بابا گرو نانک اور امن کی آشا
ہم خوش نصیب ہیں کہ اُس جوت کی پہلی کرن شیخوپورہ سے پھوٹی تھی۔
دو انتہاؤں کے درمیان ایک ایسا راستہ بھی موجود ہوتا ہے جو نظر آنے کے باوجود استعمال نہیں کیا جاتا اور اسی کش مکش میں زندگی گزر جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کا بھی یہی حال ہے جس کے دو انتہائی راستوں پر سفرکرتے ہوئے دونوں اطراف کی حکومتوں کوآدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے مگر وہ جب بھی درمیانی راستہ اختیارکرنا چاہتی ہیں کوئی نہ کوئی ان دیکھی طاقت انھیں دوبارہ پرانے راستوں پر دھکیل دیتی ہے۔
محبت اور دوستی کے درمیانی راستے پر جہاں زبان وادب کی چاشنی اور ثقافتی ہم آہنگی موجود ہے، وہاں باہمی عقیدے سے جڑے ہزاروں دروازے بھی اپنے چاہنے والوں کی حاضری کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس راستے پر چلنے والے امن پسندوں کے پیر ہمیشہ جھوٹے الزامات کے کانٹوں سے لہولہان ہوتے رہے۔
مرحوم ضیا ء الحق کے زمانے میں پاک بھارت تعلقات جس سرد مہری کا شکار تھے ،اسے نہ توکرکٹ ڈپلومیسی بہتر بنا سکی اور نہ ہی شتروگھن سنہا کے لا تعداد پھیروں اور ضیا الحق کے خاندانی تعلقات کی وجہ سے ان میں کوئی تبدیلی آئی۔ اُس زمانے میں پاکستان کے بے شمار دوروں پر نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ بھارت میں بھی شترو سنہا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر ان کے مثبت بیانات دونوں ممالک کے امن پسندوںکے لیے ہمیشہ سہارا بنتے رہے۔
1999 ء میں دلیپ کمار پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ '' نشان امتیاز'' وصول کرنے کے لیے پاکستان آئے تو دونوں ممالک میں ان کی مخالفت کی گئی یہاں تک کے ممبئی میں ہندو انتہا پسندوں نے مظاہروں کے دوران انھیں پاکستانی ایجنٹ تک کہہ دیا مگر ان کی زبان پر بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری کے کلمات اور دل میں امن و محبت کا سمندر موجزن رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بلراج ساہنی ، دیو آنند ، نصرت فتح علی خان، اوم پوری، نصیر الدین شاہ ، مہدی حسن، نور جہاں اور موسیقی و اداکاری کے شعبے سے جڑے کئی دوسرے اہم نام دونوں ملکوں کے درمیان امن کے سفیر بن کرآتے جاتے رہے اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادیب وشاعر اور سماجی کارکن بھی اس درمیانی راستے پر چلنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے جس پر سفر کرتے ہوئے انھیں ملک دشمنی کے ہزاروںالزامات برداشت کرنا پڑے ۔
پنجابی زبان و ادب کے معروف دانشور اور محقق محمد آصف خان مرحوم نے آج سے بیس برس قبل '' آکھیا بابا نانک نے '' کے عنوان سے پنجابی ادبی بورڈ کے پلیٹ فارم سے بابا گرو نانک کے اشلوکوں کی ایک کتاب چھاپی تو اس کے دیباچے میں لکھا کہ'' رگ وید پنجاب میں لکھا اور ایڈٹ کیا گیا جس میں پنجاب کی سماجی اور سیاسی تاریخ کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ پنجاب کی تاریخ لکھتے وقت اسے آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا۔ بدنصیبی سے ہندوؤں نے اسے اپنی مذہبی کتاب مان لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے اسے پڑھنا گناہ سمجھ لیا ۔ بابا نانک پنجاب میں پلے بڑھے، ہندوؤں کے بہت سارے دیوتاؤں کو رد کیا اورخدا کی وحدت کے گیت گائے۔ یہاںبھی ہمارے ساتھ ایک ظلم ہوا کہ جب سکھوں نے انھیں اپنا مذہبی رہنما اورگرو تسلیم کر لیا تو وہ بھی ہمارے لیے اجنبی اور غیر ہو گئے۔''
آصف خان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب کوئی ہماری کسی چیز پر قبضہ کر لے تو ہم مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر ہندوؤں نے رگ وید اور سکھوں نے بابا نانک پر قبضہ کر لیا تو کیا ہوا۔ ہمیں اپنے ورثے کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے اور ان کی اتنی ہی عزت کرنی چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔
جس طرح اس خطے کے اربوں انسان زبان و ثقافت اور رسم و رواج کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں وہاںسرحد کے آرپار ان کے عقائد سے جڑے ایسے کئی روحانی مراکز بھی موجود ہیں جو وقت کے گرم و سرد اور سیاسی اختلافات کے باوجود انھیں آنے جانے کی خواہش سے نہیں بچا سکتے ۔ اس خواہش میں بابا گرو نانک کی تعلیمات اور شخصیت کا وہ معجزہ بھی شامل ہے جو عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اس وقت سامنے آیا جب بھارتی شو بز کے مشہور نام اور کرکٹ کے معروف کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھوبابا نانک کے صوفیانہ کلام اور روحانی جذبے کا سہارا لے کر ''ست سری اکال'' کہتے ہوئے لاہور کے راستے پاکستان کی راج دھانی اسلام آباد پہنچے اور اس خطے کی اہم فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے ووٹروںکے لیے وہ دن یقینا خوشی کا دن تھا کہ ان کی خواہش سے منتخب ہونے والا وزیر اعظم ملک کی باگ ڈور سنبھال رہا تھا مگر برصغیر کے اربوں امن پسندوں کے لیے شاید یہ اُس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تھا کہ اس موقعے پر تعلقات کے سرد راستوں پر جمی برف کو پگھلانے کے لیے جو دیا روشن کیا جارہا تھا مستقبل میں وہ ترقی اور خوش حالی کا الاؤ بن کر پورے ساؤتھ ایشیا ء کو روشن کرنے کی امید بن رہا تھا ۔ جس طرح سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے دنیا کے کروڑوں افراد بابا گرو نانک کی عظمت کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہیں بالکل اسی طرح اس خطے کے کروڑوں مسلمان بھی ان کے صوفیانہ کلام اور درویشانہ زندگی سے انتہائی عقیدت رکھتے ہیں اس لیے کہ ان کا کلام انسانی خون بہانے کے بجائے اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کا درس دیتا ہے۔ بابا جی کا کہنا ہے۔
جے رت لگے کپڑے جامہ ہوئے پلیت
جو رت پیوے مانساں تِن کیو نِرمل چیت
(اگر خون کا داغ لگنے سے لباس ناپاک ہو جاتا ہے تو وہ انسان صاف دل دماغ کا مالک کیسے ہو سکتا ہے جو انسانوں کا خون پیتا ہے۔)
نوجوت سنگھ سدھو امن کی جس جوت کے سہارے سرحد کے اس پار آئے تھے اس کی روشنی سرحد کی اُس طرف کے اندھیروں کو بھی منورکیے ہوئے ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اُس جوت کی پہلی کرن شیخوپورہ سے پھوٹی تھی۔ گرونانک کے نام سے کروڑوں دلوں میں رہنے والی اس جوت کا کمال یہ ہے کہ اس کی روشنی دونوں ممالک کے کے کروڑوں گھروں میں عقیدت و محبت کا باعث بنی ہوئی ہے اس کے باوجود پچھلے اکہتر برسوں سے اس کے درمیان چار کلو میٹر کی دوری حائل تھی ۔
اس دوری کو ختم کرنے کے لیے نوجوت سنگھ سدھو اور جنرل باجوہ نے جس طرح ایک دوسرے کو گلے لگایا برصغیر کے کروڑوں افراد بھی بالکل اسی طرح ایک دوسرے کے گلے لگنا چاہتے ہیں ۔کاش سرحد کی دوسری طرف سے بھی ایسے ہی کسی بیان کی تیاری کی جا رہی ہو جو اس خطے کو جنگ کے گڑھے میں دھکیلنے کے بجائے باہمی تجارت، سیاحت اورامن و امان کی ضمانت بن جائے۔