پیاسی زمین
بادل اترنے کی آس میں تہذیب جدید زمین کو صحرا کیے دے رہی ہے۔ آبی ذخائر کرہ ارض سے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ عین ممکن...
پیاسے تھے ہونٹ' خشک تھے کوزے دھرے ہوئے
بادل زمیں پر اس نے اتارا نہیں کوئی
بادل اترنے کی آس میں تہذیب جدید زمین کو صحرا کیے دے رہی ہے۔ آبی ذخائر کرہ ارض سے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ عین ممکن ہے آیندہ جنگیں پانی کے لیے ہوں۔ ہمارے لیے اور آیندہ آنیوالی ہماری نسلوں کے لیے پانی بہت کم ہے، یہ بات عمومی طور پر ہم سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ زمین پر پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کم یا ختم ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ یہ سوچ سادگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ پانی ہمارے اطراف میں ہر جگہ ہے۔ ہوا میں نمی کی صورت میں، بادلوں میں تازہ پانی کے ذخیرے کی شکل میں، زیر زمین پانی کہیں گہرائی میں کہیں کم گہرائی میں، دریا، سمندر، برف کے بڑے بڑے گلیشیئرز، برف زار، حیوانات، نباتات یہاں تک کہ خود انسان ایک بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ صرف ایک بات ہے۔ یا پہلی بات ہے۔ انسانوں کے لیے موجود اور صرف انسانوں ہی کے لیے کیوں نباتات اور حیوانات کے لیے بھی زمین پر موجود تازہ آبی ذخائر کی بات اس طرح شروع ہو سکتی ہے کہ ہمارے اطراف میں ہر طرف پانی موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پانی کتنا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین پر موجود کل پانی کا قریباً 96.5 فیصد سمندروں پر مشتمل ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ باقی پانی میں سے مزید ایک فیصد پانی کھارا ہے۔ زمین پر موجود کل جانداروں کی کل ضروریات کی تکمیل کے لیے زمین پر موجود کل پانی کا صرف ڈھائی فیصد تازہ اور قابل استعمال پانی پر مشتمل ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ مقدار یقینی طور پر بہت کم ہے لیکن بات یہاں بھی مکمل نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود تازہ پانی کے کل آبی ذخیرے کا ایک بڑا حصہ یعنی قریباً 68.6 فیصد گلیشیئرز اور برفانی چوٹیوں کی شکل میں موجود ہے جو یقینا ہمارے لیے قابل استعمال نہیں۔
زیر زمین جو پانی موجود ہے اس کی مقدار 30.1 فی صد ہے۔ زمین کی سطح پر موجود آبی ذخائر 1.3 فی صد رہ جاتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ یقینا 1.3 فی صد پانی جو کہ کل پانی کے 2.5 فیصد میں سے ہے ہمارے آپ کے استعمال میں آتا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ بات یہاں بھی مکمل نہیں ہوتی۔ سطح زمین پر موجود اس آبی ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ہم استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قدرتی برف کی شکل میں ہوتا ہے پانی کا بڑا ذخیرہ جو ہم استعمال کرتے ہیں جھیلوں کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ یہ سطح زمین پر موجود پانی کا 20.1 فیصد ہیں۔ دلدلی اور جھاڑی دار علاقوں میں موجود پانی کی مقدار 2.5 فیصد ہے۔ دریاؤں کا کل پانی 0.46 فیصد جانداروں میں موجود پانی 0.22 فیصد اور زمین کی فضا میں موجود پانی کی مقدار بھی 0.22 فیصد ہی ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کو غور سے پڑھنے اور کئی بار پڑھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ زمین پر موجود جانداروں کے لیے پانی یقینا ایک قیمتی ترین شے ہے اور بہت کم ہے۔
پانی کے اس کم ترین ذخیرے کو بجا طور پر انسانوں تک پہنچنا چاہیے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ زمینی خدا انسان سے پانی بھی چھین رہے ہیں۔ جس طرح جدید سائنس اور صنعت و حرفت نے زمین کی فضا کو زہر آلود کر دیا ہے عین اسی طرح وہ انسانوں سے تازہ آبی ذخائر بھی چھین رہے ہیں۔ کس لیے؟ صرف منافع کے لیے، صرف سرمائے میں اضافے کے لیے۔ یونیسکو نے 2003 میں ایک رپورٹ شایع کی تھی پانی لوگوں کے لیے، پانی زندگی کے لیے ۔ اس رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہونیوالے کل پانی کا 11 فیصد گھریلو استعمال میں آتا ہے۔
30 فیصد زرعی استعمال میں اور 59 فیصد صنعتی استعمال میں۔ اب ذرا تصور ہی کر لیجیے کہ گزشتہ دس برس میں صنعت اور سائنس نے کتنی ترقی کی ہے اور آج کے اعداد و شمار کیا ہونگے اور پانی کا استعمال کہاں تک جا پہنچا ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی پانی حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا۔ اقوام متحدہ کی ڈیولپمنٹ رپورٹ 2008 کے مطابق زمین پر موجود ایک ارب انسان پینے کے تازہ پانی سے محروم رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈھائی ارب کے قریب انسان کو حوائج ضروریہ کے لیے بھی مناسب مقدار میں پانی نہیں مل پاتا جو صحت و صفائی کے مروجہ معیار سے مطابقت رکھتا ہو۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ افراد ناواقفیت کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ آبادی تیز فتاری سے بڑھ رہی ہے۔ اس تیزرفتار اضافے کی وجہ سے پانی کم پڑتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 70 برس میں دنیا کی آبادی 3 گنا ہو گئی ہے لیکن زمین سے پانی نکالنے کا عمل چھ گنا بڑھ گیا۔ یہ اعداد و شمار بھی اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ بیان کر رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پانی کا استعمال نہایت تیز رفتاری سے بڑھتا چلا جا رہا ہے؟ اس کا جواب نہایت آسان ہے۔ جدید طرز زندگی اور صنعت نے پانی کا استعمال بہت بڑھا دیا ہے۔ کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ مگے یا لوٹے سے نہانے میں زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے یا شاور سے نہانے میں؟ اسی پر باقی پانی کے استعمالات پر بھی قیاس کر لیجیے۔ ہم میں سے کون ہو گا جسے جدید سواری کار میں بیٹھنا پسند نہ ہو لیکن ہم میں سے شاید ہی چند افراد ہونگے جو یہ جانتے ہوں کہ ایک کار بننے کے عمل کے دوران کتنا پانی ضایع ہوتا ہے۔
کار بنانے کے دوران کم سے کم ضایع ہونیوالے پانی کی مقدار 39,090 گیلن ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سارا دن میں روزانہ کتنی گاڑیاں بنتی ہیں۔ بڑی گاڑیوں کی تیاری میں اور زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ کاروں کی صنعت سے ہونیوالے نفع اور سہولت کو تو ہم سب جانتے اور مانتے ہیں لیکن اس سہولت کی قیمت ہمیں نہیں پتا۔ زمین کی خشک سالی میں روزانہ بننے والی کاروں کا ایک اپنا حصہ ہے۔ یہ بات یہیں تک محدود نہیں کار کے لیے۔۔۔۔۔ صرف کار کے لیے بننے والے ایک ٹائر پر 518 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔ اب اسی پر قیاس کیجیے، دنیا بھر میں چھوٹے بڑے مل کر بڑے بڑے ٹائر بھی بنتے ہیں۔ ان سب پر کتنا پانی خرچ ہوتا ہے، کیا یہ پانی ان پیاسی معصوم روحوں کا حق نہیں جو محض صاف پانی کی عدم دستیابی کی روزانہ بھینٹ چڑھ رہی ہیں؟ وہ غنچے جو خشک لب لیے بن کھلے مرجھا رہے ہیں، اور وہ زمین جو نہایت تیزی سے خشک اور بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
یہ صرف ترقی پذیر ممالک کا المیہ نہیں امریکا کے دریا کے دریا اور بڑے بڑے خطہ اراضی تیزی سے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعت کاری جس تیزی سے پانی پی رہی ہے اس سے خدشہ ہے کہ یہ کرہ ارض کے بیشتر پانی کو نگل جائے گی۔ جینز مغرب کا عمومی پہناوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ عام ہے۔ نوجوان بڑے شوق سے (نہایت گرم موسم میں بھی) جینز پہنتے ہیں لیکن شاید ہی کسی کے علم میں ہو کہ ایک جوڑی جینز کی تیاری میں 1800 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں فیکٹری میں تیاری کے دوران استعمال ہونیوالے پانی کا تخمینہ نہیں لگایا یہ اس کپاس کی کاشت پر خرچ ہونیوالے پانی کا تخمینہ ہے جس سے صرف دو جوڑی بلو جینز تیار ہوتی ہے۔ پانی اور طرح طرح کے مشروبات ہم بڑے ذوق و شوق سے پلاسٹک کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔ سادہ پانی اور مشروبات کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کی تیاری آج ایک بڑی صنعت ہے۔ صرف ایک عمومی سائز کی بوتل کی تیاری پر 1.85 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔
گو کہ پانی ہر طرف ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پانی کہیں نہیں ہے۔ اگر قلندر کی بات پر توجہ نہ کی گئی تو محض آیندہ نصف صدی میں نصف کرہ پانی پانی پکارتا ہو گا۔
بادل زمیں پر اس نے اتارا نہیں کوئی
بادل اترنے کی آس میں تہذیب جدید زمین کو صحرا کیے دے رہی ہے۔ آبی ذخائر کرہ ارض سے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ عین ممکن ہے آیندہ جنگیں پانی کے لیے ہوں۔ ہمارے لیے اور آیندہ آنیوالی ہماری نسلوں کے لیے پانی بہت کم ہے، یہ بات عمومی طور پر ہم سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ زمین پر پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کم یا ختم ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ یہ سوچ سادگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ پانی ہمارے اطراف میں ہر جگہ ہے۔ ہوا میں نمی کی صورت میں، بادلوں میں تازہ پانی کے ذخیرے کی شکل میں، زیر زمین پانی کہیں گہرائی میں کہیں کم گہرائی میں، دریا، سمندر، برف کے بڑے بڑے گلیشیئرز، برف زار، حیوانات، نباتات یہاں تک کہ خود انسان ایک بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے، لیکن یہ صرف ایک بات ہے۔ یا پہلی بات ہے۔ انسانوں کے لیے موجود اور صرف انسانوں ہی کے لیے کیوں نباتات اور حیوانات کے لیے بھی زمین پر موجود تازہ آبی ذخائر کی بات اس طرح شروع ہو سکتی ہے کہ ہمارے اطراف میں ہر طرف پانی موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پانی کتنا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین پر موجود کل پانی کا قریباً 96.5 فیصد سمندروں پر مشتمل ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ باقی پانی میں سے مزید ایک فیصد پانی کھارا ہے۔ زمین پر موجود کل جانداروں کی کل ضروریات کی تکمیل کے لیے زمین پر موجود کل پانی کا صرف ڈھائی فیصد تازہ اور قابل استعمال پانی پر مشتمل ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ مقدار یقینی طور پر بہت کم ہے لیکن بات یہاں بھی مکمل نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود تازہ پانی کے کل آبی ذخیرے کا ایک بڑا حصہ یعنی قریباً 68.6 فیصد گلیشیئرز اور برفانی چوٹیوں کی شکل میں موجود ہے جو یقینا ہمارے لیے قابل استعمال نہیں۔
زیر زمین جو پانی موجود ہے اس کی مقدار 30.1 فی صد ہے۔ زمین کی سطح پر موجود آبی ذخائر 1.3 فی صد رہ جاتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ یقینا 1.3 فی صد پانی جو کہ کل پانی کے 2.5 فیصد میں سے ہے ہمارے آپ کے استعمال میں آتا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ بات یہاں بھی مکمل نہیں ہوتی۔ سطح زمین پر موجود اس آبی ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ہم استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قدرتی برف کی شکل میں ہوتا ہے پانی کا بڑا ذخیرہ جو ہم استعمال کرتے ہیں جھیلوں کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ یہ سطح زمین پر موجود پانی کا 20.1 فیصد ہیں۔ دلدلی اور جھاڑی دار علاقوں میں موجود پانی کی مقدار 2.5 فیصد ہے۔ دریاؤں کا کل پانی 0.46 فیصد جانداروں میں موجود پانی 0.22 فیصد اور زمین کی فضا میں موجود پانی کی مقدار بھی 0.22 فیصد ہی ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کو غور سے پڑھنے اور کئی بار پڑھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ زمین پر موجود جانداروں کے لیے پانی یقینا ایک قیمتی ترین شے ہے اور بہت کم ہے۔
پانی کے اس کم ترین ذخیرے کو بجا طور پر انسانوں تک پہنچنا چاہیے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ زمینی خدا انسان سے پانی بھی چھین رہے ہیں۔ جس طرح جدید سائنس اور صنعت و حرفت نے زمین کی فضا کو زہر آلود کر دیا ہے عین اسی طرح وہ انسانوں سے تازہ آبی ذخائر بھی چھین رہے ہیں۔ کس لیے؟ صرف منافع کے لیے، صرف سرمائے میں اضافے کے لیے۔ یونیسکو نے 2003 میں ایک رپورٹ شایع کی تھی پانی لوگوں کے لیے، پانی زندگی کے لیے ۔ اس رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہونیوالے کل پانی کا 11 فیصد گھریلو استعمال میں آتا ہے۔
30 فیصد زرعی استعمال میں اور 59 فیصد صنعتی استعمال میں۔ اب ذرا تصور ہی کر لیجیے کہ گزشتہ دس برس میں صنعت اور سائنس نے کتنی ترقی کی ہے اور آج کے اعداد و شمار کیا ہونگے اور پانی کا استعمال کہاں تک جا پہنچا ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی پانی حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا۔ اقوام متحدہ کی ڈیولپمنٹ رپورٹ 2008 کے مطابق زمین پر موجود ایک ارب انسان پینے کے تازہ پانی سے محروم رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈھائی ارب کے قریب انسان کو حوائج ضروریہ کے لیے بھی مناسب مقدار میں پانی نہیں مل پاتا جو صحت و صفائی کے مروجہ معیار سے مطابقت رکھتا ہو۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ افراد ناواقفیت کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ آبادی تیز فتاری سے بڑھ رہی ہے۔ اس تیزرفتار اضافے کی وجہ سے پانی کم پڑتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 70 برس میں دنیا کی آبادی 3 گنا ہو گئی ہے لیکن زمین سے پانی نکالنے کا عمل چھ گنا بڑھ گیا۔ یہ اعداد و شمار بھی اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ بیان کر رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پانی کا استعمال نہایت تیز رفتاری سے بڑھتا چلا جا رہا ہے؟ اس کا جواب نہایت آسان ہے۔ جدید طرز زندگی اور صنعت نے پانی کا استعمال بہت بڑھا دیا ہے۔ کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ مگے یا لوٹے سے نہانے میں زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے یا شاور سے نہانے میں؟ اسی پر باقی پانی کے استعمالات پر بھی قیاس کر لیجیے۔ ہم میں سے کون ہو گا جسے جدید سواری کار میں بیٹھنا پسند نہ ہو لیکن ہم میں سے شاید ہی چند افراد ہونگے جو یہ جانتے ہوں کہ ایک کار بننے کے عمل کے دوران کتنا پانی ضایع ہوتا ہے۔
کار بنانے کے دوران کم سے کم ضایع ہونیوالے پانی کی مقدار 39,090 گیلن ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سارا دن میں روزانہ کتنی گاڑیاں بنتی ہیں۔ بڑی گاڑیوں کی تیاری میں اور زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ کاروں کی صنعت سے ہونیوالے نفع اور سہولت کو تو ہم سب جانتے اور مانتے ہیں لیکن اس سہولت کی قیمت ہمیں نہیں پتا۔ زمین کی خشک سالی میں روزانہ بننے والی کاروں کا ایک اپنا حصہ ہے۔ یہ بات یہیں تک محدود نہیں کار کے لیے۔۔۔۔۔ صرف کار کے لیے بننے والے ایک ٹائر پر 518 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔ اب اسی پر قیاس کیجیے، دنیا بھر میں چھوٹے بڑے مل کر بڑے بڑے ٹائر بھی بنتے ہیں۔ ان سب پر کتنا پانی خرچ ہوتا ہے، کیا یہ پانی ان پیاسی معصوم روحوں کا حق نہیں جو محض صاف پانی کی عدم دستیابی کی روزانہ بھینٹ چڑھ رہی ہیں؟ وہ غنچے جو خشک لب لیے بن کھلے مرجھا رہے ہیں، اور وہ زمین جو نہایت تیزی سے خشک اور بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
یہ صرف ترقی پذیر ممالک کا المیہ نہیں امریکا کے دریا کے دریا اور بڑے بڑے خطہ اراضی تیزی سے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعت کاری جس تیزی سے پانی پی رہی ہے اس سے خدشہ ہے کہ یہ کرہ ارض کے بیشتر پانی کو نگل جائے گی۔ جینز مغرب کا عمومی پہناوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ عام ہے۔ نوجوان بڑے شوق سے (نہایت گرم موسم میں بھی) جینز پہنتے ہیں لیکن شاید ہی کسی کے علم میں ہو کہ ایک جوڑی جینز کی تیاری میں 1800 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں فیکٹری میں تیاری کے دوران استعمال ہونیوالے پانی کا تخمینہ نہیں لگایا یہ اس کپاس کی کاشت پر خرچ ہونیوالے پانی کا تخمینہ ہے جس سے صرف دو جوڑی بلو جینز تیار ہوتی ہے۔ پانی اور طرح طرح کے مشروبات ہم بڑے ذوق و شوق سے پلاسٹک کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔ سادہ پانی اور مشروبات کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کی تیاری آج ایک بڑی صنعت ہے۔ صرف ایک عمومی سائز کی بوتل کی تیاری پر 1.85 گیلن پانی صرف ہوتا ہے۔
گو کہ پانی ہر طرف ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پانی کہیں نہیں ہے۔ اگر قلندر کی بات پر توجہ نہ کی گئی تو محض آیندہ نصف صدی میں نصف کرہ پانی پانی پکارتا ہو گا۔