بدترین بحران میں ن لیگ کو زندہ رکھنے والی کلثوم رخصت ہوئیں

شوہر پر ابتلا آئی تو خاتونِ خانہ کا کردارترک کرکے پارٹی کی مردانہ وار قیادت کی ذمہ داری نبھائی۔

شوہر پر ابتلا آئی تو خاتونِ خانہ کا کردارترک کرکے پارٹی کی مردانہ وار قیادت کی ذمہ داری نبھائی۔ فوٹو: فائل

تین بار پاکستان کی خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نوازشریف اپنے شوہر کی وزارت اعلیٰ سے پہلی اور دوسری وزارت عظمیٰ تک مسلسل سیاست کے میدان سے دور رہیں، ان کی سیاسی زندگی کا پہلا دن تھا جب 12اکتوبر1999ء کو اُس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی بیگم کلثوم نواز کو حراست میں لے لیا گیا تھا، انھیں فوری طور پر ان کی رہائش گاہ پر نظربند کردیا گیا تھا۔ وہ عجب آزمائش کا شکار تھیں، شوہر اور بیٹے حراست میں لئے جاچکے تھے، اس خاتون کی اپنی والدہ علیل تھیں، گھر میں صرف وہ، چھوٹی بیٹی اسماء، ایک بہن اور بھانجی تھیں۔ اس حالت میں انھوں نے اپنی والدہ کو بڑی بہن کے ہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن نظربند کرنے والے فوجی اہلکاروں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر بیگم کلثوم نے ایسا فیصلہ کیا جس نے بہت سوں کو انگشت بدنداں کردیا۔

بیگم کلثوم نواز نے اپنی زندگی کے اُس سیاسی باب کو کتاب'جبراور جمہوریت' کی شکل دی، جس میں انھوں نے ان صعوبتوں کا ذکر کیا جس کا انھیں سامنا رہا:''میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر میجر سے کہا:'' نہ صرف یہ ( امی اور بڑی بہن) بلکہ میں بھی جائوں گی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی نہیں رہ سکتی۔ میں اپنی ساس اور سسر کے پاس رائے ونڈ جائوں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں''۔ میجر نے کہا کہ آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے، میں نے میجر سے کہا کہ تم روک سکتے ہو تو روک لو۔ گولیاں چلانا چاہتے ہوتو شوق پورا کرلو... میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا ہے ۔ مجھے یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگاہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔ میں نے اپنے اور بیٹی کے کپڑے اور چند ضروری چیزیں گاڑی میں رکھوائیں اور دوملازموں کے ساتھ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب کہ میری بڑی بہن والدہ کے ساتھ پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پھر میں نے میجر سے کہا:''میں جارہی ہوں''۔ گاڑی چل پڑی اور میجر خاموشی سے دیکھتا رہا، اسے گیٹ بند کرانے کی جرات نہ ہوئی''۔

بیگم کلثوم لکھتی ہیں:'' جب نظربندی کا خاتمہ ہوا تو بہت جلد میرے علم میں آٰیا کہ وہ لوگ جو میاں صاحب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے اور زمین وآسمان کے قلابے ملاتے تھے، طوطاچشم ہوچکے ہیں۔ ابھی جمہوریت پر تلوارچلے ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ کچھ اپنوں کے ایسے بیانات آنے شروع ہوگئے کہ جیسے وہ مدتوں سے ان حالات کے متمنی تھے... وہ پرویزمشرف کے سامنے نمبر بنانے کی دوڑ میں صاف نظر آرہے تھے... انھوں نے آمریت سے مفاہمت کی خواہش کا اظہار کرناشروع کردیاتھا''۔



پرویزمشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں بیگم کلثوم نواز کو باربار پابندیوں کاسامنا رہا لیکن وہ نہایت ہوشیاری سے ان پابندیوں کو ناکام بناتی رہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ لکھتے ہوئے وہ بتاتی ہیں:''15اکتوبر کو مجلس تحفظ پاکستان کا اجتماع شاہدرہ (لاہور) میں منعقد کرنے کا پروگرام تھا مگرمیرے ماڈل ٹائون سے نکلنے پر پہرے لگادئیے گئے تھے۔ میں پہلے تو وہاں پر ہی میں مختلف لوگوں سے اس معاملے پر بحث کرتی رہی مگر جب انھوں نے میری ایک نہ سنی تو ان کو گفتگو میں مصروف چھوڑ کرگھر کے اندرونی حصے میں چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد گاڑی کی پچھلی نشست پر جابیٹھی اور اپنے سر کو نسبتاً جھکالیا۔ ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی سٹارٹ کرے۔ خداکا کرنا ایسا ہوا کہ جب وہ چلنے لگا توایک آفیسر نے اس سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا کہ بیگم صاحبہ نے کچھ اشیامنگوائی ہیں۔ وہ آفیسر مجھے دیکھ ہی نہ سکا اور بھرے لہجے میں کہنے لگا کہ اچھاجائو اور اس طرح میں ماڈل ٹائون سے باہر نکل گئی مگر شاید میرے نکلنے کے فوراً بعد ماڈل ٹائون میں ان لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ میں نکلنے میں کامیاب ہوچکی ہوں چنانچہ انھوں نے میری شاہدرہ میں متوقع آمد کے پیش نظر جمع کارکنوں کو بیدردی سے پیٹنا شروع کردیا اور زبردست تشدد کرکے ہمارے پروگرام کو طاقت کے بل بوتے پر منعقد نہ ہونے دیا''۔

1999ء سے 2002ء تک کی اپنی سیاسی جدوجہد کے بارے میں بیگم کلثوم نواز نے لکھا کہ میں نے اپنے تئیں ہرقسم کے حالات کامقابلہ کیا، اپنی فہم وفراست سے سامنا کیا اور صرف میں نہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا کے مدبر اور سرکردہ سفارت کار بھی کہہ رہے ہیں اور عالمی میڈیا میں بھی یہ تاثر عام طور پر اجاگر کیاجارہاہے کہ پاکستان خدانخواستہ داخلی کشمکش کے بھنور سے نکلنے کی بجائے غالباً جنگ وجارحیت کا نشانہ بننے کے علاوہ خانہ جنگی کابھی شکار ہوسکتاہے۔ میں نے خودساختہ فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف کو یہی نوشتہ دیوار پڑھانے کی کوشش کی۔ ملک کے تحفظ کا ایک نکاتی ایجنڈا، قادیانی انقلاب(یادرہے کہ بیگم کلثوم نواز 12اکتوبر1999ء کے فوجی انقلاب کو قادیانی انقلاب سمجھتی اور قراردیتی تھیں) کے خاتمے اور وسیع تر قومی مفادکے لئے عوامی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا، اسے قومی یکجہتی کا مشترکہ ایجنڈا کہا''۔

میاں نوازشریف نے حراست کے دوران ہی میں اپنی اہلیہ کو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر مقررکردیا اور پھر ان کی بیٹی مریم نواز کہتی ہیں کہ بیگم کلثوم نواز نے اس وقت غاصب کو لکارا جب بہت سے مرد میدان چھوڑ گئے تھے۔ بیگم کلثوم نواز اس عہدے پر 2002ء تک فائز رہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کے تین برسوں کے دوران میں متعدد بار کہا کہ وہ سیاست میں نہیں آناچاہتی تھیں، وہ تو حالات کی وجہ سے یہاں آئی ہیں اور جونہی ملک اور جمہوریت کے مصائب وآلام ختم ہوئے ، وہ واپس اپنے گھر چلی جائیں گی اور پھر ایسا ہوا، جب انھوں نے اپنا سیاسی ہدف حاصل کرلیا تو وہ گھرچلی گئیں اور جاویدہاشمی کو پارٹی کی باگ ڈور تھمادی گئی۔

وہ لکھتی ہیں:'' میں نے پورے عزم، حوصلے اور استقلال کے ساتھ اپنی تقریروں میں اس بات کو تسلسل کے ساتھ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ قومی جرم اور خیانت پر کبھی کسی کو ہرگزمعاف نہیں کیاجاسکتا جبکہ ذاتی جرم اور زیادتی کو اسلام کے جذبہ ترحم کے تحت معاف کیاجاسکتاہے۔ سقوطہ ڈھاکہ ایک اجتماعی قومی جرم تھا، اسی طرح کارگل، دراس اور بٹالک سیکٹر کی اصل حقیقت کو چھپانا بھی ایک قومی جرم ہے جسے بالکل معاف نہیں کیاجاسکتا۔1857ء کی تحریک آزادی اور1940ء کی تحریک پاکستان کے مقاصد کی ہم آہنگی کو ختم کرنا، قادیانی سازش اور یہودوہنود کی پالیسی کا حصہ ہے''۔

بیگم کلثوم نواز سمجھتی تھیں کہ میاں محمد نوازشریف کو(1999ء میں) اسلامی نظام کے نفاذ سے روکنے کے لئے شبخون مار کر جیل میں ڈالاگیا کیونکہ اگرجمہوریت ختم نہ کی جاتی تو مارچ2000ء میں قرآن وسنت مملکت کا سپریم لاء بن چکے ہوتے مگرلادینی قوتوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ وہ کس قسم کی خیالات اور نظریات کی مالکہ تھیں، اس کا اظہار ان کی ایک تقریر سے ہوتاہے جس میں انھوں نے اس وقت کی پرویزمشرف حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا:'' میں یہاں خودساختہ حکومت کے ایجنڈے کی وضاحت کرتی ہوں کہ ان کے نزدیک بنیاد پرست وہ ہے جس نے چہرے پر داڑھی رکھی ہوئی ہو، پانچ وقت کا نمازی ہو، جو زندگی کے ہرمعاملہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو اپنے سامنے رکھ کر فیصلے کرتاہو، جو جذبہ جہاد سے سرشار ہو، قرآن جس کا منشور ہوا ور جہاد جس کی منزل ہو۔ اگراس کا نام بنیاد پرستی ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہر پیدا ہونے والا مسلمان بنیاد پرست ہے۔ اگراللہ کے سامنے سربسجود رہنے کا نام بنیاد پرستی ہے تو میں سب سے بڑی بنیاد پرست ہوں۔ یاد رکھو اگرتمھیں تحریک پاکستان کے مطالعہ کا وقت ملے ، وقت تو ضرور ملے گا، اس کے بعد تم فارغ ہی ہو، نظریہ پاکستان سے لے کر وجود پاکستان تک تمھیں اپنے ہیروبنیاد پرست ہی ملیں گے۔

جنرل صاحب! آپ نے جس عسکری زندگی میں آنکھ کھولی اس کا ماٹو بھی 'ایمان ، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ' ہے اور یہ ایک سچے مسلمان کی اپنے اللہ کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔(انھوں نے جنرل مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) پتہ نہیں کہ پچھلے27 سال کمٹمنٹ کس کے ساتھ رہی اور آج کمٹمنٹ کس کے ساتھ نبھا رہے ہیں؟ یاد رکھو! تمھاری حکومت دینی مدارس، جہادی تنظیموں اور تبلیغی مراکز کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، نہ تو تم نمرود سے زیادہ پاورفل ہو، اور نہ تمھارے فرعون جتنی طاقت ہے کہ تم ایک حکم پر اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کروالو گے بلکہ تم تو خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہو''۔

تمام تجزیہ نگار اور ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ بیگم صاحبہ نے اس مشکل دور میں پوری بہادری کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا حتیٰ کہ جنرل پرویزمشرف کو ادراک ہوگیا کہ شریف خاندان کو قیدوبند میں رکھنا ان کے لئے خطرناک ثابت ہوگا چنانچہ پھر وہ واقعہ پیش آیا جسے ' ڈیل' یا 'جدہ روانگی' کا عنوان دیاجاتاہے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں میں میاں نوازشریف کی حکومت ختم ہوتے ہی پارٹی کے حالات کو تفصیلاً بیان کیاکہ کس طرح پارٹی رہنما بے وفائی کی راہ پر چل پڑے۔ اس کے بعد انھوں نے باقی ماندہ پارٹی کے ساتھ دیگر جماعتوں سے رابطے شروع کئے ، انھیں جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس میں انھیں بہت زیادہ کامیابی نصیب نہ ہوئی البتہ ن لیگ کو سیاسی میدان میں زندہ رکھنا ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کا ہر کوئی اعتراف کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ء کے عام انتخابات سے قبل میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف وطن واپس آئے اور ان انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ایک بڑی پارٹی کے طور پر اپنا وجود منوایا جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ سوچئے! بیگم کلثوم نواز 1999ء کے بعد میدان میں نہ نکلتیں، جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کے خلاف جدوجہد نہ کرتیں تو کیا آنے والے برسوں میں مسلم لیگ ن کا کوئی نام لیوا بھی ہوتا!!

بیگم کلثوم نواز کی سیاسی زندگی کا آخری معرکہ لاہور کے حلقہ این اے 120 کا ضمنی انتخاب تھا جس میں وہ کامیاب ہوئیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت کلثوم نواز کوما میں تھیں جب کہ نواز شریف اور مریم نواز بھی لندن میں ہی موجود تھے۔ مسلم لیگ ن کے بدترین مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز ایک دلیر اورمتین خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین بھی ان کے انتقال پر غم زدہ ہیں۔

بیگم کلثوم نواز ایک کتاب کی مصنفہ بھی تھیں


بیگم کلثوم نواز کی اردو ادب میں گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے ممتاز فکشن نگار قرۃ العین حیدر کے لاہور آنے پر، ان سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے اپنا ایم اے اردو کا مقالہ ''فسانہ عجائب'' پر لکھا، جو بعد میں کتابی صورت میں شایع ہوا۔ اس کی تفصیل معروف کالم نگار زاہدہ حنا نے 'ایکسپریس' میں شائع ہونے والے ایک کالم میں یوں بیان کی ہے:

''1824 کا زمانہ تھا جب لکھنو میں ایک کتاب ''فسانہ عجائب'' لکھی گئی۔ 1843 میں وہ پہلی مرتبہ شایع ہوئی تو ایک تہلکہ مچ گیا۔ میرامن کی ''باغ و بہار'' غالب کی شاعری اور خطوط اور رتن ناتھ سرشار کے ''فسانہ آزاد'' کی طرح ''فسانہ عجائب'' کی اشاعت بھی انیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک بڑا واقعہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے لگ بھگ ڈیڑھ صدی بعد لاہور کی ایک طالبہ کو اس کے استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ہدایت کی کہ بی بی ایم اے کا اپنا تھیسس تم رجب علی بیگ سرور پر لکھو۔ طالبہ نے ڈاکٹر عبادت کی ہدایت گرہ میں باندھی، ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں اس نے لکھنو اور رجب علی بیگ سرور پر درجنوں کتابیں اور مخطوطے پڑھے اور پھر اپنا مقالہ ''رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور'' لکھا اور اپنے استاد محترم کی خدمت میں پیش کردیا۔ 1985 میں اس لڑکی کا مقالہ لاہور کے ایک پبلشر نے کتابی صورت میں شائع کیا، کچھ لوگوں تک وہ کتاب پہنچی، کچھ تک نہ پہنچی۔ میں نے کراچی میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان سے وہ خریدی، پڑھی اور اپنے کئی دوستوں سے اس کا تذکرہ کیا، کتاب کی داد دی۔ افسوس کا اظہار کیا کہ خدا جانے یہ لڑکی کہاں گئی اور بعد میں اس نے کیا کچھ لکھا۔

ان ہی دنوں لاہور جانا ہوا، ڈاکٹر آغا سہیل کی خدمت میں حاضری دی، لڑکی نے اپنے دیباچے میں آغا بھائی کا حوالہ بہت محبت سے دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو، آغا بھائی ضرور جانتے ہوں گے کہ وہ لڑکی اب کہاں ہے۔ ان سے دریافت کیا تو وہ بہت پراسرار انداز میں مسکرائے پھر کہنے لگے '' تمہیں واقعی نہیں معلوم؟'' ''اجی معلوم ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتی۔'' میں نے الجھ کر کہا۔ ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی شریک حیات کی لکھی ہوئی ہے، کتاب کے فلیپ پر یا کتاب کے اندر کہیں بھی ان کا مکمل نام نہیں لکھا تھا، اس لیے مجھے یہ گمان کیوں گزرتا۔''

سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز 29 مارچ 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ برصغیر کے عظیم شہ زور رستم زماں گاماں پہلوان کی نواسی تھیں۔ یوں ان کے خاندان کا شمار لاہور کے ممتاز گھرانوں میں ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، ایف سی کالج سے گریجویشن کی اور بعدازاں 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ اپریل 1971ء میں ان کی شادی میاں نواز شریف کے ساتھ انجام پائی۔ ان کی دو بیٹیاں مریم اور عاصمہ اور دو بیٹے حسن نواز اور حسین نواز ہیں۔

یکم نومبر 1990ء میں جب نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو بیگم کلثوم نواز خاتون اول کہلائیں۔ اس وقت نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما تھے اور اس اتحاد نے قومی اسمبلی کی کل 207 نشستوں میں سے 104 پر کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائی، تاہم جولائی 1993ء میں نواز شریف کی حکومت برخاست کردی گئی۔ جب 1997 میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور دوسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے تو کلثوم نواز نے بھی، اس دوسری مدت کے لیے خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس مرتبہ بھی نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور 12 اکتوبر 1999ء کو طیارہ سازش کیس کے معاملے میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔

بیگم کلثوم نواز کو ان کی سرکاری رہائش گاہ سے گرفتار کرکے ان کے ذاتی گھر منتقل کردیا گیا۔ ان نامساعد حالات میں جب پارٹی کے تمام اہم قائدین جدوجہد پر آمادہ نہیں تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے بحالی جمہوریت کی جدوجہد کی قیادت کی اور ثابت قدمی کے ساتھ آمریت کا مقابلہ کیا۔ 1999ء میں نواز شریف نے اپنی اہلیہ کو پارٹی کا صدر نامزد کردیا اور 2002ء تک وہ اس عہدے پر فائز رہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کی تو بیگم کلثوم نواز کو تیسری مرتبہ خاتون اول بننے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔

بیگم کلثوم نواز نے اپنی زندگی کا آخری سیاسی معرکہ ستمبر 2017ء میں ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے انجام دیا۔ پانامہ پیپرز کیس میں اپنے شوہر نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 پر بیگم کلثوم نواز نے پاکستان تحریک انصاف کی یاسمین راشد کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ اگست 2017ء میں انہیں گلے کے سرطان کا عارضہ لاحق ہونے کی تشخیص ہوئی۔ وہ لندن میں زیر علاج تھیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق جون 2018ء کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد انہیں وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا پڑا۔11 ستمبر 2018ء کو لندن میں شریف خاندان کے ذرائع نے ان کی رحلت کی تصدیق کردی۔



سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا

بیگم کلثوم نواز کو 22 اگست 2017 کو لندن میں گلے کے کینسر کا مرض تشخیص ہوا اور وہاں کے مشہور ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ان کا علاج شروع ہوگیا۔ اس سے قبل جولائی 2017 کے اواخر میں نوازشریف کو سپریم کورٹ کے حکم سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہل قرار دے دیا اور وہ اقتدار سے باہر ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ملک گیر جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا اور وہ مسلسل ملک کے مقتدر اداروں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین ان کے اس بیانیے کو ملک کیلئے خطرناک قرار دیتے رہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں سیاستدان ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر بھی کیچڑ اچھالتے ہیں۔

کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد ہوا اور یہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ اس سلسلے کو فروغ دینے والے بعدازاں خود ہی اس کی زد میں آگئے۔ پاکستان میں چونکہ 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا اسی وجہ سے سیاسی میدان گرم تھا۔ اپوزیشن نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اہم سیاسی ایشو کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ 6 مارچ 2018 کو شریف خاندان نے بتایا کہ لندن میں بیگم کلثوم نواز کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے اس پر اپوزیشن نے بظاہر تو ہمدردی کے بول بولے لیکن بین السطور اس معاملے کو اس تناظر میں لیا جانے لگا کہ شاید شریف خاندان بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو عوام سے سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

جون 2018 تک حالت یہ ہوگئی کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت میں بہت زیادہ خرابی کی اطلاعات کو شریف خاندان کی سیاسی حکمت عملی پر محمول کیا جانے لگا اسی دوران کیونکہ پاکستان میں احتساب عدالت نوازشریف کے دونوں بیٹوں کو عدم پیشی کی بنیاد پر اشتہاری قرار دے چکی تھی اس وجہ سے ان کے اپنی والدہ کی بیماری بارے کیے جانے والے ٹوئیٹس کو عوام کے جذبات اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش سمجھا جانے لگا اور مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کی سوشل میڈیا ٹیمز کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ بیگم کلثوم نواز اتنی بیمار نہیں ہیں جتنا شریف خاندان ظاہر کررہا ہے۔

14 جون 2018 کو بیگم کلثوم نواز کو دل کے دورے کے بعد وینٹیلیٹر پر منتقل کئے جانے کی خبروں نے تو گویا افوائوں کا طوفان برپا کردیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کے چند سرکردہ رہنمائوں نے تو یہاں تک کہا کہ یہ سب شریف خاندان کی سیاسی سکیم کا حصہ ہے۔ ان کے بقول شریف خاندان کی حکمت عملی یہ تھی کہ جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آئے گی ویسے ویسے شریف خاندان بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا تاکہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔
Load Next Story