’قائداعظم‘ ایک فرد ایک راہ نما

وہ دیانت، جرأت اور عزم کا پیکر تھے۔


مبین مرزا September 11, 2018
وہ دیانت، جرأت اور عزم کا پیکر تھے۔ فوٹو: فائل

ہر بڑے آدمی کی طرح قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے بھی متعدد پہلو تھے، وہ ایک کام یاب وکیل تھے، ایک بڑے سیاست داں، ایک بااثر سماجی راہ نما اور ایک نہایت باشعور سربراہِ ملک و ملت بھی۔

یہی نہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔ مثال کے طور پر حقوقِ آدمیت اور انسانی آزادی و خودمختاری کے سچے علم بردار تھے، جمہوری اقدار اور اصولِ مساوات کے ان تھک مبلغ و داعی بھی۔ ان کی شخصیت کے یہ سارے پہلو آپس میں اس طرح پیوست اور ہم آہنگ تھے کہ ایک وحدت میں ڈھل گئے تھے۔

یہی وحدت وہ شے تھی کہ جس نے انھیں ایک بلند قامت شخصیت کے طور پر ابھارا تھا۔ بیس ویں صدی میں برِصغیر پاک و ہند کے سماجی و سیاسی منظرنامے پر جو بلندپایہ شخصیات نمایاں ہوئیں اُن میں محمد علی جناح ممتاز ترین حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں۔

دیانت داری، جرأت مندی، عزمِ صمیم، خلوص اور انسان دوستی محمد علی جناح کے کردار کے وہ بنیادی حوالے تھے جن سے اُن کی شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی۔ قدرت نے انھیں ذہنوں کو متأثر کرنے اور دلوں میں گھر بنانے کی ایسی غیرمعمولی صلاحیت دی تھی کہ جس کی مثال کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

اس کا اندازہ مسلمانانِ ہند کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں درج واقعات سے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ وہ اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جس کا عام لوگوں سے بہت زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔ عوام، یعنی محنت کش، کسان، مزدور اور پس ماندہ طبقے کے بارے میں اشرافیہ کے یہ افراد عام طور سے کچھ زیادہ آگاہ نہیں ہوتے۔

اُن کے روزمرہ حالات، مسائل، رجحانات اور رویوں کے بارے میں وہ بڑی حد تک بے خبر ہوتے ہیں۔ جناح صاحب جب تک سیاست میں نہیں آئے تھے، وہ بھی اپنے طبقے کے دوسرے لوگوں ہی کی طرح تھے، لیکن 1906ء میں، یعنی لگ بھگ تیس برس کی عمر میں انھوں نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو اُن کا ذہن اپنے کام اور اس کے عوامی اثرات کے حوالے سے بالکل صاف تھا۔ وہ جانتے تھے کہ سیاست صرف اقتدار کی دوڑ یا اُس کے حصول کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے عوام کی رہنمائی، قومی شعور کی بیداری اور عوامی زندگی کو بدلنا اور اجتماعی حالات میں بہتری لانا ہی سیاسی رہنما کی اصل ذمہ داری ہے۔

جناح صاحب کے مزاج کا یہی پہلو اور سوچ کا یہی زاویہ تھا جس نے اُن کی اپنی زندگی کا دھارا بدلا اور اُن کے سیاسی کردار کو ایک رُخ عطا کیا۔ یہ تبدیلی اتنی اہم اور گہری تھی کہ اُن کی شخصیت اس کے زیرِاثر سیاست کے افق پر نئے انداز سے طلوع ہوئی۔ اُن کی سچائی اور خلوص کی طاقت نے اُن کے کردار کو اس طرح ابھارا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز بنتے چلے گئے۔

حالاںکہ وہ ان جیسا لباس نہیں پہنتے تھے اور نہ ہی ان کی زبان بولتے تھے۔ اُن کے زندگی گزارنے کا طور طریقہ بھی بالکل الگ تھا، لیکن اس کے باوجود لوگ اُن پر اعتبار کرتے اور ان کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان پر عوام کے اعتبار کی جو مثالیں تحریکِ پاکستان میں شریک رہنے اور انھیں قریب سے دیکھنے والے لوگوں نے تاریخ کے اوراق میں ریکارڈ کی ہیں، وہ قابلِ رشک ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ ایک مثالی سیاسی رہنما کیسا ہوتا ہے اور قوم کے قائد کی حیثیت اسے کس طرح ملتی ہے۔ کس طرح لوگ اس سے اپنا رشتہ استوار کرتے ہیں اور اسے کیا مقام دیتے ہیں۔

سیّد حسن ریاض، سرفراز حسین مرزا، جی الانہ، عاشق حسین بٹالوی، پروفیسر شریف المجاہد جیسے ہمارے اپنے مصنّفین ہی نہیں، بلکہ اسٹینلے والپرٹ جیسے غیرملکی محقق و مصنف بھی قائداعظم کی شخصیت کے عوامی اثر و رسوخ کا جو حال بیان کرتے ہیں وہ عوام میں ان کی اثر پذیری اور ہر دل عزیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جناح صاحب نے محض چند ایک مواقع پر ہی عوام سے اردو میں کچھ گفتگو کی ہے، ورنہ وہ عام طور سے انگریزی میں ہی خطاب کیا کرتے تھے۔

ایک موقع پر جب پولیس والے جلسہ گاہ میں موجود خوانچے اور ٹھیلے والوں کو ایک طرف کررہی تھی تو ایک غریب خوانچے والا جسے کئی بار اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کرکے پریشان کیا گیا تھا، تنک کر پولیس والے کے سامنے کھڑا ہوگیا اور بولا، اب ستاؤ گے تو جناح صاحب سے جاکر تمھاری شکایت کردوں گا اور وہ تمھیں ٹھیک کردیں گے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک اَن پڑھ اور بے نوا آدمی اپنے سیاسی لیڈر پر کس طرح اعتماد رکھتا تھا اور اُسے کس قدر یقین تھا کہ وہ نہ صرف اپنے قائد تک کسی بھی وقت پہنچ سکتا ہے، بلکہ وہ اس کی شکایت پر توجہ دیں گے اور اس کے ازالے کے لیے اقدام بھی کریں گے۔

اسی طرح جناح صاحب کے جلسے میں ایک بار کوئی ٹھیلے والا بڑے انہماک سے کھڑا ہوا ان کی تقریر سن رہا تھا۔ جناح صاحب حسبِ معمول انگریزی میں بات کررہے تھے۔ جی الانہ اس جلسے میں موجود تھے۔ انھوں نے اس شخص کو یوں متوجہ دیکھا تو اس کے پاس گئے اور پوچھا، کیا تم انگریزی سمجھ لیتے ہو؟ اس شخص نے بڑے اطمینان سے نفی میں گردن ہلائی تو انھوں نے پوچھا کہ پھر تم اتنی توجہ سے کیا سن رہے ہو؟

اس نے پورے تیقن سے جواب دیا کہ مجھے ان کی زبان تو نہیں سمجھ آرہی، لیکن یہ ضرور سمجھ آرہا ہے کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں۔ عوام کا یہی اعتبار و اعتماد تھا جس نے بہت جلد جناح صاحب کو جنوبی ایشیا کی ایک بڑی آبادی کا سب سے بڑا سیاسی راہ نما بنادیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جناح صاحب نے عوام کے اس اعتبار کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے ایک نہایت ذمہ دار، دیانت دار، بے باک، ان تھک اور مخلص قائد کا کردار ساری زندگی مثالی انداز سے ادا کیا۔

جس دور میں ہندوستان کی سیاست میں جناح صاحب نے قدم رکھا، اُس وقت گاندھی، نہرو، دادا بھائی نوروجی، سبھاش چندر بوش جیسے لوگ نہ صرف سیاسی میدان میں موجود تھے، بلکہ سیاست اور عوام دونوں میں اپنی اپنی جگہ بنا چکے تھے۔

یہ سب راہ نما متحد ہندوستان کے داعی تھے اور ملک کی اکثریت کے نمائندے۔ علاوہ ازیں وہ انگریز حکم راں طبقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے اور اُن کی سرپرستی بھی انھیں پوری طرح حاصل تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کانگریس سے کیا تھا۔ اُس دور میں اپنی جماعت ہی کی طرح وہ بھی متحدہ ہندوستان کے حامی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ انگریز استعمار سے چھٹکارا پاکر مسلمان قوم اپنی اکثریتی آبادی، یعنی ہندوؤں کے ساتھ باہم اتفاق اور امن کے ساتھ مساوی حقوق حاصل کرکے ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ اس کا اظہار انھوں نے اس زمانے میں نہ صرف کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا، بلکہ ذاتی سطح پر بھی وہ ان خیالات کو نجی محفلوں میں پیش کیا کرتے تھے۔

