تیسری باری اور عمران خان…

میاں نواز شریف اس سے قبل ماضی میں بھی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے، لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو 5 سالہ مدت پوری...


Syed Asadullah May 29, 2013

KARACHI: میاں نواز شریف اس سے قبل ماضی میں بھی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے، لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو 5 سالہ مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ خیر اب اس دور کی باتیں دہرانا مناسب نہیں کہ سانپ تو نکل گیا اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ۔ اب تو صرف موجودہ صورت حال پر بات کرنا ہے۔ یوں تو ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم بہت منظم ترقی سے چلائی اور دوسرے صوبوں کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ صوبہ پنجاب کو دی گئی، کیونکہ پنجاب کی آبادی 63 فیصد سے زیادہ ہے، اس لیے یہاں سے زائد ووٹ ملنے کا یقین بہ نسبت دوسرے صوبوں کے زیادہ تھا۔ اس مرتبہ تقریباً ساری جماعتوں نے ہی ایسی پلاننگ کی تھی کہ ایسے مقامات سے الیکشن لڑا جائے کہ جہاں اپنی اپنی کمیونٹی کی آبادیاں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں اکثریت سے کامیابی ملی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی، پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف، بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں سمیت ن لیگ کو اکثریت ملی۔ اس طرح خصوصاً صوبہ پنجاب کے ووٹرز نے ن لیگ کو مسند اقتدار تک پہنچنے کا موقع فراہم کر دیا۔

ادھر عمران خان الم ناک حادثے کی وجہ سے بستر علالت سے ہی سیاسی بیانات کے ذریعے میدان سیاست میں سرگرم رہے۔ بہرحال ان کے ماضی کے نعرے اب بھی عوام کے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ''میاں صاحب! اب تیسری باری نہیں آئے گی، باریاں لینے کا کھیل اور دور ختم ہو چکے۔'' بہرحال اب معاملہ تو یہاں تک پہنچ ہی چکا ہے کہ ''چڑیاں چگ گئیں کھیت''۔ اب دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ میدان سیاست میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد عمران خان کی کیا حکمت عملی ہوتی ہے۔ ویسے انھوں نے بستر علالت سے یہ سندیسہ دیا تھا کہ تحریک انصاف ناقابل تسخیر اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ بہرحال انسان سوچتا بہت کچھ ہے لیکن مشیت ایزدی ہوتی کچھ اور ہے جس پر انسان قدرت نہیں رکھتا۔ بے شک عمران خان اور ان کی پارٹی، دونوں عظیم ہیں اتنے کم عرصے میں اتنی بلندی پر پہنچنا اور پارٹی کو پہنچانا کمال حیرت نہیں تو اور کیا ہے مگر سیاست بھی تو کوئی آسان گولی نہیں کہ بلا کسی تردد کے نگل لی جائے۔

یہاں تو ہیں پہاڑ بڑی بڑی آزمائشوں کے، بڑے بڑے شاطر ہیں جو کہ عجب عجب اور پیچیدہ چالیں چلتے ہیں۔ عام آدمی کے بس میں نہیں کہ ان کی چالیں سمجھ لیں، اس کے لیے تو بڑے ماہر شاطروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر بھی عمران خان نے میدان سیاست میں جو جگہ بنالی وہ بھی قابل تحسین ہے۔ یہ تو تھا عمران خان کی تحریک کا ایک پہلو، اب دیکھتے ہیں ان کی تحریک کا دوسرا پہلو۔ 19 مئی الیکشن کمیشن نے حلقہ 250 کے 43 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ ووٹنگ کا انتظام کیا تھا، اس میں دیگر بڑی پارٹیوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا صرف تحریک انصاف حصہ لے رہی تھی اور اس کے واحد امیدوار عارف علوی صاحب تھے۔ ایک اینکر پرسن تو اپنے تجزیے میں یہ کہہ گئے کہ عارف علوی نے اتنے ووٹوں سے برتری حاصل کر لی، مگر فوراً الٹ کر کہنے لگے ''ارے یہاں برتری کا کیا سوال ہے وہ تو اکیلے ہی امیدوار ہیں''۔ اسی دوران تحریک انصاف کی ایک سینئر خاتون رکن محترمہ زہرہ شاہد حسین کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا، جس کی اطلاع جب عمران خان تک پہنچی تو بستر علالت سے ہی ان کے ایک فوری بیان نے جس میں دوسری سیاستی پارٹی پر الزام عائد کیا گیا ایک بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا۔

ظاہر بات ہے ایسے میں دوسری جانب سے بھی ردعمل سامنے آنا تھا۔ بالآخر یہ ہنگامہ آرائی جماعتی تصادم کی طرف رخ کر گئی۔ اچھا خاصا پر امن ماحول، ہنگامہ آرائی، بدنظمی اور امن و امان کی بدترین صورت حال میں تبدیل ہو گیا۔ اس صورت حال میں نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری بنتی تھی کہ وہ اس کا فوری نوٹس لیتے اور آئینی و قانونی کارروائی کرتے، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے نہ کوئی حکومت ہے نہ ہی الیکشن کمیشن کا وجود ہے۔ دونوں جانب سے سانپ سونگھ جانے والا انداز اختیار کیا گیا۔ دوسری طرف ہماری عدالت عظمیٰ جو کہ ابتدا ہی سے ''سوموٹو'' ایکشن لینے میں مہارت دکھاتی ہے اس جانب سے بھی حالات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ وفاق اور صوبائی کی خاموشی کی وجہ یہی نظر آ رہی ہے کہ دونوں سطح پر ''نگراں حکومتیں'' کام کر رہی ہیں اور ان کا کام صرف صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا تھا جو انھوں نے کر دیا۔ اس کے آگے ان کے پاس انتظامی امور نمٹانے یا چلانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

اس لیے نگراں حکمرانوں کی طرف سے کسی ہلچل کی توقع عبث تھی۔ جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے تو وہ ابھی ''متوقع وزیر اعظم'' کے مقام پر ہیں، لہٰذا ان کے پاس سوائے مذمتی بیانات جاری کرنے اور دونوں فریقین کو مخلصانہ مشورے اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی تلقین کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کا معاملہ بھی نگراں حکومت کے مماثل نظر آتا ہے کہ ''ہم نے صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کروا دیے ہیں، جہاں جہاں دھاندلیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے وہاں وہ ری پولنگ کروا رہے ہیں اور بعض جگہوں پر صرف ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جا رہی ہے، اگر اس پر کوئی امیدوار یا پارٹی مطمئن نہیں ہیں تو وہ نئے تشکیل شدہ الیکشن ٹریبونلز سے رجوع کر سکتے ہیں۔'' یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ معلوم ہو رہا ہے وہ ان نئے پیدا شدہ حالات سے بری الذمہ ہیں۔ اب سارے تنازع کا فیصلہ کون کرے گا یا اس کا انجام کیا ہو گا، یہ تو عام آدمی تصور کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ''خواص'' کیا کر رہے ہیں، وہ کس طرح اس تشدد زدہ تنازعات کو دیکھ رہے ہیں۔

جب الیکشن کمیشن پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں جہاں دھاندلیوں کا شور ہو رہا ہے (یعنی جن حلقوں میں) وہاں کے بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشانات کی مشینی طریقے سے تصدیق کرائی جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس طریقہ کار میں تو کافی وقت درکار ہو گا، کیا اس وقت تک کے لیے کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیے جائیں گے؟ کیا حکومت اور اسمبلیوں کی تشکیل بھی معطل رہے گی؟ یہ سوالات ایسے ہیں کہ فوری توجہ کے حامل ہیں۔ معلوم نہیں صحیح صورت حال کب اور کس طرح واضح ہو گی تا کہ عوام مطمئن ہو کر اطمینان کا سانس لے سکیں۔

یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ کوئی خفیہ سازش تیار کی گئی ہے کہ یوں ہی ہر طرف سے ''دھاندلی، دھاندلی'' کی آوازیں بلند ہونے دو، جب صورت حال بے قابو ہو جائے تو ''انتخابات'' کو کالعدم قرار دے کر از سر نو انتخابات کا انعقاد کا پلان تیار کیا جائے، اس وقت تک کے لیے عبوری حکومتوں کی مدت میں توسیع کر دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ انتخابات کا انعقاد پہلے ہی بہت کٹھن اور مہنگا مرحلہ ہے۔ اس پر یہ سوچ کہ نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔ معلوم ہوتا ہے ایسی خواہش رکھنے والے طبقات یقیناً احمقوں کی جنت میں رہتے ہوں گے۔ ہوش کے ناخن لیے جائیں۔ ایسی غیر ذمے دارانہ اور فضول باتوں سے گریز اور منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ سے کام لیا جائے۔ ہمارا ملک پہلے ہی نازک موڑ پر کھڑا ہے، اندرونی و بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں، ملک کے حالات کو ٹھیک کرنا ہے، اس کی سلامتی کی فکر کرتا ہے۔ یہ وقت محض تنقید برائے تنقید کا نہیں ہے بلکہ تعمیری و فکری تنقید کا ہے۔ جب تک ہم اپنی متزلزل معیشت، سماجی فلاح و بہبود کی زبوں حالی، امن و امان کی مخدوش حالت، اور دیگر قومی اہمیت کے حامل اداروں کو ٹھیک کرنے اور نظام کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کی کوششیں جاری نہیں رکھیں گے تو پھر اس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں