ہفتے کی چھٹی برقرار کیوں
نئے پاکستان کے دعویداروں کو اقتدار میں آتے ہی ہفتے کی چھٹی فوری ختم کردینی چاہیے تھی مگر برقرار رکھی گئی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 2011 سے جاری ہفتے کی سرکاری چھٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ محکمہ داخلہ کی سفارش پرکیا گیا، جنھوں نے ہفتے کے دن کی سرکاری تعطیل ختم کرنے کی تجویزکی مخالفت کی ۔کابینہ کے اس فیصلے سے صرف سرکاری ملازمین ہی خوش ہوئے کیونکہ ان کی آرام پسندی برقرار رہی جبکہ باقی سب لوگ عمران خان کے اس فیصلے سے مایوس ہوئے ، جو ان کے کام اور صرف کام کے وژن پر یقین رکھتے تھے اور وہ پر امید تھے کہ ہفتے کے دن کی سرکاری تعطیل ختم ہونے سے عوام کے کاموں کے حل میں مدد ملے گی اور سرکاری دفاتر کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا اور سرکاری دفاتر میں ہر ہفتے دو چھٹیاں ہو رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں گی مگر ایسا نہیں ہوا۔
کابینہ نے عمران خان کے پاس موجود محکمہ داخلہ کی سفارش تسلیم کی اور بیورو کریسی نے ثابت کردیا کہ وہ فعال اور کام اور صرف کام پر یقین رکھنے والے وزیر اعظم عمران خان پر بھی اثرانداز ہونے اور اپنی منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا ثبوت ہفتے کی چھٹی برقرار رہنا ہے۔
پیپلز پارٹی کی گیلانی حکومت نے 2011 میں ہفتے کے دن کی چھٹی اس وجہ سے شروع کی تھی کہ اس وقت ملک میں بجلی کا شدید بحران اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ تھی ، جس کے بعد یہ غلط فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس طرح بجلی کی بچت ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ مزید غلطی یہ کی گئی کہ گھڑیاں ایک گھنٹے آگے کی گئیں کہ دن کی روشنی کو زیادہ استعمال کیا جاسکے مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ لاتعداد ٹی وی چینلز اور اسمارٹ فونز کے باعث راتوں کو دیر تک جاگنے والی قوم دیر سے اٹھنے کی عادی ہوچکی تھی جس پر اس حکومتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ سرکاری اور نجی ملازموں کی تو جلدی اٹھنے کی مجبوری ہے مگر صنعتکار، تاجر، عام دکاندار بڑے شہروں میں اپنا ذاتی کاروبار جلد شروع کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
بڑی مارکیٹیں اور اہم بازار گیارہ بارہ بجے کے درمیان کھلنا معمول بنے ہوئے ہیں چھوٹے شہروں میں ایسا نہیں ہے وہاں صبح سویرے کاروبار شروع کرنے کو برکت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں گوشت اور دودھ دس گیارہ بجے صبح کے بعد نہیں ملتا تھا جبکہ بڑے شہروں میں یہ اشیا 24 گھنٹے ملتی ہیں۔ میڈیکل اسٹور رات دو تین بجے تک کھلتے ہیں اور لوگ رات نو بجے کے خبرنامے کے بعد ہی فارغ ہوکر ناشتے کا سامان، دوائیں اور ضروری اشیا خریدنے نکلتے ہیں۔ سندھ و پنجاب کی حکومتوں نے بجلی بچانے کے لیے مارکیٹیں جلد کھلوانے اور رات کو جلد بند کروانے کی متعدد کوششیں کیں مگر ناکام ہوئیں اور اپنے فیصلوں پر عمل نہ کرا سکیں۔ حکومت نے ہفتے میں دو چھٹیاں کرکے بجلی بچانے کی ناکام کوشش کی مگر کچھ نہ ہوسکا۔ ڈیوٹیوں کے اوقات اکثر 8 گھنٹے مقرر ہیں مگر عمل کم ہے۔
پیر سے جمعرات اگر آٹھ گھنٹے سرکاری دفتر کھلتے ہیں اور جمعہ کو تین چار گھنٹے بعد بند ہوجاتے تو آٹھ گھنٹے ڈیوٹی نصف رہ جاتی ہے تو ہفتے میں چالیس گھنٹے کام کب ہو رہا ہے۔ دن کی روشنی میں سرکاری دفاتر میں صبح سے ہی پنکھے اور اے سی آن ہوجاتے ہیں اور تمام لائٹس غیر ضروری طور پر آن کر دی جاتی ہیں ۔
قاصد حضرات اپنے اپنے صاحبان کے حکم پر صبح ہی اے سی آن کردیتے ہیں تاکہ اے سی کاروں میں سفر کرکے آنے والے افسروں کو گرمی نہ لگے اور انھیں دفتر آتے ہی ٹھنڈے کمروں میں سکون ملے۔ صبح 11 بجے سے پہلے سرکاری دفاتر میں اے سی کیوں چلتے ہیں، اے سی کا استحقاق نہ رکھنے والے افسروں نے رشوت کے پیسوں سے اپنے دفتروں میں اے سی کیوں لگا رکھے ہیں یہ ان سے حکومت نہیں پوچھتی اور بڑھتے ہوئے بجلی کے بل حکومتی افسران ترجیحی بنیاد پر جمع کراتے ہیں پھر بھی ہر محکمہ بجلی فراہم کرنے والوں کا مقروض ہے ۔
سرکاری دفاتر میں بجلی کے کم استعمال یا رقم مقررکرنے کی بجائے سرکاری دفاتر ہفتے میں دو روز بند کرکے بجلی بچانے کی ناکام کوشش تو ہوئی مگر حکومت نے یہ نہیں دیکھا کہ ایک روز کی سرکاری چھٹی سے عوام کتنے پریشان ہوتے ہیں۔ عدالتیں ہفتے کے دن چھٹی نہیں کرتیں مگر پھر بھی عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے تو دیگر سرکاری دفاتر میں لوگوں کے مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
سرکاری ملازمتیں عوام کی خدمت کے لیے نہیں رشوت کے حصول، کام کرنے کی بجائے آرام اور گپیں لگانے، صاحبوں کے نام نہاداجلاسوں، سیاسی اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے اور آخر میں پنشن کے حصول کے لیے رشوت دے کرحاصل کی جاتی ہیں اور رشوت سود سمیت عوام سے وصول کی جاتی ہے۔ ہفتے کی دو چھٹیوں کے بعد عوامی معاملات التوا کا شکار ہیں جس سے نہ بجلی کی بچت ہوئی نہ عوام کے مسائل جلد حل ہوئے بلکہ بڑھتے ہی چلے گئے اور سرکاری دفاتر میں فائلوں کے انبار مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔
نئے پاکستان کے دعویداروں کو اقتدار میں آتے ہی ہفتے کی چھٹی فوری ختم کردینی چاہیے تھی مگر برقرار رکھی گئی ہے۔ ٹی وی چینلز میں چھٹی کا تصور نہیں ۔ اخبارات ہفتے میں کوئی چھٹی نہیں کرتے۔ کاروبار روز ہو رہا ہے تو ہفتے کی چھٹی برقرار رہنے کا کیا جواز اور وزارت داخلہ کو اعتراض کیوں ہے؟