اس دور میں وہ ایک آزاد خیال سیاسی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ تاہم آزادیِ فکر، دیانت داری، گفتگو کے متأثر کن انداز، مدلل طرزِبیاں، حاضرجوابی اور بحث و تمحیص کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے وہ جلد ہی ان لوگوں میں شمار ہونے لگے تھے جنھیں خاص احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ 1910ء میں پہلی بار بمبئی سے امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اُن کے سیاسی کردار کی جرأت اور سچائی کا اظہار اسی دور سے ہونے لگا تھا۔ اپنی پہلی مجلسِ قانون ساز کی رکنیت کے زمانے میں جنوبی افریقا میں ہندوستانیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرانسانی سلوک کے خلاف جب ایک رکن کی طرف سے قرارداد جمع کروائی گئی تو محمد علی جناح نے اس کے حق میں ایک زوردار تقریر کی اور اُس سفاکانہ رویے کی سخت ترین لفظوں میں مذمت کی۔

جناح صاحب کا لہجہ اس قدر سخت اور مذمت کے الفاظ ایسے تند و تیز تھے کہ وائسرائے ہند لارڈ منٹو نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ''وہ آدابِ مجلس کا لحاظ کرتے ہوئے الفاظ استعمال کریں۔'' جناح صاحب نے بڑی قطعیت سے جواب دیا کہ ''میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ میں اس سے بھی زیادہ درشت الفاظ میں مذمت کروں، لیکن میں اس ایوان کی ہیئتِ ترکیبی سے بخوبی واقف ہوں اور اس کے حدود سے قطعاً تجاوز نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے باوجود میں اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہوں گا کہ جو سلوک ہندوستانیوں سے روا رکھا جاتا ہے، وہ اس درجہ ظالمانہ ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جیسا کہ میں اسے پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس صورتِ حال پر پورے ملک کے احساسات یکساں ہیں۔

یہی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ پوری سیاسی زندگی میں اُن کی جرأت اور سچائی کے واقعات بار بار سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1919ء میں رولٹ کمیٹی کی سفارشات پر جو بل مجلسِ قانون ساز میں پیش کیا گیا وہ قانونِ فوجداری (ہنگامی اختیارات) کے تحت حکومت کو جو طاقت و اختیار دینا تجویز کرتا تھا، جناح صاحب اس کے خلاف تھے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جو حق دیا جارہا ہے، وہ بنیادی انسانی حق کی نفی کے مترادف ہے، اور اس کی بنیاد پر حکومت اس ملک کے لوگوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کی آزادی حاصل کرلیں گے۔ چناںچہ انھوں نے مجلسِ قانون ساز میں اس کی بھرپور مخالفت کی تھی۔

ایوان کے دوسرے اراکین کو بھی اس سے حوصلہ ملا اور بل کے خلاف بھرپور ردِعمل سامنے آیا۔ وائسرائے نے اس کے باوجود صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بل کی منظوری دے دی۔ جناح صاحب نے اس پر نہایت سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اس بل کی منظوری دی گئی ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ امپیریل لیجسلیٹیو کونسل صرف نام کی حد تک ایک قانون ساز ادارہ ہے، ورنہ اصل میں یہ ایک ایسی مشین ہے جو ایک غیرملکی ایگزیکٹیو کے ہاتھ کے اشارے پر چلتی ہے۔ اس بل کی منظوری سے انصاف کے اصولوں کی نفی کی گئی ہے اور آئینی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ صرف یہی کہنے پر انھوں نے اکتفا نہیں کیا، بلکہ عملاً احتجاج کرتے ہوئے مجلسِ قانون ساز کی رکنیت سے استعفیٰ بھی دے دیا۔

ابتدا میں محمد علی جناح مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین سیاسی اتحاد کے علم بردار تھے۔ اس کے لیے انھوں نے عملی کردار ادا کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو قریب لانے کی کوششیں بھی کیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان سفارت کا کردار بھی ادا کیا، لیکن اُن کی آزاد خیالی اور متحد ہندوستان کا نظریہ اُس وقت خود اُن کی نظروں میں سوالیہ نشان بن گیا جب انھوں نے کانگریس کو ہندو قومیت کے مفادات کا اسیر دیکھا۔

آنے والے برسوں نے ان کے تأثر کو اُس وقت مزید تقویت پہنچائی جب انھوں نے سیاست میں تشدد اور دہشت پسندی کے عناصر کو بڑھتے ہوئے دیکھا۔ ان حالات نے جناح صاحب کو اس درجہ مایوس کیا کہ انھوں نے وقتی طور پر خود کو سیاست سے الگ کرلیا۔ 1921-23ء تک کے عرصے میں وہ ہندوستان کی سیاست سے لاتعلق رہے۔ 1924ء کے انتخابات میں انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور کام یاب ہوئے۔

تاہم انھوں نے ہندوستان کے سیاسی منظرنامے میں مسلمانوں کے لیے خراب ہوتے ہوئے حالات کا اچھی طرح اندازہ لگا لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے مئی 1924ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس اس خواہش کے ساتھ طلب کیا کہ اُسے ایک زندہ اور منظم سیاست جماعت بنایا جائے۔ اس کے باوجود اُس دور تک بھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ قومیت کی سیاست نے ہندوستان میں بدامنی اور فسادات کو جو ہوا دی تھی، اس کو ختم کیے بغیر انگریز استعمار سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ چناںچہ انھوں نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع اور متحرک کرنے کی کوششیں کیں وہیں دوسری طرف ہندوستان کے دو بڑے عوامی گروہوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں میں مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کی تگ و دو بھی جاری رکھی۔

اس زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی نئی تجاویز مرتب کی گئیں۔ دونوں جماعتوں کی سیاسی شخصیات کی ملاقاتیں ہوئیں اور بار بار ہوئیں۔ محمد علی جناح کی نگاہوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح طور پر آگئی تھی کہ سیاست میں نیشنلسٹ نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن اُن کے لیے اصل کام اب یہ ہے کہ وہ مسلم مفادات کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت کریں۔ اُدھر ہندو قومیت اپنی عددی برتری اور اکثریتی قوت کی وجہ سے مصالحت کا رویہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ حالات اور حقائق جناح صاحب کو بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور قومی تغیرات کا نقشہ تو بے شک دکھا رہے تھے، لیکن وہ یہ بھی بخوبی سمجھ رہے تھے کہ مسلمان اکیلے ہوکر استعمار سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔

ہندو مسلم اتحاد وقت کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1931ء میں بھی یہ کہا کہ میں پہلے ہندوستانی ہوں اور پھر مسلمان ہوں، لیکن ساتھ ساتھ اس پر بھی زور دیا کہ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بھی ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کو نظرانداز کرکے اپنے ملک کی خدمت نہیں کرسکتا۔ جناح صاحب کی ساری کوششوں اور مصالحتی رویے کے باوجود ہندو مسلم تعلقات میں بہتری ظاہر ہونا تو کجا حالات مزید خرابی کی طرف ہی بڑھتے رہے۔ اگر وقتی طور پر کبھی بہتری یا مصالحت کا اظہار ہوا تو وہ بھی جلد ہی خام خیالی ثابت ہوا۔

1937ء کے انتخابات اس اتحاد کی کوششوں کے لیے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئے۔ ان انتخابات میں کانگریس نے حصہ تو مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ کے ساتھ ہم آہنگی اور رواداری کی فضا بناتے ہوئے مل کر لیا تھا، لیکن انتخابات کے نتائج میں اپنی برتری کو دیکھ کر اُس نے جس طرح رویہ تبدیل کیا اور جیسے وہ پہلے مخلوط حکومت سے انکاری ہوئی اور پھر مسلم اقلیت کا جس طرح استحصال کیا اس صورتِ حال نے جناح صاحب کو حتمی طور پر اس نتیجے تک پہنچا دیا کہ مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے ساتھ متحد ہندوستان میں مساوی حقوق تو بہت دور کی بات ہے، بنیادی حقوق بھی آسانی سے نہیں مل سکتے۔

یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ ہر طرح کے تذبذب، ضرورت اور مصلحت سے آزاد ہوکر اس نتیجے پر پہنچے کہ حالات اور حقائق، واقعات اور تجربات، نظریات اور تصورات جس زاویے سے بھی دیکھا جائے مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان میں کسی وقتی ضرورت کے لیے تو مفاہمت ہوسکتی ہے، لیکن مستقل طور پر وہ مساوی حقوق کے ساتھ ہرگز اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ چناںچہ فیصلہ کن طور پر یہ طے کرنے کے بعد جناح صاحب کی ساری توجہ مسلمانوں کی آزادی، اُن کے حقوق اور مفادات پر مرکوز ہوگئی اس کے بعد انھوں نے واضح طور پر آزاد ریاست کے حصول کی جدوجہد کو اپنا مطمحِ نظر بنالیا۔

بعد ازاں جناح صاحب نہ صرف یہ کہ ہندو مسلم اتحاد کے تصور سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوگئے، بلکہ انھوں نے کھل کر کانگریس کے غیرجمہوری اور غیراخلاقی رویے کو ہر موقع پر ہدفِ تنقید بنایا۔ انھوں نے علی الاعلان کہا کہ کانگریس کا فسطائی رویہ ہی دراصل ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کا ذمے دار ہے۔ ایک ذمے دار اور مخلص راہ نما کی حیثیت سے وہ مسلسل اپنے عوام کی صورتِ حال سے ہر ممکن باخبر رہنا ضروری سمجھتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ وہ 1937ء کے انتخابات کے بعد ہندو اکثریتی صوبوں میں جہاں کانگریس کی حکومت تھی، وہاں کی مسلمان آبادی کو درپیش مسائل اور قدم قدم پر پیش آنے والی تکلیفوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے انھوں نے عوامی جلسوں ہی میں نہیں، بلکہ انگریز حکمرانوں اور ہندو رہنماؤں سے اپنے تبادلۂ خیالات اور خطوط میں بھی واشگاف الفاظ میں یہ شکایت کی کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ انگریز حکومت میں جو سلوک ہندوستانیوں کے ساتھ ہوتا تھا، ہندو حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ اس سے بدتر سلوک کیا گیا۔

1939ء میں دوسری جنگِ عظیم جاری تھی جب ملکۂ برطانیہ کی ایما پر وائسرائے ہند نے ہندوستان کی طرف سے اتحادی فوجوں کے ساتھ جنگ میں شمولیت کا اعلان کیا تو ہندوستان کے سیاست دانوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اور اس کے خلاف بیانات دیے۔ کانگریس کی صوبائی وزارتیں احتجاجاً مستعفی ہوگئیں۔ دیکھا جائے تو مسلمانانِ ہند کے حق میں یہ اصل میں قدرت کا انتظام تھا۔ کانگریس کے حکومت سے علاحدہ ہونے کے نتیجے میں مسلمان آبادی کی تنگی اور تکلیف کے دن ختم ہوئے۔

اس موقعے پر (22 دسمبر 1939ء کو) کانگریس راج کے خاتمے پر مسلمانوں نے ''یومِ نجات'' منایا کہ انھیں ظلم، تشدد اور ناانصافیوں سے چھٹکارا ملا۔ جناح صاحب کے اس اعلان پر برِصغیر کے مسلمانوں نے جس جوش و خروش سے لبیک کہا تھا اُس سے برِصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں کی طاقت کا وہ شان دار مظاہرہ ہوا جس نے انگریز استعمار کو اُن کی جداگانہ سیاسی حیثیت پر سوچنے پر مجبور کیا، اور انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ اتنی بڑی مسلمان آبادی کا حقیقی معنوں میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بااثر قومی راہ نما محمد علی جناح ہے۔

اس کے بعد پاکستان کے آزاد مملکت کے قیام کا مطالبہ نہ صرف شدت اختیار کرگیا، بلکہ ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے جناح صاحب کی قیادت میں اس طرح متحد ہوگئے کہ پھر اُن کے قومی و سیاسی وجود کی نفی کرنا ممکن ہی نہ رہا۔ قائداعظم نے اس دور میں نہ صرف عوامی جلسوں میں مسلمانوں کے جذبۂ آزادی کو مستحکم کیا، بلکہ آزادی کے خط و خال پر بھی پورے تدبر کے ساتھ کام کیا۔ اس سلسلے میں وائسرائے ہند، اس کی کونسل کے افراد اور کانگریس کے سیاسی راہ نماؤں خاص طور پر گاندھی اور نہرو سے بھی ان کی بہت خط کتابت رہی۔

آزادی کن لوازم کے ساتھ ہونی چاہیے، ہندوستان کی جغرافیائی تقسیم کس طریقے سے ہو اور مالیاتی امور کس طرح انجام دیے جائیں، ان سب باتوں پر جناح صاحب نے بہت غوروخوض کے ساتھ کام کیا۔ وہ ایک محنت کش اور بہت حوصلہ مند آدمی تھے۔ اپنی قوم کی محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر دن رات کی اَن تھک محنت ان کا معمول تھی۔ ذاتی حالات اور صحت کی خرابی تک کوئی مسئلہ بھی ان کی توجہ اپنے قومی فرائض سے نہ ہٹا سکا۔

کام کا یہ معمول آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی جاری رہا۔ آزادی کے بعد وہ صرف ایک برس اور لگ بھگ ایک ماہ حیات رہے، لیکن اس زمانے میں بھی وہ مسلسل قومی اتحاد اور ملکی استحکام کے امور پر متوجہ رہے۔ اس ملک کے آئین، عوامی استحقاق، قومی زبان، صوبائی اختیارات، وفاقی دائرۂ کار جیسے معاملات پر وہ خود بھی غور کرتے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے بھی تبادلۂ خیالات کرتے رہے۔

ایک سچے اور مخلص قائد کی حیثیت سے وہ اپنے ملک و قوم کو ہمیشہ آزاد، مستحکم اور باوقار دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں جو بھی ممکن تھا، وہ انھوں نے آخری سانس تک پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک بڑے انسان اور بلند پایہ سچے قومی راہ نما تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں