میں جینا نہیں چاہتا

ہرسال 8 لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں جبکہ 15 تا 29 سالہ نوجوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ بھی خودکشی ہے


ملک رمضان اسراء September 16, 2018
ہرسال 8 لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں جبکہ 15 تا 29 سالہ نوجوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ بھی خودکشی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

PESHAWAR: ہر سال کی طرح اس سال بھی دس ستمبر کے روز ''خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن'' منایا گیا لیکن پاکستان میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں میڈیا کی توجہ حاصل کرنے سے محروم رہ گیا۔ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اصل مقصد یہ ہے لوگوں میں اس بارے آگاہی پیدا کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس موذی مرض سے بچایا جاسکے۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ کے دوران ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے۔ خودکشی صحتِ عامہ کا ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس پر اکثر معاشرے میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او خودکشی کے واقعات میں 2020 تک 10 فیصد کمی لانا چاہتا ہے لیکن اس نے خبردار کیا کہ صرف 28 ممالک میں خودکشی کی روک تھام کےلیے حکمتِ عملی موجود ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اسکولوں کی سطح پر مزید تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر سے خودکشی پر ہونے والی 10 سال کی تحقیق اور ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی جان لیتے ہیں۔ یہ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

70 سے زائد عمر کے افراد کا اپنی جان لینے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں سے ایک تہائی کا تعلق کم آمدن والے طبقے سے جبکہ امیر ممالک میں خودکشی سے مردوں کی اموات، خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آتشیں اسلحے اور زہریلے کیمیائی مواد تک رسائی کو کم کرنے سے خودکشی کے واقعات میں کمی ہوگئی اور خودکشی کی روک تھام کےلیے قومی سطح پر حکمتِ عملی ترتیب دینے سے فرق پڑا لیکن ایسی حکمتِ عملی بہت کم ممالک میں اختیار کی گئی۔ عالمی ادارۂ صحت کی سربراہ ڈاکٹر مارگریٹ چان نے کہا کہ یہ رپورٹ صحتِ عامہ کے ایک بہت بڑے مسئلے سے نمٹنے کےلیے اقدامات کرنے پر بات کرتی ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر معاشرے میں لوگ اکثر بات نہیں کرتے۔ دماغی صحت کے مسائل سے جڑے معاشرتی داغ کی وجہ سے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جس کی وجہ وہ خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے ہالی ووڈ کے اداکار رابن ولیمز کی موت کی تفصیلات کو رپورٹ کرنے کی طرح خودکشی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں ممالک سے کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی مدد کےلیے اقدامات کریں جنہوں نے ماضی میں خودکشی کی کوشش کی کیونکہ ان کا خودکشی کرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ برطانیہ میں خودکشی کے خلاف مہم چلانے والے جانی بنجمن نے بی بی سی کو بتایا، ''میرے خیال میں خودکشی کے بارے میں زیادہ آگہی ہونی چاہیے اور لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ وہ خودکشی کا سوچنے والے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آئیں۔''

عالمی ادارہ صحت کی ایک اور تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشیاں شمالی کوریا میں کی جاتی ہیں۔ وہاں ہر ایک لاکھ افراد میں سے تقریباً چالیس افراد خودکُشی کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ جنوبی کوریا میں بھی ہے جہاں یہ تعداد تقریباً سینتیس افراد فی دس لاکھ بنتی ہے۔ اسی طرح مشرقی یورپ اور روس میں بھی حالات پریشان کن ہیں۔

''میں جینا نہیں چاہتا!'' یہ ایسی پہلی سیڑھی ہے جو انسان کو خودکشی کی جانب بہ آسانی لے جاتی ہے۔ مختلف لوگ مختلف وجوہ کی بناء پر خودکشی کرتے ہیں۔ یہ انتہائی جذباتی فیصلہ ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کے دماغ میں شاید سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہوجاتی ہے اور شدید ذہنی دباؤ میں انسان خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے خودکشی کرلیتا ہے۔ اس کی اصل وجہ مایوسی ہے۔ بعض لوگ محبت میں ناکام ہوکر جبکہ بعض افراد مالی حالات یا گھریلو و معاشرتی رویوں سے تنگ آکر ایسا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیے کہ کسی بھی چیز کو اپنے دل و دماغ پر اتنا سوار نہ کیجیے جو بعد میں آپ کی زندگی کے خاتمے تک پیچھا نہ چھوڑے۔

اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں اور وہ بھی آپ سے محبت کا دعویدار ہے تو یہ جب تک خوشی کے ساتھ چلے تو اچھی بات ہے لیکن اگر کہیں ایسا لگنے لگے کہ وہ آپ سے سچی محبت نہیں کرتا اور ڈھونگ رچا رہا ہے تو آپ یہ نہ سمجھیے کہ بس یہی میری مجبوری ہے، یہی میری زندگی ہے۔ بلکہ اس سے تھوڑا باہر نکل کر سوچیے کہ اس کے علاوہ بھی بہت بڑی دنیا ہے، اس کی ویسے ہی تلاش کیجیے جیسے اس کو آپ کی اور آپ کو اس کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی شخص آپ سے بے وفائی کرتا ہے تو یہ ہرگز نہ سوچیے کہ میں نے اس سے اتنی محبت کی، عزت دی، یہ کیا، وہ کیا، بلکہ یہ سوچیے کہ جو کچھ بھی کیا وہ اپنی محبت یا اچھی دوستی کےلیے کیا نہ کہ اس انسان کےلیے۔ لہذا چونکہ اب وہ اس قابل نہیں رہا تو پریشان نہیں بلکہ خوش ہوں اور آہستہ آہستہ اسے بھولنے کی کوشش کیجیے کیونکہ جو آپ کو تکلیف دیتا ہے، وہ آپ کا ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ بھی اب اسے اپنے دل سے نکال پھینکیے اور انتظار کیجیے۔ اگر آپ کی نیت ٹھیک ہے تو پھر آپ کو وہ پیار کرنے والا ملے گا جس سے یہ کمی پوری ہوجائےگی اور جس کی طرف سے ملنے والا پیار اور خوشیاں آپ زندگی بھر نہیں بھلا پائیں گے۔

اب ایک اور بات یہ بھی ہے کہ یہاں مذکورہ شخص کے بجائے اردگرد کے لوگوں کو، جن میں دوست، احباب رشتہ دار وغیرہ شامل ہیں، سوچنا ہے کہ ان کے کسی رویّے سے کوئی اپنا تنگ آکر زندگی سے مایوس تو نہیں ہوجائے گا؟ یہاں یہ ضروری ہے کہ جب آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ کے کسی رویّے سے دوسرے کو مایوسی ہورہی ہے تو خدارا یہ نہ دیکھیے کہ اس میں ہم صحیح اور وہ غلط ہے، بلکہ اپنا رویہ فوراً بدل ڈالیے اور اس شخص کو مطمئن کیجیے تاکہ وہ احساسِ محرومی سے نجات پالے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو امتحان میں کم نمبر لانے یا ناکام ہوجانے پر نالائق، نکما اور نکھٹو ہونے کے طعنے نہ دیں بلکہ ان کا حوصلہ بڑھائیں۔ انہیں سختی کے بجائے نرم اور پیار بھرے لہجے میں سمجھائیں۔ ان کی جائز خواہشات کا خیال رکھیں تاکہ ان کی ہمت پست نہ ہو۔

اگر خودکشی سے بچنا ہے تو خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا سیکھیے۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی جگہ وقت کے ساتھ کمپرومائز کیجیے اور اپنی ہمت و حوصلے کو ہمیشہ جوان رکھیے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کبھی ہار نہیں مانیں گے اور مشکل سے مشکل وقت کو بھی خوشی خوشی گزار لیں گے۔ دکھ، درد اور خراب حالات انہی لوگوں پر آتے ہیں جن میں انہیں سہنے کی طاقت ہو۔ لہذا آپ کو اب صرف یہ ارادہ کرنا ہے کہ مجھے ان تکلیف دہ حالات کو شکست دینی ہے اور ہار نہیں ماننی۔ بہادر لوگ ایسے حالات سے سبق سیکھتے ہیں کیونکہ اس سے جینے کا ایک سلیقہ ملتا ہے اور، خدانخواستہ، اگر کبھی ایسا خیال آئے کہ ''میں نہیں جینا چاہتا'' تو آپ کو اس کا اُلٹ کرنا ہے یعنی ''میں نہیں مرنا چاہتا'' بلکہ جینا چاہتا ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں