بلاول بھٹو کے اپنی والدہ کی نشست سے منتخب ہونے کا امکان

فریال تالپور کی طرف سے این اے207لاڑکانہ کی نشست خالی کرنے کے بعد چہ مگوئیاں شروع


مظہر عباس May 30, 2013
فریال تالپور کی طرف سے این اے207لاڑکانہ کی نشست خالی کرنے کے بعد چہ مگوئیاں شروع فوٹو: رائٹرز

صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی طرف سے حلقہ این اے207لاڑکانہ کی نشست خالی کرنے کے بعد یہ چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی روایتی نشست سے رکن قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔

بینظیر اس حلقے سے1988سے 1997تک کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ 2002کے انتخابات میں مشرف حکومت نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا جبکہ قتل ہونے سے پہلے2008 کے انتخابات میں وہ دوبارہ یہاں سے امیدوار تھیں۔ بعدازاں ضمنی انتخابات میں فریال تالپور این اے207 سے بلامقابلہ منتخب ہوگئی تھیں، حالیہ الیکشن میں انھیں مخصوص نشستوں پر رکن منتخب کرلیا گیا ہے جس کے بعد انہوں نے این اے207 کی نشست چھوڑ دی ہے۔ غنویٰ بھٹو کو بھاری فرق سے ہرانے کے بعد وہ واحد رکن قومی اسمبلی ہیں جنہوں نے مخصوص نشست کیلیے عام نشست چھوڑ دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جو ستمبر میں25سال کے ہوں گے اس سیٹ سے انتخابات لڑنے کیلیے تیار ہیں، اگر ضمنی الیکشن اس سے پہلے ہوجاتے ہیں تو پیپلزپارٹی کو منتخب رکن وقت آنے پر وہ نشست خالی کردیگا۔ صدر زرداری یقیناً اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے اپنے اکلوتے فرزند کو ایم این اے دیکھنا پسند کریں گے۔ صدارتی الیکشن ستمبر یا اکتوبر میں متوقع ہیں۔

اگر بلاول بھٹو منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ 1970کے بعد سے کم عمر ترین ایم این اے ہونے کا اعزاز حاصل کریں گے۔ وہ پہلے ہی سیکیورٹی خدشات کے باوجود متحرک سیاسی کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں تاہم اب تنظیم نو کے عمل سے گزرنے والی پارٹی کی کورکمیٹی نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی ہے۔ پیپلزپارٹی جولائی یا اگست میں قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی تمام 30سے زائد نشستوں پر مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ساتھ میدان میں اترے۔ ضمنی انتخابات تحریک انصاف کیلئے بھی ایک امتحان ثابت ہوگا کیونکہ ان میں عمران خان اور جاوید ہاشمی کی خالی کردہ نشستوں پر بھی انتخاب ہونے والا ہے۔



بلاول بھٹو زرداری ایم این اے منتخب ہوتے ہیں تو قومی اسمبلی میں پارٹی کے نامزد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی پارٹی چیئرمین کیلئے اس منصب کا راستہ صاف کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قومی اسمبلی کی صورتحال کافی دلچسپ ہوگی کیونکہ قائدایوان نوازشریف بلاول بھٹو کی والدہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر نوازشریف کے بچوں کے ہم عمر ہونگے۔ ذوالفقار بھٹو کو ایوب دور میں کم عمر ترین سیاستدان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس وقت ان کی عمر 26 سال تھی، وہ ملک کے کم عمر ترین صدر اور وزیراعظم بھی رہے۔

قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن مدنظر رکھتے ہوئے آصف زرداری شاید دوسری بار صدارت کا الیکشن نہ لڑیں اور مصالحتی سیاست کے طور پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی حمایت کرسکتے ہیں۔ اس وقت تک بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کے میدان میں کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں اور انہیں زیادہ توجہ بھی نہیں مل سکی۔ اپنی والدہ اور نانا کی طرح وہ روانی کے ساتھ اردو نہیں بول سکتے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنی دیر میں یہ کمی دور کرتے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی منتخب ہوئی تاہم 85سالہ نامزد وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ جیسے ''بابے'' بدستور موجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