عالمی کرنسی وار حصہ سوم

امریکی کاغذی ڈالرکی برابری چین، روس، انڈیا، انڈونیشیا ودیگر ممالک نہیں کرسکے۔

k_goraya@yahoo.com

لیکن برطانوی امراء نے بنگالی ململ کی خریداری بند نہیں کی تو اس پر برطانوی حکومت نے بنگالی کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ دی تھیں اور برطانوی ململ کے غلام ہندوستان میں امپورٹ (داخلے) کے وقت اس پر بہت ہی معمولی ٹیکس رکھا تاکہ برطانوی ململ ہندوستانی ململ سے سستی ہو اور لوگ اس کے سستے ہونے کی وجہ سے ہندوستانی (بنگالی) ململ کے مقابلے میں سستی برطانوی ململ استعمال کریں۔

برطانوی سامراج نے جب پورے ہندوستان پر 1858ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقاب اتارکر براہ راست تاج برطانی کی حکمرانی قائم کرلی تو انگریزوں نے ایک طرف عوام سے لیا ہوا ٹیکس برطانیہ منتقل کیا دوسرا برطانوی صنعتی کلچر کو غلام انڈیا میں فروغ دیا۔

جن ملکوں کو امریکا نے سڈ مڈ لگا کر معاشی غلام بنا لیا تھا، ان کو آگاہ کرنا ضروری تھا، اس لیے کتاب ''عالمی عوامی معاشی ازم'' کی اشاعت اپریل 2013ء کے بعد راقم نے مئی 2013ء کو قونصل جنرل Andery V. Demidor اور اتاشی (اٹاچی) Dmitry Bondarenko سے ان کے آفس قونصلیٹ جنرل آف رشین فیڈریشن کراچی کلفٹن میں ملاقات کی اور اپنی کتاب کے صفحے 190-91 پر امریکی صدر ریگن کی ''ریگن ڈاکٹرائن'' کے فارمولے کا تفصیل سے ذکر دکھایا۔ جس میں امریکی صدر نے سعودی بادشاہ کو آمادہ کیا کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار 2 ملین بیرل سے 9 ملین بیرل تک بڑھا دے۔ اس کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 30 ڈالر فی بیرل سے گرکر 10 ڈالر فی بیرل تک آگئیں۔

اس طرح 1986ء میں سابقہ سوویت یونین کی معیشت خسارے میں چلی گئی کیونکہ روسی معیشت کا دارومدار تیل کی آمدنی پر تھا۔ امریکا، جنرل ضیا الحق، جنرل حمید گل اور دیگر یورپی و عرب اتحادی 30 دسمبر 1979ء سے 1986ء تک مسلم جہادیوں کو جنگ میں جھونک دینے کے بعد بھی ناکام رہے تھے۔

امریکا ''عالمی کرنسی وار'' کا حربہ تیل پر استعمال کرکے کامیاب ہو گیا تو پھر سابقہ سوویت یونین نے بتدریج افغانستان سے سمٹنا شروع کر دیا تھا۔ یعنی 15 فروری 1989ء سے روس نے افغانستان سے نکلنا شروع کردیا تھا اور اس تجارتی نوسر بازی امریکی مالیاتی شیطانی ہتھکنڈے کے نتیجے میں سابقہ سوویت یونین نے دسمبر 1990ء میں تحلیل ہونے کا اعلان کیا۔ راقم کی کتاب میں دیگر تمام تر معاشی حقائق موجود ہیں جن پر میں نے پہلی عالمی جنگ سے قبل کے عالمی خارجہ تعلقات اور ان کی داخلی مالیاتی پالیسیوں اور معیشتوں پر ثبوتوں کے ساتھ تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد شکریہ کے ساتھ دونوں احباب نے میری کتابیں قبول کیں۔

25 جون 2013ء کو ''بزنس ریکارڈر'' میں خبر شایع ہوئی رشین فیڈریشن کے صدر ولادی میر پیوٹن نے معاشی ٹیم کو تبدیل کر دیا ہے اور پھر 9 نومبر 2013ء کو خبر شایع ہوئی کہ رشین مرکزی بینک نے ریٹ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ پھر 18 اگست 2018ء کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں خبر شایع ہوئی جس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ترکی کے وزیر خارجہ کے ساتھ ماسکو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''ڈالر کی گرتی ہوئی دیوارکو اب آخری دھکا دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ دنیا اب ڈالر سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے اور ڈالر مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔''

اس طرح رشین فیڈریشن کے اقدامات دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی اور میں نے بھرپور طمانیت محسوس کی کہ آخر کار سامراجی دھوکے باز، بلیک میلر امریکا کے دن گنے جانے والے ہیں اور اپنے ہی کھڈے میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوگا یقینا آمین۔ اسی سلسلے میں ایرانی ثقافتی (کلچرل) آفس میں ایرانی نمایندے ڈائریکٹر سے ملاقات کرکے اسے ایران کے لیے اپنی کتاب پیش کی ساتھ ہی ایرانی صدر کو بذریعہ ڈاک کتاب ارسال کی تھی اور اسی طرح شمالی کوریا کے سفیر کو بھی کتاب دی گئی۔

اسی طرح چین کے سفارتی آفس میں کتاب دی گئی۔ یاد رہے کہ امریکا کا چین پر مسلسل دباؤ چلا آرہا ہے کہ چین اپنی کرنسی یوآن کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم کرے لیکن چینی حکومت نے امریکی حکم کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ چین میں یوآن کرنسی کی قیمت کو چین کا مرکزی بینک کنٹرول کرتا ہے۔ کسی پرائیویٹ ایجنسی کو اختیار نہیں کہ وہ مرکزی بینک کے مقررہ یوآن اور ڈالر ریٹ میں مداخلت کرے۔


چین اور امریکا کی کرنسی وار کافی عرصے سے چل رہی ہے حتیٰ کہ بزنس ریکارڈر کی اشاعت 29 دسمبر 2011ء کو امریکا نے چین کو کہا کہ China not Currency Manipulator یہ خبر کی سرخی تھی۔ اس طرح 22 فروری 2012ء کو متذکرہ اخبار میں خبر شایع ہوئی China Announces Currency Swap Deal With Turky اس طرح روزنامہ ''امن'' کراچی میں 26 دسمبر 2011ء کو خبر شایع ہوئی ''چین نے پاکستان کے ساتھ کرنسی کے تبادلے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد چین کے مرکزی بینک کی جانب 140 ارب روپے کے عوض 10 ارب یوآن کا تبادلہ کیا ہے۔''

لیکن امریکی کاغذی ڈالرکی برابری چین، روس، انڈیا، انڈونیشیا ودیگر ممالک نہیں کرسکے جو آج تک امریکی ڈالر کے مالیاتی اور معاشی غلام ممالک ہیں۔ چین و دیگر ممالک نے آپس میں کرنسیوں کے باہمی تبادلے کیے ہیں تو انھوں نے امریکی کاغذی ڈالر سے جڑے ہوئے ڈالر کی مقررہ قیمت کی بنیاد پر تبادلے کیے ہیںجیسے چین کی کرنسی 6.426 یوآن کا ایک کاغذی ڈالر تھا اور پاکستان کا 89.964 روپے کا کاغذی ڈالر تھا۔

اس طرح ڈالر کو ''حاکم'' Dominator بناکر امریکی مالیاتی غلامی تلے کرنسیوں کے تبادلے کیے گئے۔ دونوں ملکوں کے لیے ڈالر کی مقدار یا تعداد (گنتی) 1556.178 ملین ڈالر ہی رہی تھی۔ یہ کوئی آزادانہ تبادلہ کرنسی نہیں تھا۔ دیگر ممالک نے ایسے Swap غلام ایگریمنٹ کیے تھے۔ چین و دیگر ملکوں نے امریکی مالیاتی غلامی سے نجات کے لیے عالمی ادارہ BRICS بنایا ہے چین اپنے نیک مقاصد اور دنیا کے معاشی و مالیاتی غلام ملکوں کو ضرور آزادی دلانے میں کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ چین کی آزادی بھی امریکی کاغذی سے نجات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

یورپی ممالک برطانیہ یورو (یورپی ممالک) کرنسی اور برطانوی پونڈ ڈالر کے مقابلے میں زیادہ قیمت یا قدر رکھتے ہیں، لیکن باقی دنیا کے تمام ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں بہت ہی کم قیمت (قدر) کی ہیں۔ اس طرح معاشی غلام ملکوں کو امریکا مادر پدر آزد ہوکر جانوروں کی طرح ہانک رہا ہے (1)۔آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں کم کرتا ہے۔

امریکا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے اپنے حریف ملک کی کرنسی کی قیمت گراتا ہے اور اس ملک کی معیشت کو خسارے میں بدلتا ہے، اگرکوئی ملک ایسا نہیں کرتا تو پھر تجارتی بلیک میل کرنے لگتا ہے۔15 اگست 2018ء کو انقرہ کے حوالے سے اخبارات میں شہ سرخی خبر نے امریکی مالیاتی ہتھکنڈے کا شکار ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھرپور جواب دیا۔ یاد رہے کہ امریکی سامراج نے ترکی پر معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔

امریکا نے 10 اگست (جمعہ) 2018ء کو ترکی سے درآمد (امپورٹ) کی جانے والی اشیا اسٹیل اور المونیم پر امپورٹ ڈیوٹی میں 50 فیصد کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں ترکی کے صدر نے امریکا سے کہا امریکی کمپنی ایپل کا بنا ہوا آئی فون مارکیٹ میں ہے تو اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا کا سام سنگ بھی موجود ہے۔ امریکا نے ترکی کے لیرے (کرنسی) میں بھی ڈالر کے مقابلے میں 40 فیصد کمی کردی۔ جس کا منفی اثر مجموعی معیشت پر پڑنے سے ترکی کے صدر نے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔

صدر نے ملکی کرنسی لیرے کی بحالی اور معیشت کے فروغ کے لیے 4 ممالک سے مقامی کرنسیوں کی بنیاد پر تجارت کرنے کے اقدامات کا بھی اعلان کیا کہ امریکا کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے عوام جواب دیں گے اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے، جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ ترکی اپنے مرکزی بینک کی ''خودمختاری'' کو یقینی بنائے۔ راقم نے اپنی کتاب میں ترکی و دیگر تمام ممالک کی کرنسیوں اور امریکی مالیاتی ہتھکنڈوں کا ثبوتوں کے ساتھ ذکر کیا ہوا ہے۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story