روح کے کرب کا اظہار
جب تک ہاتھ میں لگی پھانس نہیں نکالی جاتی مرہم پٹی بے سود رہتی ہے
MUMBAI:
میری نظریں اس وقت اخبار میں چھپی اس تصویر پر جمی ہوئی ہیں جس میں دو نوجوان خوبرو لڑکیاں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے زاروقطار رو رہی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی ٹرین کے اندر ہے اور دوسری باہر کھڑی ہے۔ کیپشن میں لکھا ہے ''اغواء کی وارداتوں سے مبینہ پریشان ہندو خاتون کو بھارت رخصت کرتے ہوئے اس کی رشتے دار رو رہی ہے'' (روزنامہ ایکسپریس جمعہ10اگست)۔ اس تصویر نے میرے پورے وجود میں ہلچل مچا دی ہے۔
میری آنکھوں میں امر جلیل کے ناول ''سرد لاش جو سفر'' کی سطریں لہرا رہی ہیں جس میں تقسیم کے وقت کندھ کوٹ میں فرقہ وارانہ تشدد کی المناک داستان رقم ہے۔ یہی سبب ہے کہ میرا ذہن مائوف، سوچ منتشر اور ہاتھ کپکپا رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے حادثہ لکھوں، سانحہ لکھوں یا اس ملک کی بدنصیبی لکھوں۔
حکومت لاکھ تاویلیس دے اور سیاسی جماعتیں کروڑوں عذر پیش کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ2010 سے اب تک 3ہزار کے قریب ہندو خاندان جیکب آباد، شکارپور، کشمور اور بلوچستان کے مختلف علاقوں بھارت نقل مکانی کر چکے ہیں اور بہت سے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ اقدام انھوں نے تنگ آمد کے طور پر اٹھایا ہے۔ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی تنظیمیں اس بات کی گواہ ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہندو کمیونٹی کو خاص طور پر تنگ کیا جا رہا ہے۔
کبھی ان کے بچوں کو اغواء کر کے بھاری تاوان وصول کیا جاتا ہے۔ کبھی ان کی نوخیز لڑکیوں کو اغواء کرکے زبردستی مسلمان بنا کر مسلمان لڑکوں سے ان کا عقد پڑھایا جاتا ہے' کبھی انھیں سرراہ لوٹا جاتا ہے تو کبھی ان کے کاروبار کو دانستہ نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اکثر بات بے بات انھیں دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام گھنائونی سرگرمیوں کی پشت پناہی علاقے کے بااثر لوگ اور جبہ و دستار والے کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ایک ہندو نوجوان کو مسلمان بنانے کا عمل ایک چینل پر لائیو دکھایا جاتا ہے اور خاتون اینکر اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے مگر PEMRA سمیت کوئی ریاستی ادارہ حرکت میں نہیں آتا۔
ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شہری گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ساتھ روا سلوک پر مختلف فورموں پر وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی اکثریت ان واقعات کی تصدیق کرتی رہی ہے لیکن نہ حکومت اور نہ ہی قوم پرست جماعتوں نے ان کے اس احتجاج پر توجہ دیتے ہوئے ان کی داد رسی کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کیا۔
اب جب کہ عالمی میڈیا کے ذریعے ہندو خاندانوں کی بڑی تعداد میں بھارت منتقلی کی خبریں شایع اور نشر ہوئی ہیں تو حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے مگر یہ سب لاحاصل ہے کیونکہ وقتی شور شرابے اور راستے روکنے سے کچھ نہیں ہوتا الٹا مزید بدنامی ہاتھ آتی ہے۔ دانشمند کہتے ہیں کہ جب تک ہاتھ میں لگی پھانس نہیں نکالی جاتی مرہم پٹی بے سود رہتی ہے۔
تاریخ اور عمرانیات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی شخص یا کمیونٹی عام حالات میں ترک وطن یا اپنی دھرتی ماں کو چھوڑنے پر اتنی آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی، تاآنکہ حالات انتہائی ناگفتہ بہ نہ ہو جائیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وہ خاندان جو 1947ء کے خونیں فسادات سے نہیں گھبرائے اور انھوں نے اپنی دھرتی سے جڑے رہنے کو ترجیح دی وہ آج کیوں ترک وطن پر مجبور ہوئے ہیں اور 65 برس بعد ترک وطن کا فیصلہ کیوں کر رہے ہیں؟ جب کہ تقسیم کے وقت انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ان کے بزرگوں نے ترک وطن سے گریز کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی دھرتی پر ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتیں پاکستان میں اسلام دشمن کردار ادا کر رہی ہیں تو انھیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان مسلم اکثریتی ملک ہے جس میں 97فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے جن کے عقائد کو آئینی تحفظ اور عددی اکثریت کی بنیاد پر کلی سیاسی و سماجی طاقت حاصل ہے۔ ویسے بھی 3فیصد آبادی 97 فیصد آبادی کے عقائد، نظریات، مذہبی رسم و رواج اور ثقافت پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا آئین بھی کسی غیرمسلم کو صدر، وزیر اعظم یا صوبائی وزیر اعلیٰ بننے کی اجازت نہیں دیتا جس کی وجہ سے کسی غیرمسلم کے اعلیٰ ترین ریاستی عہدے تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے اقلیتیں کس طرح اکثریتی آبادی کے نظریات اور عقائد کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
