عثمان بزدار…پنجاب کی نئی اُمید
بزدار قبیلے نے تاریخ میں اپنے نام کی لاج رکھ لی تھی جب وہ انگریز حکمران کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے تھے۔
آج عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے 3ہفتے گزر گئے، اُن کی کابینہ (ٹیم)بھی کم و بیش مکمل ہو چکی، اس دوران اُن پر خاصی تنقید بھی رہی، کبھی انھیں نیب زدہ قرار دے دیا گیا، تو کبھی قتل کا مجرم قرار دے کر عمران خان کو فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہاگیا، لیکن بعد میں سارے الزام غلط ثابت ہوئے اور عمران بھی عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
قوم کو وزیر اعظم عمران خان پر تو سو فیصد یقین ہے مگر اُن کی ٹیم پر اکثر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔ اس لیے عثمان بزدار کے منتخب ہونے سے پہلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے اُن پر ہر طرف سے بہت پریشر تھا، لہٰذاعمران خان نے ایک ایسے شخص کو تلاش کیا جو ایماندار تھا ، جو بے داغ تھا اور عمران خان پنجاب کی مڈل کلاس کوآگے لے کر آنا چاہتے تھے۔
اس حوالے سے عمران خان کا کہنا ہے کہ جب عثمان بزدار پی ٹی آئی جوائن کرنے ان کے پاس بنی گالہ آئے تو وہ واحد ایم پی اے تھے، جنہوں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ نہ وزارت مانگی اور نہ ہی کوئی شرائط رکھیں۔ عمران خان حیران ہوئے جب عثمان بزدار نے کہا کہ ان کے علاقے کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے،لیکن وہاں کوئی اسپتال تک نہیں ہے، لہٰذا ان کے جوائن کرنے کے بدلے،اگر وہ انھیں وہاں چھوٹا سا اسپتال بنوا دیں گے، تو وہ سمجھیں گے کہ ان کو سیاسی قیمت مل گئی۔
عمران خان نے کہا: جو لوگ عثمان بزدار پر تنقید کررہے ہیں،میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ تین ماہ انتظار کریں۔ تین ماہ بعد مجھے پھر بتانا اور یہی عثمان بزدار ہی کام کرے گا اور نہیں کرے گا، تو پھر بتانا، میں پھر آپ کی باتیں مان لوں گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عثمان بزدار کا منتخب ہونا اُن سب سیاستدانوں کے لیے ایک پیغام ہے جو ہمیشہ یا تو اپنے رشتے دار کو وزیر اعلیٰ بناتے ہیں۔یا اپنے کسی ارب پتی، کھرب پتی دوست احباب کو نوازتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عثمان بزدار تخت ِلاہور پر بیٹھ کر اپنے وسیب کو اُداس نظروں سے دیکھے گا یا صوبہ بنواکر وسیب کی تاریخ میں ہیرو کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
کوہِ سلیمان کے دامن میں سرائیکی اور بلوچی دو لسانی یا Bilingual لوگوں کے 9بڑے قبیلے آباد ہیں۔ میدانی علاقوں میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے جب کہ پہاڑی علاقوں میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ یوں عثمان بزدار Bilingual ہیں۔ جو اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے آبائی علاقے میں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پانی۔ لیکن سادہ لوح علاقہ مکین پھر بھی خوش ہیں۔ اور امید لگا بیٹھے ہیں کہ اب ان کے پسماندہ علاقے کی قسمت بدلے گی۔ سردار عثمان بزدار تعلیم و ترقی کی راہیں کھولیں گے۔
اس علاقے میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ستر سال سے جوہڑ کا پانی پی رھے ہیں۔ ہمارے گدھے، جانور اور ہم ایک ہی گھاٹ کا پانی پیتے ہیں۔مقامی آبادی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی، بیلوں سے بمشکل چٹانی علاقے میں ہل چلایا جاتا ہے۔ بزرگ و مرد چھپر چھاؤں تلے وقت گزارتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ کی بہت ساری محرومیاں ہیں۔
یہاں بنیادی سہولیات تک نہیں ہیں۔ سڑکیں، بجلی اور گیس نہیں ھے۔ اگر کچھ اسکول ہیں تو ان کی چار دیواری نہیں ہے۔ مگر یہ سادہ لوگ پھر بھی خوش ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ہمیں عزت بخشی ہے۔ انھوں نے ہمارے علاقہ کے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب نامزد کیا ہے ہم ان کے تہہ دل سے شکرگزار ہیں۔بقول شاعر
بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
سوال یہ بھی ہے کہ عثمان بزدار اگر سرداری نظام کی جڑیںسبزکرتے ہیں تو ان کی صوبیداری تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوگی، عمران خان کے فیصلے پر ہونے والی حیرت عبرت میں بدل جائے گی لیکن بطور ایک قبیلہ ہمیں بزداروں کے بارے میں بہت سی خوش فہمیاں ہیں۔
بزدار قبیلے نے تاریخ میں اپنے نام کی لاج رکھ لی تھی جب وہ انگریز حکمران کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے تھے۔ مزاحمت پر ان کے سردارں اور علاقوں کو نظرانداز کیا گیا۔ پریم چند نے کہا کہ غم نداری بزبخر مگر بلوچوں کی بکریوں نے ان کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ بلوچوں میں بکریاں پالنا ان کی جغرافیائی اور معاشی مجبوری ہے۔
عثمان بزدار کو مگر چرواہے کا طعنہ سن کر دکھ ہوا ہوگا۔ لیکن کم از کم پنجاب کے سابق حکمرانوں کے مقابلے میں عثمان بزدار کہیں بہتر ہے۔ اس قبیلے کا تعلق تونسہ سے ہے اور تونسہ ''یونان صغیر'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سب سوالات اور وسوسے ضمنی ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بزدار قبیلہ جس میں پڑھے لکھے افراد اور پروفیشنلز کی تعداد کافی ہے اپنے رہنما کے مشن کو پورا کرنے کے لیے کیا کرتا ہے۔
عمران خان کو سرائیکی وسیب کی طرف سے محبت اور سلامتی کا پیغام ہے۔ اس نے عثمان خان بزدار جیسے شریف اورمتوسط طبقے کے سیاسی ورکر کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ امید ہے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کو پورا کریں گے کہ وسیب کا نیا صوبہ پاکستان کو ایک متوازن وفاق بنانے کی کلید ہے اور اس وقت تمام سیاسی جماعتیں صوبے کی حامی ہیں۔
عثمان خان بزدار سے ہماری توقعات اور طرح کی ہیں۔ اس جنوبی پنجاب صوبے کے بننے سے پہلے پورا وسیب ان سے کچھ امیدیں اور توقعات رکھتا ہے۔ اقبال سوکڑی تونسہ کا ایک روشن دماغ شاعر ہے۔ دانش کا استعارہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو فوری طور پر بارتھی ، وہوا اور تونسہ تحصیلوں پر مشتمل ضلع بنانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ تونسہ یونان صغیر ہے وہاں ایک یونیورسٹی کا بننا پاکستان کی تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح کوٹ ادو کو ضلع بنانا اہم ہے تو مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کا قیام نہایت اہم ہے۔
ہمارے نزدیک مظفرگڑھ سے میاں علمدار قریشی کے نام پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ بزدار قبیلے کی اندرونی حرکیات سے قطع نظر مہرے والا کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دینا چاہیے کہ مہرے والا وسیب کا ثقافتی مرکز ہے۔ عثمان بزدار مہرے والے کا دورہ کر کے وسیب کے لوگوں، شاعروںاور دانشوروں کے دل جیت سکتے ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو وزیراعلیٰ صوبہ بننے سے پہلے بہت بآسانی کر سکتے ہیں۔
میرے خیال میں عثمان بزدار کے لیے بھی ایک ایسا تاریخی وقت آیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تاریخ میں امر ہو سکتا ہے۔ اس کے پاس موقع ہے کہ اب اُس کا نام بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے۔ اس کے پاس موقع ہے کہ وہ پنجاب کی محرومی کو دور کر سکے ۔پنجاب کے عوام گزشتہ دس سال سے پسے ہوئے تھے۔اور ایک فرد واحد کے بے ڈھنگے منصوبوں کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔ انھیں اُمید ہوئی ہے کہ اب عثمان بزدار کے آنے کے بعد ہر چیز میرٹ پر ہوگی۔
بہرکیف قوم کو اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اُن کے لیے ہر لحاظ سے بہتر ثابت ہوں گے، اداروں میں میرٹ کو ترجیح دیں گے، سردار عثمان خان بزدار نے ماضی کی روایات کے برعکس ایوان وزیراعلیٰ کے دروازے کھول دیے۔ کسی بھی رُکن اسمبلی کو ملاقات کے لیے خاص تردد نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے خود کو عمران خان کا سپاہی قرار دیتے ہوئے 100روزہ پلان پر عمل درآمد کے لیے کمرکس لی ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے لیکن عثمان بزدار پُرعزم بھی ہیں اور پُرامید بھی۔
انھوں نے آتے ہی پنجاب پولیس میں بھی تبدیلی کی جو باز گشت سنائی ہے اس سے یقینا اس صوبے میں اُن کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا اور اُمید واثق ہے کہ ہر ادارے میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وژن کو آگے بڑھائیں گے ۔
قوم کو وزیر اعظم عمران خان پر تو سو فیصد یقین ہے مگر اُن کی ٹیم پر اکثر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔ اس لیے عثمان بزدار کے منتخب ہونے سے پہلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے اُن پر ہر طرف سے بہت پریشر تھا، لہٰذاعمران خان نے ایک ایسے شخص کو تلاش کیا جو ایماندار تھا ، جو بے داغ تھا اور عمران خان پنجاب کی مڈل کلاس کوآگے لے کر آنا چاہتے تھے۔
اس حوالے سے عمران خان کا کہنا ہے کہ جب عثمان بزدار پی ٹی آئی جوائن کرنے ان کے پاس بنی گالہ آئے تو وہ واحد ایم پی اے تھے، جنہوں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ نہ وزارت مانگی اور نہ ہی کوئی شرائط رکھیں۔ عمران خان حیران ہوئے جب عثمان بزدار نے کہا کہ ان کے علاقے کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے،لیکن وہاں کوئی اسپتال تک نہیں ہے، لہٰذا ان کے جوائن کرنے کے بدلے،اگر وہ انھیں وہاں چھوٹا سا اسپتال بنوا دیں گے، تو وہ سمجھیں گے کہ ان کو سیاسی قیمت مل گئی۔
عمران خان نے کہا: جو لوگ عثمان بزدار پر تنقید کررہے ہیں،میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ تین ماہ انتظار کریں۔ تین ماہ بعد مجھے پھر بتانا اور یہی عثمان بزدار ہی کام کرے گا اور نہیں کرے گا، تو پھر بتانا، میں پھر آپ کی باتیں مان لوں گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عثمان بزدار کا منتخب ہونا اُن سب سیاستدانوں کے لیے ایک پیغام ہے جو ہمیشہ یا تو اپنے رشتے دار کو وزیر اعلیٰ بناتے ہیں۔یا اپنے کسی ارب پتی، کھرب پتی دوست احباب کو نوازتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عثمان بزدار تخت ِلاہور پر بیٹھ کر اپنے وسیب کو اُداس نظروں سے دیکھے گا یا صوبہ بنواکر وسیب کی تاریخ میں ہیرو کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
کوہِ سلیمان کے دامن میں سرائیکی اور بلوچی دو لسانی یا Bilingual لوگوں کے 9بڑے قبیلے آباد ہیں۔ میدانی علاقوں میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے جب کہ پہاڑی علاقوں میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ یوں عثمان بزدار Bilingual ہیں۔ جو اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے آبائی علاقے میں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پانی۔ لیکن سادہ لوح علاقہ مکین پھر بھی خوش ہیں۔ اور امید لگا بیٹھے ہیں کہ اب ان کے پسماندہ علاقے کی قسمت بدلے گی۔ سردار عثمان بزدار تعلیم و ترقی کی راہیں کھولیں گے۔
اس علاقے میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ستر سال سے جوہڑ کا پانی پی رھے ہیں۔ ہمارے گدھے، جانور اور ہم ایک ہی گھاٹ کا پانی پیتے ہیں۔مقامی آبادی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی، بیلوں سے بمشکل چٹانی علاقے میں ہل چلایا جاتا ہے۔ بزرگ و مرد چھپر چھاؤں تلے وقت گزارتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ کی بہت ساری محرومیاں ہیں۔
یہاں بنیادی سہولیات تک نہیں ہیں۔ سڑکیں، بجلی اور گیس نہیں ھے۔ اگر کچھ اسکول ہیں تو ان کی چار دیواری نہیں ہے۔ مگر یہ سادہ لوگ پھر بھی خوش ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ہمیں عزت بخشی ہے۔ انھوں نے ہمارے علاقہ کے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب نامزد کیا ہے ہم ان کے تہہ دل سے شکرگزار ہیں۔بقول شاعر
بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
سوال یہ بھی ہے کہ عثمان بزدار اگر سرداری نظام کی جڑیںسبزکرتے ہیں تو ان کی صوبیداری تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوگی، عمران خان کے فیصلے پر ہونے والی حیرت عبرت میں بدل جائے گی لیکن بطور ایک قبیلہ ہمیں بزداروں کے بارے میں بہت سی خوش فہمیاں ہیں۔
بزدار قبیلے نے تاریخ میں اپنے نام کی لاج رکھ لی تھی جب وہ انگریز حکمران کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے تھے۔ مزاحمت پر ان کے سردارں اور علاقوں کو نظرانداز کیا گیا۔ پریم چند نے کہا کہ غم نداری بزبخر مگر بلوچوں کی بکریوں نے ان کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ بلوچوں میں بکریاں پالنا ان کی جغرافیائی اور معاشی مجبوری ہے۔
عثمان بزدار کو مگر چرواہے کا طعنہ سن کر دکھ ہوا ہوگا۔ لیکن کم از کم پنجاب کے سابق حکمرانوں کے مقابلے میں عثمان بزدار کہیں بہتر ہے۔ اس قبیلے کا تعلق تونسہ سے ہے اور تونسہ ''یونان صغیر'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سب سوالات اور وسوسے ضمنی ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بزدار قبیلہ جس میں پڑھے لکھے افراد اور پروفیشنلز کی تعداد کافی ہے اپنے رہنما کے مشن کو پورا کرنے کے لیے کیا کرتا ہے۔
عمران خان کو سرائیکی وسیب کی طرف سے محبت اور سلامتی کا پیغام ہے۔ اس نے عثمان خان بزدار جیسے شریف اورمتوسط طبقے کے سیاسی ورکر کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ امید ہے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کو پورا کریں گے کہ وسیب کا نیا صوبہ پاکستان کو ایک متوازن وفاق بنانے کی کلید ہے اور اس وقت تمام سیاسی جماعتیں صوبے کی حامی ہیں۔
عثمان خان بزدار سے ہماری توقعات اور طرح کی ہیں۔ اس جنوبی پنجاب صوبے کے بننے سے پہلے پورا وسیب ان سے کچھ امیدیں اور توقعات رکھتا ہے۔ اقبال سوکڑی تونسہ کا ایک روشن دماغ شاعر ہے۔ دانش کا استعارہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو فوری طور پر بارتھی ، وہوا اور تونسہ تحصیلوں پر مشتمل ضلع بنانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ تونسہ یونان صغیر ہے وہاں ایک یونیورسٹی کا بننا پاکستان کی تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح کوٹ ادو کو ضلع بنانا اہم ہے تو مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کا قیام نہایت اہم ہے۔
ہمارے نزدیک مظفرگڑھ سے میاں علمدار قریشی کے نام پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ بزدار قبیلے کی اندرونی حرکیات سے قطع نظر مہرے والا کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دینا چاہیے کہ مہرے والا وسیب کا ثقافتی مرکز ہے۔ عثمان بزدار مہرے والے کا دورہ کر کے وسیب کے لوگوں، شاعروںاور دانشوروں کے دل جیت سکتے ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو وزیراعلیٰ صوبہ بننے سے پہلے بہت بآسانی کر سکتے ہیں۔
میرے خیال میں عثمان بزدار کے لیے بھی ایک ایسا تاریخی وقت آیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تاریخ میں امر ہو سکتا ہے۔ اس کے پاس موقع ہے کہ اب اُس کا نام بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے۔ اس کے پاس موقع ہے کہ وہ پنجاب کی محرومی کو دور کر سکے ۔پنجاب کے عوام گزشتہ دس سال سے پسے ہوئے تھے۔اور ایک فرد واحد کے بے ڈھنگے منصوبوں کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔ انھیں اُمید ہوئی ہے کہ اب عثمان بزدار کے آنے کے بعد ہر چیز میرٹ پر ہوگی۔
بہرکیف قوم کو اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اُن کے لیے ہر لحاظ سے بہتر ثابت ہوں گے، اداروں میں میرٹ کو ترجیح دیں گے، سردار عثمان خان بزدار نے ماضی کی روایات کے برعکس ایوان وزیراعلیٰ کے دروازے کھول دیے۔ کسی بھی رُکن اسمبلی کو ملاقات کے لیے خاص تردد نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے خود کو عمران خان کا سپاہی قرار دیتے ہوئے 100روزہ پلان پر عمل درآمد کے لیے کمرکس لی ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے لیکن عثمان بزدار پُرعزم بھی ہیں اور پُرامید بھی۔
انھوں نے آتے ہی پنجاب پولیس میں بھی تبدیلی کی جو باز گشت سنائی ہے اس سے یقینا اس صوبے میں اُن کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا اور اُمید واثق ہے کہ ہر ادارے میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وژن کو آگے بڑھائیں گے ۔