پاک امریکا تعلقات کی سیاسی پیچیدگی
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ماضی میں بھی کوئی بہت بڑے مثالی نہیں تھے۔
پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات میں موجود سیاسی پیچیدگی سے انکار ممکن نہیں۔ یہ تعلقات محض دونوں فریقین کے درمیان ایک دو ملاقاتوں سے بہتر نتائج بھی نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ دونوں ممالک میں جو بداعتمادی کے سائے ہیں وہ کافی گہرے نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ماضی میں بھی کوئی بہت بڑ ے مثالی نہیں تھے۔ہمیشہ ایک دوسرے کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس غالب رہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں امریکا اپنے مفادات کے تحت پاکستانی اقدامات کی تعریف کرتا ہے وہیں ڈو مور کے نام پر مزید دباو ڈالنے کی سیاست کو بھی ایک بڑے ''ہتھیار'' کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔
ہمارے جو سیاسی اور عالمی سیاست کی باریک بینی کا فہم رکھنے والے جو دوست یا ماہرین حالیہ دنوں میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیواور دیگر حکام سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے سربراہ سے ملاقاتوں کی بنیاد پر کوئی بڑا جادوئی فیصلہ یا کوئی بڑی تبدیلی کا پہلو سمجھ رہے تھے ، وہ غلطی پر تھے ۔بنیادی طورپر اس ملاقات کو حالیہ پاکستان امریکا تعلقات کی بہتری کے تناظر میں ''برف پگھلنے'' کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ حالیہ ملاقات کا نتیجہ مستقبل میں کیا رنگ دکھاتا ہے اس کا انحصار بڑی حد تک خود امریکی قیادت پر ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برملا اعتراف کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تعطل ہوگیا ہے اوراس کی وجہ اعتماد سازی کا فقدان ہے ۔پہلی بات ہمیں یہ سمجھنی ہوگی کہ دونوں ملکوں یعنی امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگی۔ان تعلقات کی بہتر ی کا براہ راست تعلق خطہ کی صورتحال ، پاکستان بھارت اورافغانستان تعلقات میں بہتری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
امریکا اس وقت پاکستان سے پانچ بنیادی مطالبات میں پیشرفت چاہتا ہے ۔ اول پاکستان سی پیک کے منصوبے میں چین پر حد سے انحصار نہ کرے اور اس میں امریکی مفادات کو بھی مقدم رکھے ۔ دوئم افغانستان کے بحران میں وہ افغان حکومت اور افغان طالبا ن کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکالے۔ سوئم پاکستان دہشتگردی کے معاملات پر بھارت اور افغانستان کے تحفظات کو دور کرے اور دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو مکمل ختم کرے ،اسی تناظر میں ڈو مور کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔چہارم پاکستان بھارت سے تعلقات کی بہتری کی طرف پیشرفت کرے اور خطہ میں بھارت کی بالادستی کی حیثیت کو قبول کرے۔پنجم پاکستان کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کا بڑا اتحادی ہے تو اسے اس جنگ میں امریکی مفادات سمیت جوابدہ بھی ہونا ہوگا۔
جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے بھی امریکا کے ساتھ کچھ تحفظات ہیں ۔اول پاکستان سمجھتا ہے کہ دہشتگردی کی جنگ میں جو کلیدی کردار ہم نے ادا کیا ہے اسے امریکا سمیت عالمی سطح پر وہ قبولیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے تھی ۔ ہم پر جو شک کیا جاتا ہے، اس سے پاکستان میں امریکا کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور جو مالی امداد ہے وہ بھی بہت کم ہے ۔ دوئم امریکا اس غلطی سے باہر نکلے کے افغان طالبان ہماری کٹھ پتلی ہیں ۔ افغان بحران کے حل میں ناکامی پاکستان کی نہیں بلکہ خود امریکا اوراس کی شرائط پر بننے والی کمزور افغان حکومت کی ہے ۔سوئم بھارت سے تعلقات کی خرابی کی وجہ ہم نہیں بلکہ خود بھارت ہے ۔ چہارم جو شواہد اور ثبوت ہم نے امریکا سمیت عالمی دنیا کو بھارت اور افغان مداخلت اورہمیں غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے پیش کیے اس پر بھی امریکی ردعمل بہت کمزور ہے ، جس پر پاکستان میں ردعمل موجود ہے۔
امریکا کی سب سے بڑی پریشانی افغانستان کے حالات ہیں ۔ اب تک اس نے طاقت کے زور پر یا سیاسی مفاہمت کے نام پر جو حکمت عملی اختیار کی وہ ناکام ہوئی ہے ۔طاقت کی یہ لڑائی امریکا کو مسئلہ کے حل کی طرف لے جانے کے بجائے اسے اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے ۔امریکا کے اندر سے بھی خودامریکا پر دباو ہے کہ وہ پرامن افغان حل کی طرف بڑھے اور اس مسئلہ کا حل سیاسی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا جو افغان طالبان سے مفاہمت چاہتا ہے تو اس کے نتیجہ میں افغان طالبان کو کیا ملے گا، اس کا کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں ۔افغان حکومت کی ساکھ پہلے ہی سوالیہ نشان ہے اور اب بھی افغانستان کے بیشتر علاقوں میں طالبان کا قبضہ ہے۔ماضی میں پاکستان نے جو افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی جو بیٹھک مری میں سجائی تھی اسے افغان بھارت انٹیلی جنس ایجنسی نے ثبوتاژکرکے خود پاکستان کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے اور افغان طالبان پاکستان پراندھا اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ جو حالیہ دنوں میں امریکا اورپاکستان کے درمیان بات چیت اور اس کے ایجنڈے پر تنازعہ سامنے آیا وہ غیر فطری نہیں ہے۔کیونکہ دونوں ممالک اپنے اپنے ایجنڈے پر قائم ہیں اور عملا ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔ امریکا اگر واقعی پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے ماضی کے روائتی انداز، رنگ اور ڈھب کو ختم کرنا ہو گا۔اس وقت بظاہر پاکستان میںسیاسی اور فوجی قیادت ایک پیچ پر ہیں اورجو کچھ بھی پاکستان کی طرف سے ہوگا وہ باہمی ہوگا اوراس میں ماضی کا تضاد کم دیکھنے کو ملے گا۔
امریکا کو بنیادی طور پر پاکستان کے مسائل ، مشکلات اور ضرورتوں کو نئے حالات میں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے مفاد کو بھی کیسے مقدم رکھا جاسکتا ہے ۔پاکستان میں ماضی کی حکومت کے مقابلے میں اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی موجود ہیں ۔ وہ پہلے بھی اس منصب پر رہ چکے ہیں ۔اصل کردار پاکستان نے سیاسی اور سفارتی محاذپر مضبوط ڈپلومیسی کی صورت میں ادا کرنا ہے ۔ہم سفارتی محاذ پر ماضی میں وہ کچھ نہیں کرسکے جو ہم ایک بہتر مقدمہ لڑنے کی صورت میں کرسکتے تھے ۔
دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان جو دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے اس کا براہ راست تعلق خطہ اور عالمی سیاست کے استحکام کے ساتھ جڑ ا ہے۔عالمی دنیا کو پاکستان کے مشکل حالات میں دشمن کے بجائے دوست سمجھ کر کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ہمیں امریکا کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلارکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان کی مدد اور حمایت کے بغیر امریکا افغان مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرسکے گا اوراس میں ہمارے اپنے درست سمت میں کھیلے گئے کارڈز کا کردار اہم ہوگا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ماضی میں بھی کوئی بہت بڑ ے مثالی نہیں تھے۔ہمیشہ ایک دوسرے کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس غالب رہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں امریکا اپنے مفادات کے تحت پاکستانی اقدامات کی تعریف کرتا ہے وہیں ڈو مور کے نام پر مزید دباو ڈالنے کی سیاست کو بھی ایک بڑے ''ہتھیار'' کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔
ہمارے جو سیاسی اور عالمی سیاست کی باریک بینی کا فہم رکھنے والے جو دوست یا ماہرین حالیہ دنوں میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیواور دیگر حکام سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے سربراہ سے ملاقاتوں کی بنیاد پر کوئی بڑا جادوئی فیصلہ یا کوئی بڑی تبدیلی کا پہلو سمجھ رہے تھے ، وہ غلطی پر تھے ۔بنیادی طورپر اس ملاقات کو حالیہ پاکستان امریکا تعلقات کی بہتری کے تناظر میں ''برف پگھلنے'' کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ حالیہ ملاقات کا نتیجہ مستقبل میں کیا رنگ دکھاتا ہے اس کا انحصار بڑی حد تک خود امریکی قیادت پر ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برملا اعتراف کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تعطل ہوگیا ہے اوراس کی وجہ اعتماد سازی کا فقدان ہے ۔پہلی بات ہمیں یہ سمجھنی ہوگی کہ دونوں ملکوں یعنی امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگی۔ان تعلقات کی بہتر ی کا براہ راست تعلق خطہ کی صورتحال ، پاکستان بھارت اورافغانستان تعلقات میں بہتری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
امریکا اس وقت پاکستان سے پانچ بنیادی مطالبات میں پیشرفت چاہتا ہے ۔ اول پاکستان سی پیک کے منصوبے میں چین پر حد سے انحصار نہ کرے اور اس میں امریکی مفادات کو بھی مقدم رکھے ۔ دوئم افغانستان کے بحران میں وہ افغان حکومت اور افغان طالبا ن کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکالے۔ سوئم پاکستان دہشتگردی کے معاملات پر بھارت اور افغانستان کے تحفظات کو دور کرے اور دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو مکمل ختم کرے ،اسی تناظر میں ڈو مور کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔چہارم پاکستان بھارت سے تعلقات کی بہتری کی طرف پیشرفت کرے اور خطہ میں بھارت کی بالادستی کی حیثیت کو قبول کرے۔پنجم پاکستان کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کا بڑا اتحادی ہے تو اسے اس جنگ میں امریکی مفادات سمیت جوابدہ بھی ہونا ہوگا۔
جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے بھی امریکا کے ساتھ کچھ تحفظات ہیں ۔اول پاکستان سمجھتا ہے کہ دہشتگردی کی جنگ میں جو کلیدی کردار ہم نے ادا کیا ہے اسے امریکا سمیت عالمی سطح پر وہ قبولیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے تھی ۔ ہم پر جو شک کیا جاتا ہے، اس سے پاکستان میں امریکا کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور جو مالی امداد ہے وہ بھی بہت کم ہے ۔ دوئم امریکا اس غلطی سے باہر نکلے کے افغان طالبان ہماری کٹھ پتلی ہیں ۔ افغان بحران کے حل میں ناکامی پاکستان کی نہیں بلکہ خود امریکا اوراس کی شرائط پر بننے والی کمزور افغان حکومت کی ہے ۔سوئم بھارت سے تعلقات کی خرابی کی وجہ ہم نہیں بلکہ خود بھارت ہے ۔ چہارم جو شواہد اور ثبوت ہم نے امریکا سمیت عالمی دنیا کو بھارت اور افغان مداخلت اورہمیں غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے پیش کیے اس پر بھی امریکی ردعمل بہت کمزور ہے ، جس پر پاکستان میں ردعمل موجود ہے۔
امریکا کی سب سے بڑی پریشانی افغانستان کے حالات ہیں ۔ اب تک اس نے طاقت کے زور پر یا سیاسی مفاہمت کے نام پر جو حکمت عملی اختیار کی وہ ناکام ہوئی ہے ۔طاقت کی یہ لڑائی امریکا کو مسئلہ کے حل کی طرف لے جانے کے بجائے اسے اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے ۔امریکا کے اندر سے بھی خودامریکا پر دباو ہے کہ وہ پرامن افغان حل کی طرف بڑھے اور اس مسئلہ کا حل سیاسی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا جو افغان طالبان سے مفاہمت چاہتا ہے تو اس کے نتیجہ میں افغان طالبان کو کیا ملے گا، اس کا کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں ۔افغان حکومت کی ساکھ پہلے ہی سوالیہ نشان ہے اور اب بھی افغانستان کے بیشتر علاقوں میں طالبان کا قبضہ ہے۔ماضی میں پاکستان نے جو افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی جو بیٹھک مری میں سجائی تھی اسے افغان بھارت انٹیلی جنس ایجنسی نے ثبوتاژکرکے خود پاکستان کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے اور افغان طالبان پاکستان پراندھا اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ جو حالیہ دنوں میں امریکا اورپاکستان کے درمیان بات چیت اور اس کے ایجنڈے پر تنازعہ سامنے آیا وہ غیر فطری نہیں ہے۔کیونکہ دونوں ممالک اپنے اپنے ایجنڈے پر قائم ہیں اور عملا ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔ امریکا اگر واقعی پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے ماضی کے روائتی انداز، رنگ اور ڈھب کو ختم کرنا ہو گا۔اس وقت بظاہر پاکستان میںسیاسی اور فوجی قیادت ایک پیچ پر ہیں اورجو کچھ بھی پاکستان کی طرف سے ہوگا وہ باہمی ہوگا اوراس میں ماضی کا تضاد کم دیکھنے کو ملے گا۔
امریکا کو بنیادی طور پر پاکستان کے مسائل ، مشکلات اور ضرورتوں کو نئے حالات میں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے مفاد کو بھی کیسے مقدم رکھا جاسکتا ہے ۔پاکستان میں ماضی کی حکومت کے مقابلے میں اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی موجود ہیں ۔ وہ پہلے بھی اس منصب پر رہ چکے ہیں ۔اصل کردار پاکستان نے سیاسی اور سفارتی محاذپر مضبوط ڈپلومیسی کی صورت میں ادا کرنا ہے ۔ہم سفارتی محاذ پر ماضی میں وہ کچھ نہیں کرسکے جو ہم ایک بہتر مقدمہ لڑنے کی صورت میں کرسکتے تھے ۔
دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان جو دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے اس کا براہ راست تعلق خطہ اور عالمی سیاست کے استحکام کے ساتھ جڑ ا ہے۔عالمی دنیا کو پاکستان کے مشکل حالات میں دشمن کے بجائے دوست سمجھ کر کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ہمیں امریکا کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلارکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان کی مدد اور حمایت کے بغیر امریکا افغان مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرسکے گا اوراس میں ہمارے اپنے درست سمت میں کھیلے گئے کارڈز کا کردار اہم ہوگا۔