ایک گھر کی کہانی
اسے وقت پر حیرت تھی جس کی کمی کا رونا سب روتے تھے، لیکن اس کے لیے وقت جامد تھا...
ISLAMABAD:
اسے وقت پر حیرت تھی جس کی کمی کا رونا سب روتے تھے، لیکن اس کے لیے وقت جامد تھا، گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، لہٰذا وہ ٹی وی کے چینلز بدلنے لگتی، سارے ڈرامے ایک سے تھے، وہی سازشوں کے جال میں لپٹی کہانیاں وہی نفرتوں سے بھرے ہوئے کردار تھے، کامیڈی پروگرام دیکھ کر اسے ہنسی کے بجائے رونا آتا!
بچے اپنی دنیائوں میں مگن تھے، موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے، میاں بھی آفس کے جھنجھٹوں میں الجھے رہتے، کبھی اس کی بات سن بھی لیا کرتے تھے، کبھی بے دھیانی میں سر ہلا دیتے یا ذرا سا مسکرا دیتے تو اس کے ٹوٹے ہوئے حوصلے کو سہارا مل جاتا تھا، وہ تو اب شاذ و نادر ہی مسکراتے جیسے مسکراہٹ پر بھی کوئی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہو۔
پڑوس کے لوگ بھی بہت بدل گئے تھے، ایک دوسرے سے کوئی میل جول نہ تھا۔ پڑوسی نے پرانا گھر منہدم کر کے نیا گھر بنا لیا تھا۔ پھر یکایک محلے میں پرانے گھروں کے اوپر نئے گھر بننے لگے اور جب نئے گھر بن گئے تو لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے، چھوٹے گھر تھے مگر دل کھلے تھے، بڑے گھروں نے دلوں سے کشادگی کا احساس چھین لیا تھا۔ پڑوسی مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی رکھتے تھے۔ کوئی پی ٹی آئی کا مداح تھا تو کسی نے مسلم لیگ ن کے گن گانے ہوتے تھے۔ کچھ ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے شیدائی بھی محلے میں رہتے تھے، لوگ اسی بنا پر ایک دوسرے سے کھنچے رہتے، نظریاتی اختلافات نے انھیں ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ بچے تک ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہو جاتے اور ایک دوسرے کے سیاست دانوں کو خوب برا بھلا کہتے، بچوں کی باتیں بڑوں تک پہنچتیں تو ان کے اختلافات مزید بڑھ جاتے۔ وہ تنہائی کے جال میں الجھ کر بیمار رہنے لگی۔ ایک دن اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔
لان میں چڑیا پودوں کے پاس مری ہوئی تھی، وہ ایک دم باہر لپکی، شدید گرمی کا عالم تھا، پرندے پیاس کے مارے ہلکان تھے، ان کی چونچیں پانی کو ترس رہی تھیں اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے، اس نے باغ کی طرف دیکھا، تمام پودے و پھول مرجھا چکے تھے، درختوں کے چہرے دھول سے اٹے تھے۔ اسے باغ کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا، پھر وہ باغ کا دھیان رکھنے لگی، اس نے کیاریوں کو صاف کیا، پودوں کو تراشا، گملوں پر توجہ دی اور پورا باغ مہک اٹھا۔ اس نے جگہ جگہ پرندوں کے پینے کے لیے پانی کے برتن رکھ دیے، ھمنگ برڈ کا گھونسلا بھی باغ کے درخت پر تھا، پھولوں کے کھلتے رنگ دیکھ کر وہ بھی بچوں کے ساتھ پھولوں کا رس لینے نیچے اتر آتی، پھولوں پر شہد کی مکھیاں بھی بھنبھنانے لگیں، اب اسے لگتا کہ پودے، پھول، درخت اور پرندے اس سے بات کرنے لگے تھے، وہ ان سب سے تعلق کی ڈور میں بندھ گئی تھی۔
زمین کے قریب رہ کر اس نے جانا کہ فطرت کی زندگی میں توازن، ہم آہنگی، رابطہ، سمت اور سرشاری کا احساس متواتر ملتے ہیں، میاں بھی اکثر شام کی چائے لان میں پینے لگے، چائے پیتے اس سے باتیں کرنے لگتے، اسے محسوس ہوا کہ اب وہ قدرے مسکرانے بھی لگے ہیں! رفتہ رفتہ میاں کے چہرے کی تھکن آسودگی میں بدل گئی، اکثر صبح کو اٹھ کر باغ میں چہل قدمی بھی کرنے لگے، پھر ایک دن اس نے درختوں میں دو جھولے ڈال دیے، شام میں اکثر پڑوسیوں کے بچے جھولوں پر جھولنے آ جاتے، کبھی مائیں انھیں لینے آتیں تو ان کی بات چیت بھی ہو جاتی، کچھ دنوں میں اس نے محسوس کیا کہ بچے بھی باغ میں آنے لگے ہیں ان کے گھر میں ڈرائنگ روم ایک ایسی جگہ تھی جہاں سب مل کر کھانا کھاتے، پھر سب کی مصروفتیں اور اوقات بدل گئے، ایک دوسرے سے کم ملاقات ہونے لگی لیکن جب سے وہ باغ میں بیٹھنے لگے تو پرانے دن لوٹ آئے، بچے بڑے ہو گئے تھے، کوئی کالج جاتا تو کوئی یونیورسٹی میں پڑھنے لگاتھا۔
خاتون خانہ نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ فطرت کی دنیا انسانوں کی دنیا سے قدرے مختلف ہے، زمین مطلوبہ نتائج دیتی ہے، ایک ہاتھ سے وصول کرتی ہے دوسرے ہاتھ سے لوٹا دیتی ہے، اسے سب سے اچھی بات یہ لگی تھی کہ باغ میں اڑنے والی شہد کی مکھیوں نے آج تک اسے نہیں کاٹا تھا، وہ باغ میں کام کرتی اور شہد کی مکھیاں اس کے ارد گرد اڑتیں مگر سکون اور خاموشی کے ساتھ، وہ بھی محبت کی زبان سمجھتی ہیں شاید! وہ شہد کی مکھیوں کو حیرت سے دیکھتی، وہ باغ کا شہد پڑوس میں بھیجنے لگی، چند دنوں میں پڑوسنیں شکریہ ادا کرنے پہنچ گئیں، کوئی اس کے لیے اچار لے کر آئی تو کسی نے گھر کا بنا ہوا مربہ اسے تحفے کے طور پر دیا، اس نے رابطے کے حسن کو پہلی بار دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا فطرت نام ہی ربط وہم آہنگی کا ہے، ذرخیز زمین اور پانی دستیاب ہو مگر پودے کو دھوپ اور ہوا نہ ملے تو وہ مرجھا جائے گا۔
سبزے کو پنپنے، پھلنے پھولنے کے لیے صحیح رابطہ اور سمت چاہیے۔ بیلوں کو بھی چاند سے باتیں کرنے کے لیے آسمان کا رخ اور سہارا چاہیے۔ اس دن اسے احساس ہوا کہ وہ بھی کوئی بیل ہو، جسے زمین، دھوپ، ہوا اور پانی تو دستیاب تھے مگر صحیح سمت کا سہارا نہ مل سکا تھا، لیکن ایک باغ کے سکون نے اس کے ذہن کو بدل دیا۔ ایک چھوٹے باغ نے اسے فطرت کے قانون کے بارے میں معلومات دی تھی، اس نے انسانوں کی دنیا میں رابطوں کو ٹوٹتے دیکھا تھا، ذہنوں میں ہم آہنگی کا فقدان نظر آیا۔ اس لیے زندگی سے انسان وہ مطلوبہ نتیجہ نہیں حاصل کر سکتا ہے، لوگ صحیح سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ زمین فطری پن کے اصول ساتھ لے کر چلتی ہے وہ بناوٹ سے بے بہرہ ہے، زمین کی قربت انسان کو حقیقت پسند بنا دیتی ہے، یہ بھی نہیں ہوتا کہ بیج ببول کا بوئیں اور زمین سے نیم کی ٹھنڈی چھائوں کی تمنا کریں! جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔
اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ فطرت کی زندگی محنت وجد وجہد سے عبارت ہے، چیونٹیوں سے لے کر شہد کی مکھیوں تک، سورج کی تپش سے لے کر درختوں کے پھل پکنے تک، صبر و انتھک محنت درکار ہوتی ہے۔ اس طریقہ کار میں ہر چیز تندہی و یکسوئی سے اپنے رخ پر سفر کرتی ملے گی، اس نے فطری زندگی سے سکون، یکسوئی اور امن پسندی کے نتائج بھی اخذ کیے اور اسے ایسا لگا کہ وہ سبزہ اس کی روح میں اتر آیا ہو۔ اب اس کے ذہن میں غصہ ونفرت کی جگہ درختوں کی ہریالی نے لے لی تھی، درختوں سے اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ درخت دھوپ کی سختیاں جھیل کر ٹھنڈی چھائوں ومیٹھا پھل دیتے ہیں وہ زمین سے تحرک لے کر جیتا ہے، وہ اس وقت مضبوط درخت بنتا ہے جب اس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہو جاتی ہیں جو یقین و محبت اسے زمین کی گہرائی عطا کرتی ہے وہی اہل زمین کو لوٹا دیتا ہے، درخت کبھی ناراض نہیں ہوتے، نہ نفرت کرنا جانتے ہیں، آپ ان سے کیسا ہی سلوک کیوں نہ کریں، چاہے ان کی شاخیں کاٹ ڈالیں مگر بدلہ نہیں لیتے!
کاش! انسان بھی درختوں جیسے ہو جائیں تو زندگی کس قدر بدل جائے گی، اس نے یہ بات محسوس کی تھی کہ اس کے گھر کے چھوٹے سے باغ نے اسے محلے میں رہنے والے تمام لوگوں سے دوبارہ جوڑ دیا تھا۔ پودے، پرندے، شہد کی مکھیاں، ھمنگ برڈ، چڑیا، فاختہ، سب کے سب اس کے دوست بن گئے تھے، اس کی بیماریوں کی فہرست بھی دن بدن کم ہوتی چلی گئی، اس کا چڑچڑا پن کم ہوا تو گھر کے افراد بھی دوبارہ اس کی طرف چلے آئے، فطرت نے اسے برداشت اور عطا کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا۔
اسے وقت پر حیرت تھی جس کی کمی کا رونا سب روتے تھے، لیکن اس کے لیے وقت جامد تھا، گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، لہٰذا وہ ٹی وی کے چینلز بدلنے لگتی، سارے ڈرامے ایک سے تھے، وہی سازشوں کے جال میں لپٹی کہانیاں وہی نفرتوں سے بھرے ہوئے کردار تھے، کامیڈی پروگرام دیکھ کر اسے ہنسی کے بجائے رونا آتا!
بچے اپنی دنیائوں میں مگن تھے، موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے، میاں بھی آفس کے جھنجھٹوں میں الجھے رہتے، کبھی اس کی بات سن بھی لیا کرتے تھے، کبھی بے دھیانی میں سر ہلا دیتے یا ذرا سا مسکرا دیتے تو اس کے ٹوٹے ہوئے حوصلے کو سہارا مل جاتا تھا، وہ تو اب شاذ و نادر ہی مسکراتے جیسے مسکراہٹ پر بھی کوئی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہو۔
پڑوس کے لوگ بھی بہت بدل گئے تھے، ایک دوسرے سے کوئی میل جول نہ تھا۔ پڑوسی نے پرانا گھر منہدم کر کے نیا گھر بنا لیا تھا۔ پھر یکایک محلے میں پرانے گھروں کے اوپر نئے گھر بننے لگے اور جب نئے گھر بن گئے تو لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے، چھوٹے گھر تھے مگر دل کھلے تھے، بڑے گھروں نے دلوں سے کشادگی کا احساس چھین لیا تھا۔ پڑوسی مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی رکھتے تھے۔ کوئی پی ٹی آئی کا مداح تھا تو کسی نے مسلم لیگ ن کے گن گانے ہوتے تھے۔ کچھ ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے شیدائی بھی محلے میں رہتے تھے، لوگ اسی بنا پر ایک دوسرے سے کھنچے رہتے، نظریاتی اختلافات نے انھیں ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ بچے تک ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہو جاتے اور ایک دوسرے کے سیاست دانوں کو خوب برا بھلا کہتے، بچوں کی باتیں بڑوں تک پہنچتیں تو ان کے اختلافات مزید بڑھ جاتے۔ وہ تنہائی کے جال میں الجھ کر بیمار رہنے لگی۔ ایک دن اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔
لان میں چڑیا پودوں کے پاس مری ہوئی تھی، وہ ایک دم باہر لپکی، شدید گرمی کا عالم تھا، پرندے پیاس کے مارے ہلکان تھے، ان کی چونچیں پانی کو ترس رہی تھیں اور وہ بری طرح ہانپ رہے تھے، اس نے باغ کی طرف دیکھا، تمام پودے و پھول مرجھا چکے تھے، درختوں کے چہرے دھول سے اٹے تھے۔ اسے باغ کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا، پھر وہ باغ کا دھیان رکھنے لگی، اس نے کیاریوں کو صاف کیا، پودوں کو تراشا، گملوں پر توجہ دی اور پورا باغ مہک اٹھا۔ اس نے جگہ جگہ پرندوں کے پینے کے لیے پانی کے برتن رکھ دیے، ھمنگ برڈ کا گھونسلا بھی باغ کے درخت پر تھا، پھولوں کے کھلتے رنگ دیکھ کر وہ بھی بچوں کے ساتھ پھولوں کا رس لینے نیچے اتر آتی، پھولوں پر شہد کی مکھیاں بھی بھنبھنانے لگیں، اب اسے لگتا کہ پودے، پھول، درخت اور پرندے اس سے بات کرنے لگے تھے، وہ ان سب سے تعلق کی ڈور میں بندھ گئی تھی۔
زمین کے قریب رہ کر اس نے جانا کہ فطرت کی زندگی میں توازن، ہم آہنگی، رابطہ، سمت اور سرشاری کا احساس متواتر ملتے ہیں، میاں بھی اکثر شام کی چائے لان میں پینے لگے، چائے پیتے اس سے باتیں کرنے لگتے، اسے محسوس ہوا کہ اب وہ قدرے مسکرانے بھی لگے ہیں! رفتہ رفتہ میاں کے چہرے کی تھکن آسودگی میں بدل گئی، اکثر صبح کو اٹھ کر باغ میں چہل قدمی بھی کرنے لگے، پھر ایک دن اس نے درختوں میں دو جھولے ڈال دیے، شام میں اکثر پڑوسیوں کے بچے جھولوں پر جھولنے آ جاتے، کبھی مائیں انھیں لینے آتیں تو ان کی بات چیت بھی ہو جاتی، کچھ دنوں میں اس نے محسوس کیا کہ بچے بھی باغ میں آنے لگے ہیں ان کے گھر میں ڈرائنگ روم ایک ایسی جگہ تھی جہاں سب مل کر کھانا کھاتے، پھر سب کی مصروفتیں اور اوقات بدل گئے، ایک دوسرے سے کم ملاقات ہونے لگی لیکن جب سے وہ باغ میں بیٹھنے لگے تو پرانے دن لوٹ آئے، بچے بڑے ہو گئے تھے، کوئی کالج جاتا تو کوئی یونیورسٹی میں پڑھنے لگاتھا۔
خاتون خانہ نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ فطرت کی دنیا انسانوں کی دنیا سے قدرے مختلف ہے، زمین مطلوبہ نتائج دیتی ہے، ایک ہاتھ سے وصول کرتی ہے دوسرے ہاتھ سے لوٹا دیتی ہے، اسے سب سے اچھی بات یہ لگی تھی کہ باغ میں اڑنے والی شہد کی مکھیوں نے آج تک اسے نہیں کاٹا تھا، وہ باغ میں کام کرتی اور شہد کی مکھیاں اس کے ارد گرد اڑتیں مگر سکون اور خاموشی کے ساتھ، وہ بھی محبت کی زبان سمجھتی ہیں شاید! وہ شہد کی مکھیوں کو حیرت سے دیکھتی، وہ باغ کا شہد پڑوس میں بھیجنے لگی، چند دنوں میں پڑوسنیں شکریہ ادا کرنے پہنچ گئیں، کوئی اس کے لیے اچار لے کر آئی تو کسی نے گھر کا بنا ہوا مربہ اسے تحفے کے طور پر دیا، اس نے رابطے کے حسن کو پہلی بار دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا فطرت نام ہی ربط وہم آہنگی کا ہے، ذرخیز زمین اور پانی دستیاب ہو مگر پودے کو دھوپ اور ہوا نہ ملے تو وہ مرجھا جائے گا۔
سبزے کو پنپنے، پھلنے پھولنے کے لیے صحیح رابطہ اور سمت چاہیے۔ بیلوں کو بھی چاند سے باتیں کرنے کے لیے آسمان کا رخ اور سہارا چاہیے۔ اس دن اسے احساس ہوا کہ وہ بھی کوئی بیل ہو، جسے زمین، دھوپ، ہوا اور پانی تو دستیاب تھے مگر صحیح سمت کا سہارا نہ مل سکا تھا، لیکن ایک باغ کے سکون نے اس کے ذہن کو بدل دیا۔ ایک چھوٹے باغ نے اسے فطرت کے قانون کے بارے میں معلومات دی تھی، اس نے انسانوں کی دنیا میں رابطوں کو ٹوٹتے دیکھا تھا، ذہنوں میں ہم آہنگی کا فقدان نظر آیا۔ اس لیے زندگی سے انسان وہ مطلوبہ نتیجہ نہیں حاصل کر سکتا ہے، لوگ صحیح سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ زمین فطری پن کے اصول ساتھ لے کر چلتی ہے وہ بناوٹ سے بے بہرہ ہے، زمین کی قربت انسان کو حقیقت پسند بنا دیتی ہے، یہ بھی نہیں ہوتا کہ بیج ببول کا بوئیں اور زمین سے نیم کی ٹھنڈی چھائوں کی تمنا کریں! جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔
اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ فطرت کی زندگی محنت وجد وجہد سے عبارت ہے، چیونٹیوں سے لے کر شہد کی مکھیوں تک، سورج کی تپش سے لے کر درختوں کے پھل پکنے تک، صبر و انتھک محنت درکار ہوتی ہے۔ اس طریقہ کار میں ہر چیز تندہی و یکسوئی سے اپنے رخ پر سفر کرتی ملے گی، اس نے فطری زندگی سے سکون، یکسوئی اور امن پسندی کے نتائج بھی اخذ کیے اور اسے ایسا لگا کہ وہ سبزہ اس کی روح میں اتر آیا ہو۔ اب اس کے ذہن میں غصہ ونفرت کی جگہ درختوں کی ہریالی نے لے لی تھی، درختوں سے اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ درخت دھوپ کی سختیاں جھیل کر ٹھنڈی چھائوں ومیٹھا پھل دیتے ہیں وہ زمین سے تحرک لے کر جیتا ہے، وہ اس وقت مضبوط درخت بنتا ہے جب اس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہو جاتی ہیں جو یقین و محبت اسے زمین کی گہرائی عطا کرتی ہے وہی اہل زمین کو لوٹا دیتا ہے، درخت کبھی ناراض نہیں ہوتے، نہ نفرت کرنا جانتے ہیں، آپ ان سے کیسا ہی سلوک کیوں نہ کریں، چاہے ان کی شاخیں کاٹ ڈالیں مگر بدلہ نہیں لیتے!
کاش! انسان بھی درختوں جیسے ہو جائیں تو زندگی کس قدر بدل جائے گی، اس نے یہ بات محسوس کی تھی کہ اس کے گھر کے چھوٹے سے باغ نے اسے محلے میں رہنے والے تمام لوگوں سے دوبارہ جوڑ دیا تھا۔ پودے، پرندے، شہد کی مکھیاں، ھمنگ برڈ، چڑیا، فاختہ، سب کے سب اس کے دوست بن گئے تھے، اس کی بیماریوں کی فہرست بھی دن بدن کم ہوتی چلی گئی، اس کا چڑچڑا پن کم ہوا تو گھر کے افراد بھی دوبارہ اس کی طرف چلے آئے، فطرت نے اسے برداشت اور عطا کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا۔