تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی

ایوب خان کے اُس دس سالہ دور میں ہمارے یہاں ایک زبردست صنعتی انقلاب بھی برپا کیا گیا تھا۔


Dr Mansoor Norani September 12, 2018
[email protected]

ایک دور سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا وہ غیر جمہوری دور تھا جس میں گرچہ ہمارے لوگوں کے سیاسی اور انسانی حقوق تو ضرور سلب کیے گئے مگر ملک کی ترقی وخوشحالی کے ایسے بڑے بڑے منصوبے نہ صرف تشکیل دیے گئے بلکہ مکمل بھی کیے گئے اور جن کی بدولت پاکستان اُس وقت اِس خطے کا ایک بہت ہی خوشحال ملک گردانہ جانے لگا۔

ایوب خان کے تمام آمرانہ اقدامات سے قطع نظر اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اُن کے دس سالہ دور میں ہمارے ملک نے بے مثال ترقی کی۔ پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے ایسے کئی ڈیم بنائے گئے جن سے ہم ابھی تک استفادہ کر رہے ہیں اور جن کے بعد آج تک پچاس سالوں میں ہم کوئی نیا ڈیم نہیں بنا سکے۔

ذوالفقارعلی بھٹو، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے کئی طاقتور حکمراں برسر اقتدار آئے لیکن کوئی بھی حکمراں اِس کام کو آگے نہیں بڑھا سکا۔ جب کبھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی بات کی گئی ہمارے باہمی اختلافات اور صوبائی منافرت کھل کر سامنے آ نے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اِس معاملے میں وہیں کھڑے ہیں جہاں جنرل ایوب خان نے ہمیں چھوڑا تھا۔

ایوب خان کے اُس دس سالہ دور میں ہمارے یہاں ایک زبردست صنعتی انقلاب بھی برپا کیا گیا تھا۔ سارے ملک میں انڈسٹریز کاجال بچھایا گیا تھا۔ایوب خان جانتے تھے کہ یہ کام حکومتی لیول پرکرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا، لہذا انھوں نے پرائیویٹ اورنجی شعبے کو اِس کام کے لیے حوصلہ افزا مراعات اور INCENTIVES دیے اور اِس مشکل ٹاسک کو ممکن بنایا، مگر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اِن کامیابیوں کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھا۔

سوشلزم اور کمیونزم کے اُصولوں کے تحت ہر شہ کو سرکاری تحویل میں لیے جانے کے عمل نے نجی شعبے کی ایسی حوصلہ شکنی کی کہ سارا اسٹرکچر ہی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ وہ دن ہے اورآج کا دن ہمارا نجی شعبے اپنے یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ابھی تک تذبذب اور پس وپیش کا شکار ہے۔ یہ درست ہے کہ بھٹو صاحب نے اِس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا، جس نے آگے جاکے اُسے ایک طاقتور ایٹمی ریاست کادرجہ دلایا لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی سرکاری تحویل میں لیے جانے والی پالیسی نے اِس ملک کی معاشی واقتصادی ترقی کو بہت نقصان پہنچایا۔

انڈسٹریز اور بینکوں سمیت کئی اداروں کے تباہی کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جو آج تک سنبھل نہیں پایا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق اِس ملک کے اقتدارو اختیارکے واحد اکیلے مالک ومختار بنے۔ انھیں گیارہ سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے کا سنہری موقعہ نصیب ہوا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے اِس سنہری موقعے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ چاہتے تو اُن گیارہ سالوں میں بہت سے اہم اور ضروری کام کرجاتے۔ افغان وارکی وجہ سے امریکا اُن کا بہت بڑا دوست اور مہربان تھا۔ وہ اُن دنوں ہمارے سارے ناز اور نخرے اُٹھانے کو تیار تھا۔ جنرل ضیا جو چاہتے امریکا سے منوا سکتے تھے۔

سویت یونین کے خلاف معرکا آرائی میں اُس وقت صرف ہماری قوم ہی ساری دنیا میں واحد ایک ایسی قوم تھی کو جو امریکا کی مدد کرسکتی تھی اور ہم نے یہ کام بڑی تندہی اور جانفشانی سے سرانجام بھی دیا۔ ہم چاہتے تو اُس وقت ایٹمی دھماکے کر کے خود کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں شمار کروا سکتے تھے۔ امریکا اُن دنوں ہمارے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے اور اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔ اُسے اُس وقت ہماری مدد اور تعاون کی اشد ضرورت تھی، مگر جنرل ضیا نے یہ سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ جنرل ضیا اُس افغان وارکو اپنی جنگ سمجھ کر لڑتے رہے اور قربانی دیتے رہے۔

ایٹمی دھماکے کرنے کا یہ کام بعد ازاں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے سر انجام دیا۔انھیں گرچہ اِس کام کاخمیازہ قبل ازوقت اقتدار سے محرومی اور جلاوطنی کی صورت میں بھگتنا پڑا لیکن انھوں نے بہرحال یہ کام کر دکھایا۔ میاں نواز شریف ہمارے اُن حکمرانوں میں سے ایک ہیں جنھیں جب جب حکومت کرنے کا موقعہ ملا انھوں نے اِس ملک کو ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کی کوشش ضرورکی۔ اُن کی راہ میں بے شمار مشکلیں آئیں اور روڑے اٹکائے گئے لیکن وہ اپنی اِ س خصلت سے بازنہیں آئے۔

اِس ملک میں موٹروے بنانے کا منصوبہ بھی انھوں نے اپنے سب سے پہلے دورحکومت میں شروع کیا۔ وہ دو دو اور ڈھائی ڈھائی سال میں محروم اقتدار کیے جاتے رہے لیکن وہ اپنے اِس مشن کو بھی آگے بڑھاتے رہے۔موٹر وے کے بعد ایک اور عظیم الشان منصوبہ''سی پیک'' کی شکل میں انھوں نے بالآخر اِس قوم کو دیا۔ سی پیک منصوبے کے دعویدار تو بہرحال اور بھی لوگ ہیں لیکن عملی شکل میں اِس منصوبے پرکام شروع کرنے کا کریڈٹ صرف میاں نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔

میاں نواز شریف نے انفرا اسٹرکچرکا جال بچھایا وہاں اِس ملک سے اندھیروں کو بھی مٹایا۔ توانائی اور بجلی کے ایسے منصوبے شروع کیے جن سے اگر صحیح معنوں میں استفادہ کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب یہاں بجلی کی کوئی لوڈ شیڈنگ ہوسکے۔ انھوں نے اپنے اِس دور میں عسکری قوتوں کے ساتھ مل کر سارے ملک سے اُس دہشتگردی کاخاتمہ بھی کرڈالا۔کراچی شہر کو 30 سال بعد اگر امن و امان نصیب ہوا تو وہ بھی اُنہی کے دورکا کارنامہ ہے جن سے ہم قطعی طور پر انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ اُن سے پہلے برسر اقتدار آنے والے حکمراں اِس ضمن میں کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کر سکے، بلکہ وہ دانستہ وغیردانستہ طور پر شہرکی تباہی و بربادی کے ذمے دار بنے رہے۔

خان صاحب کو آج اگر حکمرانی کرنے کے لیے ایک سازگار اور پرسکون ماحول میسر ہے تووہ بھی میاں صاحب کی اُن کاوشوں اورکوششوں کی بدولت ہے جو وہ اپنے دور میں کرگئے ہیں،ورنہ اگر 2013ء والاماحول اور فضا موجود ہوتی توخان صاحب کی ترجیحات بھی وہ نہ ہوتیں جو آج دکھائی دے رہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں بجلی اورگیس کا وہ بحران ہرگز نہیں ہے جو 2013ء میں تھا۔ سی این جی اسٹیشنوں پرگاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کا وہ منظر آج کسی شہر میں بھی نہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

ملک بھرکے شہروں اور قصبوں میں وہ بم دھماکے اور خود کش حملے آج نہیں ہورہے جو اُس وقت روزانہ کی بنیادوں پر ہو رہے تھے۔ کراچی شہر کے امن وامان کا فائدہ بھی آج خان صاحب کی پارٹی کو حاصل رہا کہ وہ وہاں سے قومی اسمبلی کی 14نشستوں پرکامیاب ہوپائی ورنہ اگر حالات پرانی ڈگر پر چل رہے ہوتے تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شاید ایک سیٹ بھی نہ مل پاتی۔ معاشی و اقتصادی حوالے سے یہ بھی ایک ٹھوس اور روشن حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے اِن چار سال میں ہمارا وطن مالی مشکلات سے باہر نکل کر ایک بار پھرکامیابیوں کی جانب بڑھنے لگا تھا۔

زرمبادلہ کے ذخائر پہلی مرتبہ بلندیوں کوچھونے لگے تھے۔ مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے بادل چھٹ چکے تھے۔ ہم نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ کر خود کو اُس کے شکنجے سے باہر بھی نکال دیا تھا۔ ایوب دورکے بعد میاں صاحب کا سابقہ دور ایسا گزرا ہے جس میں ہمیں اپنے مستقبل کے حوالے سے سارے خطرات اور خدشات زائل ہوتے دکھائی دینے لگے تھے اور یہ اُمید بندھنے لگی تھی کہ ہم آیندہ چند سال میں ایک ترقی یافتہ قوم کے طور پر دنیا میں اپنا مقام منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے سارے اندازے یہی عندیہ دے رہے تھے کہ اگلا الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیت جائے گی۔ مگر سیاسی رزم آرائی پر اپنی گرفت قائم رکھنے والوں نے ساری بساط ہی اُلٹ کر رکھ دی۔ عارضی اور وقتی طور پر میاں صاحب ایک ناکام و نامراد حکمراں کے طور سیاسی منظر نامے سے غائب ضرور کردیے گئے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو شاید پتہ نہیں کہ تاریخ جھوٹ نہیں بولا کرتی، وہ انھیں ایک درد مند محب وطن سچے پاکستانی حکمراں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں