔۔۔البتہ شیروانیاں اور سفاری سوٹ نئے سل رہے ہیں۔
ہمارے اینکر پرسن، بڑے بڑے کالم نگار اور تجزیہ نگاروں کو ہر طرف نیا پاکستان نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے انھوں نے کوئی مخصوص عینک لگا رکھی ہو جس سے ہر شے نئی لگتی ہو۔ ورنہ یہ نیا پن تو بالکل ویسا ہی ہے جیسے خریداروں کو بے وقوف بنانے کے لیے پرانی چیزوں کو نئی پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے چائے کی پتی تو وہی پرانی لیکن پیکنگ نئی۔ بسکٹ وہی بدمزہ اور باسی لیکن پیکنگ نئی۔۔۔!!۔۔۔۔وہ بدمزہ آئس کریم جسے لوگ پہلے ہی ریجیکٹ کرچکے ہیں۔ نئے نام اور نئی پیکنگ کے ساتھ پھر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیی پیش کی جارہی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔کہ بار بار ہم لوگ مسترد کی ہوئی چیزوں کو نئی پیکنگ میں کیوں قبول کرلیتے ہیں۔۔۔؟ صرف جہالت، کم علمی اور نعروں کی وجہ سے۔۔۔۔بس یہی کچھ نئے پاکستان میں نظر آرہا ہے۔ البتہ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اپنے عالم فاضل مدبر اور دانش ور اینکرپرسن سے کہوں کہ ہمیں بھی وہ عینک اور وہ نظریے لادیجیے جس سے ہر شے ساون کا موسم نہ ہونے کے باوجود ہری ہری نظر آتی ہے۔ پہلے جو جمہوریت انھیں دکھائی دیتی تھی وہ بے چارے عوام کو کہیں بھی گھاس چرتی نظر نہیں آتی تھی البتہ بعض تجزیہ نگاروں اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کونئے پاکستان میں کسی مدرسے میں جھوم جھوم کر سبق پڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ نیلے رنگ کے برقعے بھی نظر آرہے ہیں۔ اور یہی نیا پاکستان ہے!!!