پاک افغان صدور کی ملاقات اور خطے میں امن کا قیام

پاکستان کا امن و امان افغانستان کے امن سے وابستہ ہے تاہم اس...


Editorial August 15, 2012
مکۃ المکرمہ میں اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس کے موقع پرصدر آصف علی زرداری نے اپنے افغان ہم منصب کو یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے مکمل حمایت کرے گا۔ فوٹو: ایکسپریس/ فائل

لاہور: مکۃ المکرمہ میں منعقد ہونے والے اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس کے موقع پر صدر آصف علی زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی کی الگ سے باہمی ملاقات ہوئی جس میں دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات' خطے کی عمومی صورتحال اور افغانستان میں امن و امان سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر آصف زرداری نے اپنے افغان ہم منصب کو یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے مکمل حمایت کرے گا اور اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ خود پاکستان کا امن و امان افغانستان کے امن سے وابستہ ہے تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

جب مکہ مکرمہ میں پاک افغان سربراہاں مملکت کی ملاقات ہو رہی تھی اور امن و استحکام پر زور دیا جا رہا تھا عین اسی روز پاکستان اور افغانستان کی فورسز میں فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ یہ جھڑپ پاک افغان سرحد پر ہوئی جس کے بارے میں افغان حکام نے الزام عاید کیا ہے کہ پاک فوج کی گولہ باری سے افغان اہلکار کی ہلاکت ہوئی اور متعدد زخمی ہوئے۔ افغان بارڈر پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق پاک فوج کی طرف سے گولہ باری صبح چار بجے شروع کی گئی جو گھنٹہ بھر جاری رہی تاہم ایک غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق گولہ باری دونوں طرف سے ہوئی۔

بی بی سی نے مقامی قبائلیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں طرف سے گولہ باری میں روایتی اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ کنڑ صوبے کے گورنر نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں پاکستان کی طرف سے افغانستان کے پانچ اضلاع پر تین ہزار سے زائد حملے کیے گئے جن میں بہت ساری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

فرانسسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ صوبہ کنڑ میں افغان بارڈر پولیس اور پاکستان سیکیورٹی فورسز کے درمیان بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ پاکستان کی طرف سے اس الزام پر کوئی فوری ردعمل جاری نہیں کیا گیا تاہم اسلام آباد ماضی میں ایسے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر چکا ہے کہ پاکستانی فورسز کی طرف سے سرحد پار سے حملہ کرنے والے جنگجوئوں کو جواب دیا جاتا ہے۔ دریں اثناء امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں اور اب پاکستان قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کرنے والا ہے۔

واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران پنیٹا نے کہا کہ پاک آرمی چیف جنرل کیانی نے افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان ایلن کے ساتھ حالیہ رابطوں میں مجوزہ فوجی آپریشن پر بات چیت کی ہے جو جلد ہی شروع کر دیا جائے گا اور اس آپریشن کا ہدف حقانی نیٹ ورک کے بجائے پاکستانی طالبان ہوں گے جس کا ہم امریکا کی طرف سے خیرمقدم کرتے ہیں پاکستان دہشت گردی کے خلاف بھی موثر اقدامات کر رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل پاکستانی عسکری قیادت کی طرف سے یہ بیان نمایاں طور پر شایع ہو چکا ہے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میں صرف اس صورت آپریشن شروع کرے گا اگر امریکی فوج کی طرف سے افغان سرحد کی مکمل طور پر بندش کی یقین دہانی کرائی جا سکے کیونکہ آپریشن کی صورت میں اگر جنگجو عناصر فرار ہو کر افغانستان چلے جائیں تو اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا۔

اب لیون پنیٹا نے اپنے بیان میں پاکستان کی طرف سے جنگجوئوں کے خلاف کارروائی کی جو یقین دہانی کرائی ہے تو کیا امریکا نے سرحد کی بندش کے انتظامات پورے کر لیے ہیں؟ اپنے تازہ بیان میں مسٹر پنیٹا نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں