دو سو اکسٹھ اموات ثوابِ جاریہ میں بدل گئیں
بلدیہ فیکٹری فائر پاکستان میں ہونے والا اب تک کا بدترین صنعتی حادثہ تھا جس میں محض انسانی غفلت کے سبب اتنی جانیں گئیں۔
کسی کو یاد ہے آج ہی کے دن ٹھیک چھ برس پہلے کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ میں واقع بلدیہ ٹاؤن کی ایک کمپنی علی انٹرپرائزز کی چار منزلہ گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے دو سو اٹھاون مزدور جاں بحق اور انسٹھ زخمی ہوگئے۔بعد ازاں تین اور مزدور زخموں کی تاب نہ لا کے جاں بحق ہو گئے، یوں یہ تعداد دو سو اکسٹھ تک پہنچ گئی۔
کہا جاتا ہے کہ بلدیہ فیکٹری فائر پاکستان میں ہونے والا اب تک کا بدترین صنعتی حادثہ تھا جس میں محض انسانی غفلت کے سبب اتنی جانیں گئیں۔اگر ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے دروازوں پر تالا نہ ہوتا اور باہر کھلنے والی کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو شائد اتنی ہلاکتیں نہ ہوتیں کیونکہ زیادہ تر اموات دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حادثے سے لگ بھگ تین ہفتے قبل امریکی ادارے سوشل اکاؤنٹیبلیٹی انٹرنیشنل کی ذیلی اطالوی کمپنی رینا کی جانب سے علی انٹرپرائیز کی گارمنٹ فیکٹری کو '' ایس اے ایٹ تھاؤزینڈ ''سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔اس کا مطلب تھا کہ یہ فیکٹری ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بین الااقوامی معیار پر پوری اترتی ہے۔لیکن اس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے جہاں صنعتی قوانین کو لاگو کرنے والے اداروں،اہلکاروں اور کرپشن و بے حسی کے گٹھ جوڑ کو عریاں کر دیا وہیں کسی بھی فیکٹری کو بین الااقوامی معیار کا قرار دینے کے بین الاقوامی ریکٹ کو بھی ننگا کر کے رکھ دیا۔ چنانچہ سوشل اکاؤنٹیبلٹی انٹرنیشنل اور رینا نے اگرچہ بلدیہ فیکٹری حادثے کی ذمے داری میں اپنی غافلانہ شرکت سے تو ڈھٹائی برتتے ہوئے انکار کر دیا مگر خجالت اتنی بڑی تھی کہ اس ادارے کو حادثے کے فوراً بعد پاکستان میں کسی بھی فیکٹری کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کام عارضی طور پر معطل کرنا پڑ گیا۔
علی انٹرپرائیز مالکان نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت سے توجہ ہٹانے کے لیے مشہور کرنا شروع کیا کہ فیکٹری میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی تنظیم نے بھتہ نہ ملنے پر اس فیکٹری کو آگ لگا دی۔ اگر یہ الزام درست ہے تب بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ علی انٹرپرائزز کے '' معصوم و بے گناہ مالکان ''مسلسل فرار کیوں ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کیوں نہیں کر پا رہے اور اب وہ ایک تازہ ایف آئی آر پر کیوں مصر ہیں کہ آتشزدگی کے مجرموں کو ڈھونڈا جائے۔ جبکہ تین تحقیقاتی کمیٹیاں متفق ہیں کہ آتشزدگی کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر اموات ہنگامی راستے مقفل ہونے اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔ مزدروں کو جان بچانے کے لیے بھاگنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور اس کی ذمے دار سراسر فیکٹری انتظامیہ ہے۔
علی انٹرپرائیز میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ہزار مزدور مختلف شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ ان کا ریکارڈ نہ فیکٹری کے پاس ہے نہ سرکاری اداروں کے پاس۔خود حادثے سے قبل اس فیکٹری کا وجود بھی صنعتی امور کے نگراں سرکاری اداروں کے کاغذوں میں تھا کہ نہیں؟ یہ سوال بھی تحقیق طلب ہے۔اگر اس کا جواب مل جائے تو ایسے بیسیوں دیگر ادارے اور فیکٹریاں بھی سامنے آ جائیں گے جو جیتاجاگتا وجود رکھنے کے باوجود سرکاری ریکارڈ میں گھوسٹ فیکٹریاں ہیں۔اور یہ گھوسٹ صرف کسی المئے یا حادثے کے نتیجے میں ہی اچانک ہمارے سامنے آتا ہے۔
علی انٹر پرائیز کا حادثہ یا واردات بھی بھلا دی جاتی اگر پائلر جیسے ادارے ، نیشنل لیبر فیڈریشن و دیگر سرکردہ مزدور تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عوام دوست وکیل، میڈیا کے کچھ سرپھرے اور عدلیہ اس معاملے کو انسانی المیے کی سطح پر سنجیدگی سے نہ لیتی۔اور اگر یہ معاملہ،مقامی سے ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پر نہ اچھلتا۔
اس فیکٹری میں جو گارمنٹس بنتے تھے ان کی لگ بھگ ستر فیصد مقدار ایک جرمن کمپنی کے آئی کے ٹیکسٹیلین اٹھاتی تھی۔لہذا یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اس جرمن کمپنی کو علی انٹرپرائیز میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے ابتر معیارات کے بارے میں پیشگی کچھ بھی نہ معلوم ہو۔جب جرمن میڈیا نے اس اسکینڈل کو اٹھانا شروع کیا تو جرمن حکومت کو بھی بیچ میں آنا پڑا اور معاملہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے نوٹس میں بھی آ گیا کہ جس کا جرمنی بھی ایک فعال ممبر ہے۔ چنانچہ صنعتی حادثے میں ہلاک ہونے والے ورثا کی ثابت قدمی اور ملکی و بین الاقوامی تنظیموں کی مدد سے نوبت یہاں تک آ گئی کہ جرمن کمپنی کے آئی کے نے فوری طور پر ایک ملین ڈالر کی ازالہ رقم دی جسے عدالت کے ذریعے لواحقین میں تقسیم کر دیا گیا۔اس کے علاوہ جرمن کمپنی کو پانچ اعشاریہ پندرہ ملین ڈالر کی مزید رقم ادا کرنا پڑی جو اب بلدیہ فیکٹری فائر کے لواحقین و متاثرین کو حکومتِ سندھ کے توسط سے مسلسل پینشن کی صورت میں ملتی رہے گی۔
ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ محض ایک اچھی خبر ہو۔تاہم مجھ جیسوں کے نزدیک بہت عرصے بعد یہ پاکستانی و بین الاقوامی مزدور حقوق تنظیموں اور ہمدرد اداروں کا ایسا اجتماعی کارنامہ ہے جو آیندہ کے ایسے حادثات کے قانونی نپٹارے کے لیے زبردست نظیر بن گیا ہے۔
شائد آپ کو یا آپ کے بزرگوں کو یاد ہو کہ اب سے چونتیس برس پہلے دسمبر انیس سو چوراسی میں بھوپال میں یونین کاربائیڈ کے کیمیکل پلانٹ میں حادثے کے سبب زہریلی کیمیاوی گیس لیک ہو جانے سے ابتدائی طور پر پانچ ہزار اموات ہوئیں۔برس ہا برس کی کوششوں کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کے دباؤ پر یونین کاربائیڈ چار سو ستر ملین ڈالر کا ہرجانہ دینے پر رضامند ہو گئی۔جب حتمی سروے مکمل ہوا تو معلوم اس حادثے کے نتیجے میں پانچ ہزار نہیں بلکہ بائیس ہزار تک اموات ہوئیں جبکہ بھوپال شہر میں کم ازکم ساڑھے چار لاکھ افراد اس گیس کے اثرات سے بلاواسطہ متاثر ہوئے۔اور یہ اثرات وہ آج تک طرح طرح کی بیماریوں اور جسمانی پیچدگیوں کی شکل میں جھیل رہے ہیں۔
یونین کاربائیڈ کو بھوپال سانحے کے سولہ برس بعد ڈاؤ کمپنی نے خرید لیا اور پھر ڈاؤ کمپنی کو ڈوجونز نے خرید لیا۔اب سوال یہ ہے کہ بھوپال المئے کے ہرجانے کی رقم پانچ ہزار کے بجائے بائیس ہزار متاثرین کو دینے کا مطالبہ کس سے کیا جائے۔بھارتی مزدور تنظیمیں کہتی ہیں کہ جو نئی کمپنی کسی پرانی کمپنی کو خریدتی ہے تو اس کمپنی کی ذمے داریاں بھی نئی کمپنی کو منتقل ہو جاتی ہیں۔
مگر یونین کاربائیڈ کو خریدنے والی ڈاؤ اور پھر ڈاؤ کو ضم کرنے والی ڈوجونز کا موقف یہ ہے کہ جب یہ حادثہ ہوا تب ان کا یونین کاربائیڈ سے کوئی لینا دینا نہ تھا اور جب یونین کاربائیڈ نے پانچ ہزار متاثرین کو ازالے کی رقم سپریم کورٹ آف انڈیا کے کہنے پر ادا کردی تو اب ہم کس بات کے مزید پیسے مزید دعوے داروں کو دیں۔ آج چونتیس برس بعد بھی یہ گتھی سلجھنے کے دور دور تک آثار نہیں۔جب تک کارپوریٹ ریسپانسبلٹی کے قوانین کی دیوار میں سے ایسے کیسز کے لیے کوئی کھڑکی نکلے تب تک شائد کوئی بھوپال متاثر وہ دن دیکھنے کے لیے زندہ بھی نہ ہو۔
اس تناظر میں کراچی کی بلدیہ فائر فیکٹری کا جو بین الاقوامی اسٹیلمنٹ ہوا اس کی مثال آیندہ کے بڑے صنعتی حادثوں کے متاثرین کے حق میں ضرور کام آئے گی اور جس جدو جہد کا فائدہ فی الحال محض دو سو اکسٹھ جاں بحق مزدوروں کے لواحقین کو ہوا۔ کون جانے آگے چل کر اس نظیر کی بنیاد پر کتنے اور مظلوموں کو فائدہ پہنچتا ہے۔اس اعتبار سے بلدیہ فیکٹری کے مزدروں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ ثوابِ جاریہ میں بدل گئی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)