پارٹنرشپ
ہم کرکٹ کی نہیں بلکہ تجارت کی پارٹنر شپ کی بات کر رہے ہیں۔ وہ شراکت جو خاندان کے لوگ مل کر کرتے ہیں...
ہم کرکٹ کی نہیں بلکہ تجارت کی پارٹنر شپ کی بات کر رہے ہیں۔ وہ شراکت جو خاندان کے لوگ مل کر کرتے ہیں۔ یہ ایسے کاروبار ہوتے ہیں جن میں ایک ہی فیملی کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں؟ یہ ہمارا آج کا موضوع ہے۔ پارٹنر شپ کس طرح آگے بڑھتی ہے؟ کون ترقی کر پاتے ہیں؟ ہم اس پر قلم آرائی کریں گے۔ شراکت کیوں ٹوٹتی ہیں اور ''سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے'' والا محاورہ کب بولا جاتا ہے؟ کون لوگ بوسکی کے سوٹ سے بنیان تک آ جاتے ہیں اور اس کی وجہ کون کون سی نادانیاں ہوتی ہیں؟ ان المناکیوں سے پردہ اٹھانے کی آج ہم کوشش کریں گے۔ پارٹنر شپ دو قسم کی ہوتی ہیں۔ اگر والد نے کوئی کاروبار شروع کیا ہے اور بچوں کے بڑے ہوتے ہوتے بزنس پروان چڑھ چکا ہے تو بھائی اور والد اس بیوپار کے پارٹنر ہوتے ہیں۔
نواز شریف کا خاندان اس کی مثال ہے۔ اگر چند بھائی آپس میں کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں تو ان کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے ہمایوں اختر اور ہارون اختر اس کی مثال ہو سکتے ہیں۔کاروبار لاکھوں کا بھی ہو سکتا ہے، کروڑوں کا بھی اور اربوں کا بھی۔ اس حوالے سے دو باتیں طے ہیں اور ان کے کرنے میں کسی شرم و جھجھک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ کاروبار کو پیشہ بنانے والے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، کچھ کمانا چاہتے ہیں، پیسے سے پیسے کو کھینچنا چاہتے ہیں اور آرام دہ زندگی کی خواہش ان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔
وہ فوجی، شاعر، فنکار، صحافی بن کر ایک فقیر کی خاطر تھوڑی غربت سہہ جانے والے لوگ نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ پارٹنرشپ مفاد کے تحت قائم رہتی ہے جب تک مشترکہ مفاد رہتا ہے، شراکت داری قائم رہتی ہے اور جوں ہی مفادات کی ڈوریاں مختلف رنگ اختیار کرتی ہیں، لگتا ہے کہ پارٹنرشپ میں بھنگ پڑ گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ملکوں کی دوستی مفادات کے گرد گھومتی ہے اسی طرح پارٹنرشپ بھی اس وقت تک قائم و دائم رہتی ہے جب تک سب کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ یہ کب تک پورے ہوتے رہتے ہیں اور کب مفادات الگ ہو جاتے ہیں؟ اس دلچسپ سوال کا جواب آگے آ رہا ہے۔
جب بزنس پروان چڑھ رہا ہو، سب کی گڈی اوپر اڑ رہی ہو، دکانیں، کارخانے اور فرنچائز بڑھ رہے ہیں تو شراکت جوبن پر ہوتی بھی ہے۔ جب سب کی ضرورتیں، سہولتیں حتیٰ کہ لگژری بھی کاروبار کی بدولت پوری ہو رہی ہوں تو کوئی علیحدگی کا سوچتا بھی نہیں۔ جب ایک سے دوسرا بنگلہ، تیسری سے چوتھی گاڑی اور پاسپورٹ پر پانچویں سے چھٹی ٹرپ کی مہر لگ رہی ہو تو کون ظالم پارٹنرشپ کو ختم کرنے کا خیال بھی ذہن میں لائے گا۔ جب بچوں کی شادیاں دھوم دھام سے ہوں، جب حج و عمرے، یورپ و امریکا کے سفر ہو رہے ہوں، جب نئی نئی گاڑیاں براہ راست شو روم سے بک ہو رہی ہوں تو کاروبار کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب کاروبار ہلکا سا گھاٹے میں جا رہا ہو۔ پھر کیا ہوتا ہے؟
جو بھائی حساب کتاب رکھتا ہو، تجوری پر بیٹھتا ہو یعنی پورا کاروبار جس کے گرد گھومتا ہو، وہ فکرمند ہو جاتا ہے۔ معاملات میں بظاہر اتنا کم فرق نظر نہیں آتا ہے کہ دوسرے محسوس نہیں کرتے۔ پرخلوص انداز سے اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھائی، بھابیوں اور بھتیجوں کو سمجھاتا ہے کہ اب پہلے جیسی پوزیشن نہیں۔ وہ ایک بھائی کے شادی کے بڑھتے اخراجات پر، دوسرے کے بچے کی تعلیم کے شدید خرچے پر، تیسرے کے غیرملکی دوروں پر اور چوتھے کے گھر کی تعمیر میں فضول خرچی پر تنقید کرتا ہے۔ یہاں اگر بھائی سنبھل جائیں اور اس جائز تنقید پر برا نہ منائیں اور خرچے میں ہاتھ کھینچ کر رکھیں تو معاملات سنبھل جاتے ہیں ورنہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی بات ہو کر رہتی ہے۔
اب اگلا مرحلہ کیا ہوتا ہے؟ تین، چار یا پانچ بھائی مختلف قسم کے کاروبار سنبھالے ہوتے ہیں۔ اب ہر کاروبار کی آمدنی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ زیادہ آمدنی والی جگہ سنبھالنے کی بھائی کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز اسے مل جائے۔ اب یہاں ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اب بچے بڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اب بھائیوں کی توجہ ایک دوسرے کے بجائے اپنی اولاد پر ہوتی ہے۔ یہ مفاد کا رخ پھیرنے والی بات ہوتی ہے۔ اگر آمدنیوں میں بہت زیادہ فرق نہ ہو تو معاملات طے ہو جاتے ہیں ورنہ خرابیاں وکیلوں کے دفتروں، برادریوں کے اجلاسوں اور عدالت کے کمروں تک دیکھی جا سکتی ہیں۔
تمام کاروبار نہ تو ترقی کرتے اور نہ ہر وقت پھلے پھولے رہ سکتے ہیں۔ ایسی بھی صورت ہوتی ہے کہ دو بھائی ایک دکان کے پارٹنر ہوتے ہیں۔ پچیس تیس سال کی شراکت انھیں جوانی سے بڑھاپے تک لے آئی ہوتی ہے۔ اس دوران وہ اپنے گھر بنا چکے ہوتے ہیں اور ایک دو بچوں کی شادیاں کر چکے ہوتے ہیں۔ اب نہ کاروبار گھروں کا منافع دے رہا ہوتا ہے اور نہ نئی نسل کی کاروبار میں شرکت کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، نہ اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ ایک بھائی وہ دکان دوسرے سے خرید لے۔ یوں ایک المناک صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ دکان دو حصوں میں بٹ جاتی ہے، بیچ کی دیوار زمین پر نہیں بلکہ دو سگے بھائیوں کے دلوں میں کھینچی گئی ہوتی ہے۔ یہ مجبوری بھی ہوتی ہے اور ٹریجڈی بھی۔ ایسے میں کچھ گاہک چھوٹ جاتے ہیں کہ کس سے مال خریدیں؟ یہ دکان آنکھوں میں جچتی ہے اور نہ بھائیوں میں درد کا مشترکہ رشتہ جاگتا ہے۔ آج ہم چند بیماریوں کا حل بتا رہے ہیں۔ تفصیلی علاج ایک اور کالم کا تقاضا کرتا ہے۔
مفادات ہوتے ہیں، خود غرضی بھی ہوتی ہے اور مجبوری بھی۔ اگر یہ نادانی، ساری دنیا کا پانی خود پی جانے کی ہوس وقتی طور پر تو فائدہ پہنچا جاتی ہے لیکن اس کا انجام بڑا دردناک ہوتا ہے۔ صرف اپنے بچوں کا اپنا بچہ سمجھنے کا خمار جاہل انسان کو ذلیل کروا بیٹھتا ہے۔ ترقی کرتے ہوئے کاروباری لوگ اگر پچاس سو لوگوں کو اپنا اہل خانہ سمجھنے سے انکار کر دیں تو خدا سے بھی اور خاندان سے بھی کٹ جاتے ہیں۔ اپنے بہن و بھائی کے بچوں کو تقریباً برابری کی بنیاد پر اپنا بچہ سمجھنے والے بزنس مین اور صنعتکار ترقی کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے فرسٹ کزنز کے بچوں کو یاد رکھنے والے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کی ترقی دیکھ کر دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔
اس فارمولے سے ہٹ کر ہوس کا کاروبار کرنیوالے پارٹنر دوسری نسل تک بھی اپنا سرمایہ منتقل نہیں کر سکتے۔ پھر وہ اپنے بیوی بچوں کا بنگلوں سے کوارٹروں تک انتقال اپنے انتقال سے پہلے دیکھ لیتے ہیں جب تک انسان روپے پیسے کو قدرت کی امانت سمجھ کر حقداروں کو دیتا ہے، پھلتا پھولتا ہے، کبھی وہ قدرت کی بے پایاں قدرت کے باوجود خود غرض اور گھٹیا بن کر بے نقاب ہو جاتا ہے۔ وہ غلط پارٹنر چن لیتا ہے۔ جب وہ پارٹنر شپ کمزوروں یعنی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کرتا ہے تو ناکام و نامراد ہو جاتا ہے۔ کامیاب وہ ہوتا ہے جو طاقتور کے ساتھ پارٹنر شپ کرتا ہے۔ اپنے ربّ کے ساتھ پارٹنر شپ، خویش و درویش کو بڑے دل سے دینے کی پارٹنرشپ۔ حصہ بقدر جثہ۔ دولت کے تناسب سے سخاوت کے بجائے بقدر اشک بلبل دینے کو سخاوت نہیں کہتے کہ دکھائوے کی کہلاتی ہے یہ پارٹنر شپ۔
نواز شریف کا خاندان اس کی مثال ہے۔ اگر چند بھائی آپس میں کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں تو ان کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے ہمایوں اختر اور ہارون اختر اس کی مثال ہو سکتے ہیں۔کاروبار لاکھوں کا بھی ہو سکتا ہے، کروڑوں کا بھی اور اربوں کا بھی۔ اس حوالے سے دو باتیں طے ہیں اور ان کے کرنے میں کسی شرم و جھجھک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ کاروبار کو پیشہ بنانے والے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، کچھ کمانا چاہتے ہیں، پیسے سے پیسے کو کھینچنا چاہتے ہیں اور آرام دہ زندگی کی خواہش ان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔
وہ فوجی، شاعر، فنکار، صحافی بن کر ایک فقیر کی خاطر تھوڑی غربت سہہ جانے والے لوگ نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ پارٹنرشپ مفاد کے تحت قائم رہتی ہے جب تک مشترکہ مفاد رہتا ہے، شراکت داری قائم رہتی ہے اور جوں ہی مفادات کی ڈوریاں مختلف رنگ اختیار کرتی ہیں، لگتا ہے کہ پارٹنرشپ میں بھنگ پڑ گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ملکوں کی دوستی مفادات کے گرد گھومتی ہے اسی طرح پارٹنرشپ بھی اس وقت تک قائم و دائم رہتی ہے جب تک سب کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ یہ کب تک پورے ہوتے رہتے ہیں اور کب مفادات الگ ہو جاتے ہیں؟ اس دلچسپ سوال کا جواب آگے آ رہا ہے۔
جب بزنس پروان چڑھ رہا ہو، سب کی گڈی اوپر اڑ رہی ہو، دکانیں، کارخانے اور فرنچائز بڑھ رہے ہیں تو شراکت جوبن پر ہوتی بھی ہے۔ جب سب کی ضرورتیں، سہولتیں حتیٰ کہ لگژری بھی کاروبار کی بدولت پوری ہو رہی ہوں تو کوئی علیحدگی کا سوچتا بھی نہیں۔ جب ایک سے دوسرا بنگلہ، تیسری سے چوتھی گاڑی اور پاسپورٹ پر پانچویں سے چھٹی ٹرپ کی مہر لگ رہی ہو تو کون ظالم پارٹنرشپ کو ختم کرنے کا خیال بھی ذہن میں لائے گا۔ جب بچوں کی شادیاں دھوم دھام سے ہوں، جب حج و عمرے، یورپ و امریکا کے سفر ہو رہے ہوں، جب نئی نئی گاڑیاں براہ راست شو روم سے بک ہو رہی ہوں تو کاروبار کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب کاروبار ہلکا سا گھاٹے میں جا رہا ہو۔ پھر کیا ہوتا ہے؟
جو بھائی حساب کتاب رکھتا ہو، تجوری پر بیٹھتا ہو یعنی پورا کاروبار جس کے گرد گھومتا ہو، وہ فکرمند ہو جاتا ہے۔ معاملات میں بظاہر اتنا کم فرق نظر نہیں آتا ہے کہ دوسرے محسوس نہیں کرتے۔ پرخلوص انداز سے اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھائی، بھابیوں اور بھتیجوں کو سمجھاتا ہے کہ اب پہلے جیسی پوزیشن نہیں۔ وہ ایک بھائی کے شادی کے بڑھتے اخراجات پر، دوسرے کے بچے کی تعلیم کے شدید خرچے پر، تیسرے کے غیرملکی دوروں پر اور چوتھے کے گھر کی تعمیر میں فضول خرچی پر تنقید کرتا ہے۔ یہاں اگر بھائی سنبھل جائیں اور اس جائز تنقید پر برا نہ منائیں اور خرچے میں ہاتھ کھینچ کر رکھیں تو معاملات سنبھل جاتے ہیں ورنہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی بات ہو کر رہتی ہے۔
اب اگلا مرحلہ کیا ہوتا ہے؟ تین، چار یا پانچ بھائی مختلف قسم کے کاروبار سنبھالے ہوتے ہیں۔ اب ہر کاروبار کی آمدنی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ زیادہ آمدنی والی جگہ سنبھالنے کی بھائی کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز اسے مل جائے۔ اب یہاں ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اب بچے بڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اب بھائیوں کی توجہ ایک دوسرے کے بجائے اپنی اولاد پر ہوتی ہے۔ یہ مفاد کا رخ پھیرنے والی بات ہوتی ہے۔ اگر آمدنیوں میں بہت زیادہ فرق نہ ہو تو معاملات طے ہو جاتے ہیں ورنہ خرابیاں وکیلوں کے دفتروں، برادریوں کے اجلاسوں اور عدالت کے کمروں تک دیکھی جا سکتی ہیں۔
تمام کاروبار نہ تو ترقی کرتے اور نہ ہر وقت پھلے پھولے رہ سکتے ہیں۔ ایسی بھی صورت ہوتی ہے کہ دو بھائی ایک دکان کے پارٹنر ہوتے ہیں۔ پچیس تیس سال کی شراکت انھیں جوانی سے بڑھاپے تک لے آئی ہوتی ہے۔ اس دوران وہ اپنے گھر بنا چکے ہوتے ہیں اور ایک دو بچوں کی شادیاں کر چکے ہوتے ہیں۔ اب نہ کاروبار گھروں کا منافع دے رہا ہوتا ہے اور نہ نئی نسل کی کاروبار میں شرکت کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، نہ اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ ایک بھائی وہ دکان دوسرے سے خرید لے۔ یوں ایک المناک صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ دکان دو حصوں میں بٹ جاتی ہے، بیچ کی دیوار زمین پر نہیں بلکہ دو سگے بھائیوں کے دلوں میں کھینچی گئی ہوتی ہے۔ یہ مجبوری بھی ہوتی ہے اور ٹریجڈی بھی۔ ایسے میں کچھ گاہک چھوٹ جاتے ہیں کہ کس سے مال خریدیں؟ یہ دکان آنکھوں میں جچتی ہے اور نہ بھائیوں میں درد کا مشترکہ رشتہ جاگتا ہے۔ آج ہم چند بیماریوں کا حل بتا رہے ہیں۔ تفصیلی علاج ایک اور کالم کا تقاضا کرتا ہے۔
مفادات ہوتے ہیں، خود غرضی بھی ہوتی ہے اور مجبوری بھی۔ اگر یہ نادانی، ساری دنیا کا پانی خود پی جانے کی ہوس وقتی طور پر تو فائدہ پہنچا جاتی ہے لیکن اس کا انجام بڑا دردناک ہوتا ہے۔ صرف اپنے بچوں کا اپنا بچہ سمجھنے کا خمار جاہل انسان کو ذلیل کروا بیٹھتا ہے۔ ترقی کرتے ہوئے کاروباری لوگ اگر پچاس سو لوگوں کو اپنا اہل خانہ سمجھنے سے انکار کر دیں تو خدا سے بھی اور خاندان سے بھی کٹ جاتے ہیں۔ اپنے بہن و بھائی کے بچوں کو تقریباً برابری کی بنیاد پر اپنا بچہ سمجھنے والے بزنس مین اور صنعتکار ترقی کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے فرسٹ کزنز کے بچوں کو یاد رکھنے والے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں کی ترقی دیکھ کر دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔
اس فارمولے سے ہٹ کر ہوس کا کاروبار کرنیوالے پارٹنر دوسری نسل تک بھی اپنا سرمایہ منتقل نہیں کر سکتے۔ پھر وہ اپنے بیوی بچوں کا بنگلوں سے کوارٹروں تک انتقال اپنے انتقال سے پہلے دیکھ لیتے ہیں جب تک انسان روپے پیسے کو قدرت کی امانت سمجھ کر حقداروں کو دیتا ہے، پھلتا پھولتا ہے، کبھی وہ قدرت کی بے پایاں قدرت کے باوجود خود غرض اور گھٹیا بن کر بے نقاب ہو جاتا ہے۔ وہ غلط پارٹنر چن لیتا ہے۔ جب وہ پارٹنر شپ کمزوروں یعنی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کرتا ہے تو ناکام و نامراد ہو جاتا ہے۔ کامیاب وہ ہوتا ہے جو طاقتور کے ساتھ پارٹنر شپ کرتا ہے۔ اپنے ربّ کے ساتھ پارٹنر شپ، خویش و درویش کو بڑے دل سے دینے کی پارٹنرشپ۔ حصہ بقدر جثہ۔ دولت کے تناسب سے سخاوت کے بجائے بقدر اشک بلبل دینے کو سخاوت نہیں کہتے کہ دکھائوے کی کہلاتی ہے یہ پارٹنر شپ۔