جمہوریت میں عقیدے یا نسل کی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک ممکن نہیں ہوتا بلکہ ہر شہری کو اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کا حق ہوتا ہے۔ خود بانی ِ پاکستان نے 11 اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ In the state of Pakistan a Muslim ceased to be a Muslim and a Hindu ceased to be a Hindu not in term of religion but as a citizen of Pakistan. You are free to go to your masques, temples or any other place of worship.The state has no concern with your religious thoughts.۔ اس تقریر کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ پاکستان کو ایک جدید جمہوریہ بنانا چاہتے تھے جس میں تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، رنگ، نسل اور لسانی شناخت مساوی حقوق حاصل ہوں۔
اس کے باوجود 1973 میں جب متفقہ آئین منظور ہوا تو تمام مذہبی اقلیتوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا اور مطمئن تھیں لیکن جنرل ضیاء کے دور میں آئین میں بعض ترامیم کے ذریعے جو چند امتیازی قوانین نافذ کیے گئے ان کے منفی اثرات براہ راست مذہبی اقلیتوں پر مرتب ہوئے جس کے نتیجے میں ان کے بنیادی شہری حقوق میں کمی آئی اور مختلف نوعیت کی پابندیوں کے سبب وہ خوف و ہراس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں۔ جنرل ضیاء ہی کے دور سے سیاست میں تشدد کا عنصر غالب آیا' فرقہ واریت اور لسانیت کی جڑیں گہری ہوئیں اور آتشیں اسلحے کے کھلے بندوں استعمال نے دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان متشدد آویزش کے علاوہ غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ امتیازی برتائو کا سلسلہ بھی اسی دور میں شروع ہوا۔
اس لیے معاملہ صرف سندھ اور بلوچستان کے ہندوئوں کا نہیں ہے بلکہ دیگر اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیز بھی معاشرے میں ابھرنے والے اس نئے پُرتشدد رجحان سے متاثر ہوئیں جن کی عبادت گاہوں پر مسلح حملے، بہیمانہ قتل سمیت مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ جس طرح پنجاب میں مسیحی کمیونٹی کے افراد کو مقدمات میں پھنسا کر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں ہندو برادری کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ شکار پور ضلع میں لکھی غلام شاہ میں تین ڈاکٹروں کا قتل ہو' کشمور میں صاحب ثروت ہندو گھرانوں کے بچوں کا اغواء برائے تاوان ہو' سندھ بھر میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے انھیں مسلمان لڑکوں کے عقد میں دینا ہو یا پھر بلوچستان میں ان کے کاروبار کو نقصان پہنچانا ہو، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
یہ تمام واقعات اس بات کے عکاس ہیں کہ پاکستان میں بعض ایسی قوتیں توانا ہو رہی ہیں جو بابائے قوم کے فکر و فلسفے اور ان کے تصور ریاست کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ آمرانہ ذہنیت کے حامل یہ عناصر جمہوریت میں عوام کے شراکتی کردار کا ادراک کرنے کے بجائے اسے محض مغرب کا نظام حکمرانی سمجھتی ہیں۔ اس لیے فکری کثرتیت اور بنیادی انسانی حقوق کی اہمیت سے ناآشنا ہیں۔ یہ نظام کی بہتری کے لیے انتخابی عمل کا حصہ بننے کے بجائے اسے سبوتاژ کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال سب سے آسان طریقہ ہوتا ہے اس لیے یہ عناصر نہ صرف مذہبی اقلیتوں کو تنگ کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فقہوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر بھی شب خون مار کر ان کی سیاسی قوت کو ختم کرکے یک مسلکی آمریت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس صورتحال میں ملک کے متوشش حلقے یہ سوال کیوں نہیں اٹھا رہے کہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں ہم انتہائی قلیل اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنے عقائد و نظریات کی ترویج اور ان کے فروغ کے لیے رعایت کے طلب گار رہتے ہیں تو اپنے ملک کی مختصر سی اقلیت کو زندہ رہنے کا حق دینے پر بھی کیوں آمادہ نہیں ہیں؟
ہماری مریضانہ ذہنیت اور دوہرا معیار عالمی سطح پر ہماری رسوائی کا سبب بنا ہوا ہے اور دنیا ہم سے متنفر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے گرد حلقہ مسلسل تنگ ہو رہا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی موجودہ روش تبدیل نہ کی تو دنیا ہمیں جبراً تبدیل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے جس کے نتائج بھیانک بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی روش کو تبدیل کرنا ہو گا اور یہ سمجھنا ہو گا کہ ہماری بقاء صرف اور صرف جمہوریت ہی میں پنہاں ہے جو اپنی سرشت میں ہمہ دینی (Secular) ہوتی ہے۔ 1973 کے آئین کی بعض متنازعہ شقوں کے ہوتے ہوئے بھی اس ملک کو بہترانداز میں چلایا جا سکتا ہے لیکن کوئی نیا ایڈونچر یا اس ملک کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کی خواہش اسے مکمل تباہ کر دے گی۔ باقی اہل وطن کی اپنی مرضی۔