پاکستان ایک آزاد ملک
شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لے کر اقتصادی راہداری کا منصوبہ دونوں دوست ممالک کی ترقی کے ضامن ہیں۔
چین کے ساتھ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزواعظم ہے چین صرف ہمارا ہمسایہ نہیں بلکہ دوست بھی ہے اس ہمسائے نے قیام پاکستان کے لے کر آج تک اپنی ہمسائیگی کا حق بھی ادا کیا ہے اور پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے چاہے وہ بھارت کے ساتھ جنگ کا معاملہ ہو یا امریکا کی دھمکیاں چین نے ہمیشہ پاکستان کی دفاعی لائن کا کردار ادا کیا ہے۔
شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لے کر اقتصادی راہداری کا منصوبہ دونوں دوست ممالک کی ترقی کے ضامن ہیں۔ چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر انڈیل دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سرمایہ کاری میں اس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے لیکن اس مفاد کے ساتھ پاکستان کا مفاد بھی اس میںشامل ہے کہ مستقبل کی معاشی سپر پاور اور دنیا کے ایک بڑے ملک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے تا کہ آنے والا کل پاکستان کی ترقی میں روشنی کی امید بن کر ابھرے۔
حسب سابق پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں وہ ملک کی مختلف شخصیات کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان سے بھی ملے لیکن اس ملاقات کا کوئی باقاعدہ مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا کہ ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا اعتراف کریں اور اس مد میں جو فنڈ دیا جاتا ہے اسے جاری رکھا جائے اس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے دہشتگردوں کے خلاف مزید اقدامات پر زور دیا۔ یعنی فریقین نے ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچا دی ہے اور فیصلے کے لیے گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں جو سرد مہری تھی اس کا خاتمہ ہوا ہے۔
بہر حال پاکستا ن امریکا تعلقات کے بارے میں جو بھی کہیں ہمارا اور امریکا کا ساتھ ایک کمزور اور طاقتور کا ساتھ ہے اور ایسے ساتھ میں ہمیشہ کمزور ہی پستا ہے۔ کیونکہ طاقتور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے اور ہم پاکستانی آج سے قبل کئی دفعہ امریکا کی باتیں من و عن مان چکے ہیں بلکہ ایک دفعہ تو امریکا کی جانب سے حیرت کا بھی اظہار کیا گیا کہ ہم نے جو مطالبہ نہیں کیا تھا وہ بھی مان لیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ پاکستان سے سیدھے بھارت تشریف لے گئے اور وہاں جا کر انھوں نے وہی کچھ کہا اور کیا جو کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے جس میں بھارت کی منشاء کے مطابق پاکستان کی مخالفت میں اقدامات کی یقین دہانی بھی شامل ہے۔ پاکستان اگرچہ بھارت سمیت تمام ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں اس کا ذکر بھی کیا مگر ماضی میں جو تلخ تجربے ہو چکے ہیں ان سے صرف نظر بھی ممکن نہیں۔
واشنگٹن اور دہلی کے تعلقات کی نوعیت پاکستان سے تعلقات کی نسبت مختلف ہوتی ہے امریکا یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں بھارت کا کلیدی کردار ہو جو کہ آج کے حالات کے تناظر میں ممکن نہیں کیونکہ امریکا اور بھارت جس قدر بھی افغانستان میں مداخلت کر لیں افغانستان کے عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اس کے لیے گو کہ پاکستان نے مشکل وقت کا بھی مقابلہ کیا ہے اور اپنی افغانستان کے ساتھ طویل ترین سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن اس سب کے باوجود افغانیوں کا پاکستان میں وجود ایک حقیقت ہے اور ابھی ایسی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی کہ مہاجرین کی شکل میں آئے افغانی بھائیوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔
بھارت اور امریکا میں مستقبل کے معاہدوں کو پاکستان کے لیے ایک پیغام قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ان دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کے بے شمار معاہدے موجود ہیں جو کہ پاکستان مخالف ہیں لیکن ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کو کبھی کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ پاکستان ایک حقیقت کا نام ہے اور اس حقیقت کا ادراک امریکا سمیت بھارت کو بھی ہے۔ ہمیں ان تازہ معاہدوں کے مضمرات پر نظر رکھنے کی ضرورت تو ہے کہ ان کے نتیجہ میں پاکستان کی خطے میں حیثیت کو کیا خطرات لاحق ہوں گے لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ پاکستان ایک زندہ حقیقت کے طور پر اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے، جس کی امریکا کے علاوہ بھارت کو بھی ضرورت ہے۔
بھارت نے دشمنی کا ڈول تو دونوں ملکوں کے قیام کے وقت ہی ڈال دیا تھا اور بعد میں بھارت نے ہم پر جنگیں مسلط کر کے اور پاکستان کے دوٹکڑے کر کے اس میں شدت پیدا کر دی جس کی وجہ سے ہمسائیہ ممالک ایٹم کی صلاحیت تک پہنچ گئے اور اب پاکستان دنیا کے نقشے پر واحد ایٹمی اسلامی مملکت کے طور پر موجود ہے لیکن بھارت اور امریکا کا ابھی یہ مشترکہ خیال ہے کہ دہشتگردی کی کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور وہ اپنے اس بیانیے پر پاکستان کی وضاحتوں کے باوجود مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں اور پاکستان کو مجرم قرار دے چکے ہیں یعنی امریکا بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملا چکا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ عمران خان کے دورہ چین کے منتظر بھی ہیں۔ چین ایسا ہمسائیہ اور دوست ملک ہے جس نے ہر محاذ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اگر کسی عالمی طاقت نے پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو چین فوراً پاکستان کی مدد کے لیے ساتھ آن کھڑا ہوا۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں دشمن طاقتوںکا پرو پیگنڈہ عروج پر ہے۔
اقتصادی راہداری کا منصوبہ ان کو کھٹک رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں دوست ممالک کے درمیان بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا کر کے اس منصوبے کو تاخیر کا شکار کیا جائے لیکن چین اور پاکستان نے ان کوششوں کا جواب دیتے ہوئے اس اہم منصوبے پر کام کی رفتار کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔ بہرکیف ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کودہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے موقف سے بھر پور آگاہی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں اور دنیا کو پاکستان کا اصل چہرہ دکھایا جائے تا کہ عالمی طاقتوں کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لگائے گئے الزامات کو دھویا جا سکے۔
شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لے کر اقتصادی راہداری کا منصوبہ دونوں دوست ممالک کی ترقی کے ضامن ہیں۔ چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر انڈیل دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سرمایہ کاری میں اس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے لیکن اس مفاد کے ساتھ پاکستان کا مفاد بھی اس میںشامل ہے کہ مستقبل کی معاشی سپر پاور اور دنیا کے ایک بڑے ملک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے تا کہ آنے والا کل پاکستان کی ترقی میں روشنی کی امید بن کر ابھرے۔
حسب سابق پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں وہ ملک کی مختلف شخصیات کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان سے بھی ملے لیکن اس ملاقات کا کوئی باقاعدہ مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا کہ ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا اعتراف کریں اور اس مد میں جو فنڈ دیا جاتا ہے اسے جاری رکھا جائے اس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے دہشتگردوں کے خلاف مزید اقدامات پر زور دیا۔ یعنی فریقین نے ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچا دی ہے اور فیصلے کے لیے گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں جو سرد مہری تھی اس کا خاتمہ ہوا ہے۔
بہر حال پاکستا ن امریکا تعلقات کے بارے میں جو بھی کہیں ہمارا اور امریکا کا ساتھ ایک کمزور اور طاقتور کا ساتھ ہے اور ایسے ساتھ میں ہمیشہ کمزور ہی پستا ہے۔ کیونکہ طاقتور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے اور ہم پاکستانی آج سے قبل کئی دفعہ امریکا کی باتیں من و عن مان چکے ہیں بلکہ ایک دفعہ تو امریکا کی جانب سے حیرت کا بھی اظہار کیا گیا کہ ہم نے جو مطالبہ نہیں کیا تھا وہ بھی مان لیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ پاکستان سے سیدھے بھارت تشریف لے گئے اور وہاں جا کر انھوں نے وہی کچھ کہا اور کیا جو کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے جس میں بھارت کی منشاء کے مطابق پاکستان کی مخالفت میں اقدامات کی یقین دہانی بھی شامل ہے۔ پاکستان اگرچہ بھارت سمیت تمام ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں اس کا ذکر بھی کیا مگر ماضی میں جو تلخ تجربے ہو چکے ہیں ان سے صرف نظر بھی ممکن نہیں۔
واشنگٹن اور دہلی کے تعلقات کی نوعیت پاکستان سے تعلقات کی نسبت مختلف ہوتی ہے امریکا یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں بھارت کا کلیدی کردار ہو جو کہ آج کے حالات کے تناظر میں ممکن نہیں کیونکہ امریکا اور بھارت جس قدر بھی افغانستان میں مداخلت کر لیں افغانستان کے عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اس کے لیے گو کہ پاکستان نے مشکل وقت کا بھی مقابلہ کیا ہے اور اپنی افغانستان کے ساتھ طویل ترین سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن اس سب کے باوجود افغانیوں کا پاکستان میں وجود ایک حقیقت ہے اور ابھی ایسی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی کہ مہاجرین کی شکل میں آئے افغانی بھائیوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔
بھارت اور امریکا میں مستقبل کے معاہدوں کو پاکستان کے لیے ایک پیغام قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ان دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کے بے شمار معاہدے موجود ہیں جو کہ پاکستان مخالف ہیں لیکن ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کو کبھی کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ پاکستان ایک حقیقت کا نام ہے اور اس حقیقت کا ادراک امریکا سمیت بھارت کو بھی ہے۔ ہمیں ان تازہ معاہدوں کے مضمرات پر نظر رکھنے کی ضرورت تو ہے کہ ان کے نتیجہ میں پاکستان کی خطے میں حیثیت کو کیا خطرات لاحق ہوں گے لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ پاکستان ایک زندہ حقیقت کے طور پر اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے، جس کی امریکا کے علاوہ بھارت کو بھی ضرورت ہے۔
بھارت نے دشمنی کا ڈول تو دونوں ملکوں کے قیام کے وقت ہی ڈال دیا تھا اور بعد میں بھارت نے ہم پر جنگیں مسلط کر کے اور پاکستان کے دوٹکڑے کر کے اس میں شدت پیدا کر دی جس کی وجہ سے ہمسائیہ ممالک ایٹم کی صلاحیت تک پہنچ گئے اور اب پاکستان دنیا کے نقشے پر واحد ایٹمی اسلامی مملکت کے طور پر موجود ہے لیکن بھارت اور امریکا کا ابھی یہ مشترکہ خیال ہے کہ دہشتگردی کی کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور وہ اپنے اس بیانیے پر پاکستان کی وضاحتوں کے باوجود مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں اور پاکستان کو مجرم قرار دے چکے ہیں یعنی امریکا بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملا چکا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ عمران خان کے دورہ چین کے منتظر بھی ہیں۔ چین ایسا ہمسائیہ اور دوست ملک ہے جس نے ہر محاذ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اگر کسی عالمی طاقت نے پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو چین فوراً پاکستان کی مدد کے لیے ساتھ آن کھڑا ہوا۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں دشمن طاقتوںکا پرو پیگنڈہ عروج پر ہے۔
اقتصادی راہداری کا منصوبہ ان کو کھٹک رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں دوست ممالک کے درمیان بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا کر کے اس منصوبے کو تاخیر کا شکار کیا جائے لیکن چین اور پاکستان نے ان کوششوں کا جواب دیتے ہوئے اس اہم منصوبے پر کام کی رفتار کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔ بہرکیف ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کودہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے موقف سے بھر پور آگاہی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں اور دنیا کو پاکستان کا اصل چہرہ دکھایا جائے تا کہ عالمی طاقتوں کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لگائے گئے الزامات کو دھویا جا سکے۔