بوتل میں شہد سے شہد کی گولی تک

پاکستانی تاریخ گواہ رہے گی کہ جتنا ان دو بوتلوں کا چرچا ہوا، ایسی شہرت کسی اور دو بوتلوں کے نصیب میں نہیں آئی

مئے من (میمن) صاحب کے ”ہسپتالوی کمرے“ سے جو کچھ برآمد ہوا، اس پر خوب داستانیں بیان ہوئیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

SHARJAH:
پاکستان میں عالمی میڈیا کی مقبولیت اسی لیے زوال پذیر ہے کہ یہ ہمارے پاکستانی میڈیا کے ایجادکردہ قومی مسائل کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا، حالاںکہ ان مسائل کے پیچھے عالمی میڈیا کو ہاتھ دھو کر پڑ جانا چاہیے۔ اب دیکھیے ناں، ہمارے منصف اعلیٰ نے کراچی کے ایک معروف ہسپتال کا رخ کیا کیا کہ ہمارے میڈیا کے فطین دماغوں نے بھانپ لیا کہ کوئی انتہائی اہم ترین قومی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ شرجیل میمن صاحب بھی اسی ہسپتال کے ایک کمرے میں بیماری کی حالت میں موجود تھے۔ اور پھر اک شور برپا ہو گیا کہ سب جیل قرار دیے جانے والے اس کمرے سے دو عدد شیشے کی بوتلیں جو ماضی قریب میں کسی اعلیٰ نسل کی شراب کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھیں، برآمد ہوئیں۔

اپنے ہاتھوں میں اسم بامسمٰی جام نامی شرجیل میمن صاحب کا ذاتی ملازم دونوں بوتلیں تھامے ٹی وی اسکرینوں کی رونق بنا رہا۔ منصف اعلیٰ کی جلالی نگاہوں کے سامنے جام نامی اس ملازم کی حالت اس مصرعے کی مانند تھی

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور


دونوں بوتلوں کو ملازمین سمیت تحویل میں لے لیا گیا، جب کہ شرجیل میمن گم صم سے یہ سب دیکھتے رہے۔ نظروں ہی نظروں میں کہتے رہے ''نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل۔'' بعدازاں ان بوتلوں کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر وہ لے دے ہوئی کہ الامان الحفیظ۔ پاکستانی تاریخ گواہ رہے گی کہ جتنا ان دو بوتلوں کا چرچا ہوا، ایسی شہرت کسی اور دو بوتلوں کے نصیب میں نہیں آئی۔ ان کراماتی بوتلوں سے شراب کی بجائے شہد اور زیتون کا تیل برآمد ہونے کی خبر نے الگ شہرت حاصل کی۔ مئے من (میمن) صاحب کے "ہسپتالوی کمرے" سے جو کچھ برآمد ہوا اس پر داستانیں بیان ہوئیں، ٹاک شوز ہوئے، کف اڑاتے اینکرز نے شراب نامی کسی سیال مادے کی دریافت پر سر دھنے جب کہ مخالف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے سر پیٹ پیٹ کر اس کا چرچا کیا اور سوشل میڈیا پر شرابی پوسٹس کا سلسلہ چل پڑا۔

شرجیل میمن صاحب کو بہت اکسایا گیا کہ کچھ تو بولیے حضور! مگر "مئے من" صاحب بھی کمال کے ہوشیار نکلے، خاموشی میں ہی عافیت جانی اور اپنا داؤ کھیل دیا۔ ایسی چپ سادھی جو کسی سادھو کے بھی بس کی نہیں۔ بوتلوں کو سندھ لیبارٹری کی نذر کیا گیا جہاں لیبارٹری کے تجربہ کار تجزیہ کار میٹرک پاس سائنس داں بھی ٹی وی اینکرز کے شاندار اور کامیاب ٹاک شوز کی طرح عملی مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ انہوں نے اپنی معلومات کے خزانے کو عام کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سندھ لیبارٹری ہے جہاں پورے سندھ کے فوجداری کیسسز کے شواہد اور مواد کی سائنسی طریقہ کار پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جب کہ ان کے سوٹڈ بوٹڈ ڈائریکٹر صاحب نے سائنسی تحقیق اور لیبارٹری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اس کے بجائے قدرتی لیبارٹری کو ترجیح دے کر ثابت کیا کہ ان کی مئے منانہ فراست کے آگے جدید سائنس کیا بیچتی ہے؟ اپنی ہی منہ زبانی لیبارٹری کے ذریعے نتیجہ فراہم کردیا۔ منہ زبانی لیبارٹری والے مذکورہ افسر نے انکشاف کیا کہ یہ 'ہنی' ہے جسے اردو میں شہد کہا جاتا ہے۔

اس موقع پر ٹی وی اور موبائل کیمروں کے لینسز بھی حیرت کے مارے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ایسی نابغہ روزگار شخصیت کی جانب سے ایسا علمی و تحقیقی انکشاف کیا ہوا کہ وہاں موجود لوگ ششدر رہ گئے۔ ثابت ہوا کہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس شخص ہی دراصل اپنی ذات میں لیبارٹری ہے۔ سوال اٹھنے لگے کہ یہ جو کروڑوں روپے لگا کر فرانزک لیبارٹریاں بنائی جاتی ہیں، یہ ان صاحب کے آگے کیا بیچتی ہوں گی؟ حکومت سندھ کی میرٹ پالیسی پر بھی سر دھنے جانے لگے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی اساطیری کہانیاں ہیچ لگنے لگیں۔ شرلاک ہومز جیسے کردار بونے لگنے لگے، کئی سائنس دانوں کی قابلیت پر اپنے جواب سے سوال اٹھانے والی اس شخصیت کے صرف ایک جملے نے ملک کے طول و عرض میں پھیلی شکوک کی فضاء ختم کردی اور میڈیا کو دنگ کر دیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان صاحب کی ممکنہ مقبولیت سے بڑے بڑے سائنس داں جیسے خوفزدہ سے ہوگئے ہوں، پتا نہیں کیوں؟


ایک نجی چینل کے معروف پروگرام کے ہوسٹ نے اسٹنگ آپریشن کیا۔ اس پروگرام میں سندھ لیبارٹری کی بے سرو سامانی کے باوجود اعلیٰ ترین مینجمنٹ کی ایسی تعریف کی جوان صاحب کی معطلی پر منتج ہوئی۔ رہی بات عالمی میڈیا کی تو ان کی متعصبانہ سوچ سے کون واقف نہیں، انہوں نے اس اہم ترین قومی مسئلے کو بری طرح نظرانداز کیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ایک انجینئر وقار خان نامی "سائنس داں" نے پانی سے کار چلا کر دنیا کی معیشت کی کایا کلپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر ایک 'کُتا بچہ' فیم ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم کے پروگرام میں میرِمحفل نے اسے اس ملینیم کا سب سے بڑا مبینہ کارنامہ انجام دینے پر مبارکباد دی تھی۔ ہمارے اپنے خورشید شاہ نے تو اس پانی سے چلنے والی کار کو ڈرائیو کرکے ثابت کیا کہ ترقی دیکھنی ہو تو سندھ میں دیکھیے، حالاںکہ کار وہ اسلام آباد میں ڈرائیو کررہے تھے۔ اس پر بھی بہت لے دے ہوئی تھی اور پھر ان انجینئر وقار خان کا کچھ پتا نہ چلا۔ کچھ حاسدین کے بقول ان کو اغواءکرنے کے بعد ان سے اس پانی والی کار کا فارمولا پوچھا گیا، اور انہوں نے جان کے خوف سے صاف صاف کہہ دیا کہ بھائی جس پانی سے کار چلتی ہے وہ پانی تو کراچی میں پانی سپلائی کرنے والے ایک ٹینکر سے لیا گیا تھا۔ جب کہ کچھ چغل خور لوگوں کے بقول انجنیئر وقار خان نے کار میں وہی پانی ڈالا تھا جسے لوگ آج کل شہد کا نام دے رہے ہیں۔ بقول میر

پیدا کہاں اب ایسے پراگندہ طبع لوگ


اس سے پہلے بھی ایک زلف دراز شخصیت کی شفاف بوتل کو شہد کی بوتل کا نام دیا گیا تھا۔ اس پر بھی بڑی باتیں ہوئیں مگر ایک کرامتی ہاتھ سے ثابت ہوا کہ وہ واقعی شہد تھا۔ ایسی محیرالعقول باتوں کو ہمارے ملک کا اہم ترین مسئلہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ ادھر بوتل برآمد ہوئی اور ادھر تبصرے اور ٹاک شوز شروع؛ بس بوتل کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن ایک بات جس پر ایک عام آدمی ایسے ٹی وی شوز سے متاثر ہوکر سوچتا ہے وہ یہ ہے کہ بوتل آخر شیشے کی کیوں ہوتی ہے؟

ابھی اس کرامت پر زورشور سے بحث جاری تھی کہ شاہد آفریدی کی فولادی خوراک کا راز کھل گیا۔ ایک اعلیٰ ترین سطح کی تقریب میں شاہد آفریدی نے اپنے اوپری ہونٹ میں چھوٹی سے گولی بناکر کوئی چیز رکھی جسے نگوڑے ندیدے کیمرے نے محفوظ کرلیا۔ اب ظاہر ہے یہ بھی قومی مسئلہ بننا تھا، سو بن گیا۔ بحث مباحثہ جاری ہے کہ یہ چھالیہ تھی، ٹافی تھی، چاکلیٹ تھی یا پشاوری عوامی مرغوب نسوار! اس کی گونج ہمسایہ ملک میں بھی سنی گئی۔ ایک پاکستان مخالف ہمسایہ ملک کے چینل پر ایک اینکر نے اپنا سر پیٹتے ہوئے آئی سی سی کی انضباطی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ نسوار کو بدنام زمانہ ڈوپ ٹیسٹ کے دائرے میں لایا جائے۔ سوشل میڈیا پر علیحدہ جنگ کا سا ماحول ہے۔ نسوار جیسی شئے پر تحقیق کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہماری رائے میں شاہد آفریدی کے منہ سے اس شئے کو نکال کر انہی صاحب کو دی جائے جو چکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ شہد ہے۔ مگر اس بار بوتل اس کہانی میں ہے ہی نہیں، یہ تو گول مٹول سی چھوٹی سی گولی لگتی ہے جسے چپٹا کر کے شاہد آفریدی نے منہ میں ڈالا تھا۔ اور عین ممکن ہے وہ صاحب یہ کہہ دیں کہ یہ شہد کی گولی ہے۔ ایسے میں ہو سکتا ہے مستقبل میں شاہد آفریدی شہد آفریدی کہلائے جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story