حقوق کا حصول جد وجہد سے
امید ہے سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ جن کا تعلق بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے یہ دونوں وعدے ضرور پورے کرلیں گے۔
تھوڑا سا تذکرہ ان محنت کش ساتھیوں کا کرلیں جوکہ سانحہ علی انٹر پرائزز بلدیہ فیکٹری کی نذر 11 ستمبر 2012 کو ہوئے اور آج 11 ستمبر 2018 کو اس سانحہے کو جس میں 260 محنت کش شہید ہوئے تھے ٹھیک چھ برس ہوچکے ہیں۔ گویا اس برس ہم اپنے ان محنت کش ساتھیوں کی چھٹی برسی منا رہے ہیں۔ تفصیلی ذکر اس سانحے کا بہت ہوچکا البتہ آج ہم ارباب اقتدار و صاحب ثروت حضرات کو ان کے وہ وعدے یاد دلانا چاہئیںگے جو اس سانحے کے برپا ہونے کے وقت کیے گئے تھے۔
اول اس وقت کی سندھ کی صوبائی حکومت سے ہم گزارش کریںگے اس وقت کی سندھ حکومت جس کے سربراہ سید قائم علی شاہ نے تین وعدے شہدا کے لواحقین سے کیے تھے کہ ہر ایک متاثرہ خاندان کو ایک مخصوص رقم کے ساتھ ساتھ ہر ایک متاثرہ خاندان کو ایک رہائشی پلاٹ و ہر ایک متاثرہ خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔ البتہ متاثرہ خاندانوں کو وزیراعلیٰ کی جانب سے اعلان کردہ رقم تو مل گئی مگر رہائشی پلاٹ و متاثرہ خاندان کے ایک ایک فرد کو ملازمت دینے کا وعدہ تا حال پورا نہ ہوسکا۔
امید ہے سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ جن کا تعلق بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے یہ دونوں وعدے ضرور پورے کرلیں گے جب کہ ایک نامور سرمایہ کار نے ہر ایک متاثرہ خاندان کو دو دو لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا البتہ ان کی جانب سے اعلان کردہ رقم فقط 170 افراد کو ملی جب کہ 90 متاثرہ خاندان اس امدادی رقم کے حصول کے منتظر ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے یہ رقم متاثرین کو جلد عطا فرمائیں گے جب کہ تمام متاثرین کو دو دو لاکھ روپے کی امدادی رقم کا اعلان سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی کیا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ رقم متاثرین کو ادا کی جائے مگر بعد ازاں وہ برسر اقتدار آنے کے باوجود اپنا وعدہ پورا نہ کر پائے۔
اب عصر حاضر میں سیاسی حالات کے باعث اس وعدے کا ذکر ہی کیا؟ جب کہ اس سانحے میں شدید زخمی ہونے والے لگ بھگ 50 افراد جس کرب سے دو چار ہیں ان کا کہیں ذکر تک نہیں ہوتا۔ بہر کیف سطور بالا میں بیان کردہ تمام حالات و واقعات لمحہ فکریہ ہیں ۔
اب ہم آتے ہیں اس جانب کہ آخر ہمارے سماج کا محنت کش طبقہ اس قدر مسائل سے دو چارکیوں ہے؟ تو کیفیت یہ بنتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے کم و بیش 22 سے 23 برس تک پاکستان کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے حصول کا راستہ اپنائے رکھا اور جد وجہد کرتے رہے۔ اس زمانے میں ٹریڈ یونینز بھی متحرک رہیں اور محنت کش ایک کے بعد ایک سہولت حاصل کرتے رہے محنت کشوں کے باہمی تعاون کا یہ عالم تھا کہ اگر لانڈھی میں کسی فیکٹری یا مل کے محنت کش اپنے کسی مطالبے کے لیے اپنا حق کا استعمال کرتے ہوئے ہڑتال کرتے تو چند گھنٹوں میں لانڈھی کی تمام فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ سائٹ کے علاقے میں بھی تمام صنعتی اداروں کے محنت کش بھی ہڑتال کردیتے یہ گویا لانڈھی کے محنت کشوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی ہوتا۔
1969 تک کیفیت یہ تھی کہ محنت کشوں کی ماہانہ اجرت تھی 69 روپے جب کہ اس زمانے میں فی تولہ سونے کی قیمت تھی 71 روپے یعنی محنت کشوں کی ماہانہ اجرت قریب قریب ایک تولہ سونے کے مساوی تھی 2 روپے کا معمولی فرق بھی ختم کرکے محنت کشوں کو حاصل ہونے والے اجرت ایک تولہ سونے کے مساوی کی جاسکتی تھی مگر اس صورت میں یہ ایک مثال بن جاتی کہ محنت کشوں کی ماہانہ اجرت چونکہ 1969 میں ایک تولہ سونے کے مساوی تھی چنانچہ ہر دور میں محنت کش کی ماہانہ اجرت ایک تولہ سونے کی قیمت کے مساوی رکھی جائے۔ البتہ 1970 کے عام انتخابات میں اور بعد ازاں آج تک کے تمام انتخابات میں محنت کشوں نے سیاسی جد وجہد میں تو حصہ لیا اور سیاست میں ایندھن کے طور پر تو استعمال ہوتے رہے مگر ٹریڈ یونینز میں سرگرمیوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ گزشتہ 45 سالہ تاریخ یہ ہے کہ پاکستان میں محنت کشوں کی کوئی قابل ذکر جد وجہد تحریک کی شکل میں ہمارے سامنے نہیں آئی۔ نتیجہ یہ کہ آج کا محنت کش طبقہ جوکہ عصر حاضر میں عددی اعتبار سے چھ کروڑ اسی لاکھ افراد پر مشتمل ہے گونا گوں مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔
گزشتہ 35 برس سے جو نظام ملک میں نافذ ہے اس نظام کا نام ہے ''ٹھیکیداری نظام'' اس ٹھیکیداری نظام کی یوں تو لاتعداد خرابیاں ہیں جوکہ مزدور دشمن ثابت ہورہی ہے اول اس نظام کے تحت کام کرنے والا چاہے کسی ادارے میں دس بیس برس یا تمام عمر کام کرے وہ اس ادارے میں مستقل ملازم نہیں بلکہ عارضی ملازم ہی تصور کیا جاتا ہے اسی ٹھیکیداری نظام ہی کا کمال ہے کہ اب اگر کسی صنعتی ادارے میں ایک ہزار لوگ ملازمت کرتے ہیں تو بہ مشکل ایک سو پچاس مستقل ملازم ہوتے ہیں دیگر آٹھ سو پچاس عارضی ملازمت کرتے ہیں اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اسی صنعتی ادارے سے وابستہ کوئی فرد جوکہ ادارے کا ملازم ہوتا ہے ان عارضی ملازمت کرنے والوں سے کام لیتا ہے اور خود کو ٹھیکیدار ظاہر کرتا ہے۔
گویا اس صورتحال میں مستقل ملازمت کرنے والوں کی اوسط بنتی ہے۔ 15 فی صد ۔ غیر مستقل یا عارضی ملازمت کرنے والوں کی اوسط بنتی ہے 85 فی صد ۔ جبکہ دوسری خرابی اس نظام کی یہ ہے کہ اس نظام میں کام کرنے والا ملازمت گویا اجرتی غلام ہوتا ہے جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ خود کو قلیل ترین اجرت کے عوض اس ادارے کے سپرد کردیتا ہے۔ عصر حاضر میں اس قسم کے ملازمین ماہانہ اجرت بھی بہ مشکل 10 سے 12 ہزار روپے ملتی ہے جبکہ حکومت کی اعلان کردہ اجرت بھی فقط 12 سے 15 افراد کو ہی حاصل ہوتی ہے تیسری خرابی ٹھیکیداری نظام کی یہ ہے کہ یہ عارضی ملازم حفاظتی سہولیات سے محروم ہونے کے باعث اکثر حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ان حادثات میں ان کی قیمتی جانوں کا ضیاع کبھی اجتماعی شکل میں اور کبھی انفرادی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔
جیسے کہ سانحہ علی انٹر پرائزز لاہورکی مثالیں ہماری پیش نظر ہیں۔ بہر کیفیت اس ٹھیکیداری نظام کی خرابیاں تو محدود ہیں جنھیں اس مختصر کالم میں بیان کرنا ناممکنات میں سے ہے البتہ یہ ضرور عرض کریںگے محنت کشوں نے جو حقوق اپنی جد وجہد سے 1970 حاصل کیے تھے آج وہ ان حقوق سے محروم ہوچکے ہیں۔ آج ضرورت ایک بھرپور تحریک کی جس کے ذریعے محنت کش اپنے حقوق حاصل کرسکیں آخر میں شہدا بلدیہ فیکٹری علی انٹرپرائزز کو خراج عقیدت اس عہد کے ساتھ کہ جد وجہد جاری رہے گی۔ محنت کشوں کے تمام حقوق کے حصول تک یقین ہے آخری فتح محنت کشوں کی ہوگی۔