بیگم کلثوم نواز کی وفات پر سیاست نہ چمکائیے
بیگم کلثوم نواز کی وفات ایک اندوہناک سانحہ ضرور ہے لیکن اس سے میاں نواز شریف معصوم اور بے گناہ ثابت نہیں ہوتے۔
کل سہ پہر لندن سے یہ اندوہناک خبر آئی کہ بیگم کلثوم نواز شریف، سرطان سے لڑتے لڑتے بالآخر جان کی بازی ہار گئیں اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں (اِنّاللہ واِنّا اِلیہ راجِعُون)۔ سچ تو یہ ہے کہ مرحومہ کا مقام تین مرتبہ خاتونِ اوّل رہنے کے مقابلے میں کہیں بلند تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ روایتی خاتونِ خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی تدبر رکھنے والی باہمت خاتون بھی تھیں۔
اگر ایک طرف انہوں نے اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں ان کی سیاسی جماعت (مسلم لیگ ن) کی باگ ڈور سنبھالے رکھی تو دوسری جانب اپنے پورے خاندان کو یکجا و یکجان رکھنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ یہاں ان تلخ واقعات کا تذکرہ مقصود نہیں لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں میاں نواز شریف کی گھریلو زندگی میں کئی گفتنی و ناگفتنی مواقع ایسے آئے کہ جب ان کے خاندان کا شیرازہ بکھرنے کو تھا؛ مگر اُس آڑے وقت میں بیگم کلثوم نواز نے صبر و تحمل، فہم و فراست اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام اہلِ خانہ کو اکٹھا کیے رکھا۔ غرض بیگم کلثوم نواز کی وفات، میاں نواز شریف کے خاندان کےلیے ایک ایسا سانحہ ہے جس کا ازالہ شاید کبھی نہ ہو پائے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز لندن میں انتقال کرگئیں
مرحومہ کی شخصیت ایسی تھی کہ جس کی عظمت کے صرف دوست ہی نہیں، دشمن بھی معترف تھے۔ مثلاً معروف کالم نگار جناب حامد میر نے، جو میاں نواز شریف پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں، بیگم کلثوم نواز کے بارے میں اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے ایک بار لکھا:
البتہ، میرا مقصد مرحومہ کلثوم نواز کی سوانح کھنگالنا نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے حامیوں اور مخالفین کے اُس چلن کا تذکرہ ہے جس کا مظاہرہ وہ بار بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر کرنے میں تاحال مصروف ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز کی زندگی پر ایک نظر
چند ماہ پہلے ''ایکسپریس بلاگ'' میں بیگم کلثوم نواز شریف کی علالت سے متعلق ایک ہمدردانہ بلاگ شائع کیا گیا تھا جس پر نون لیگ کے مخالفین نے طنز اور استہزاء کے ایسے ایسے نشتر چلائے تھے کہ جو اخلاقیات کی حدود سے ماوراء تھے۔ سیاسی مخالفت اور حمایت کے چکر میں شاید ہم بھول چکے ہیں کہ انسانی معاشرے میں ادب، تمیز، تہذیب، شائستگی اور اخلاق کی کیا اہمیت و ضرورت ہے۔ آج بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر بھی وہی کہانی ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: محترمہ کلثوم نواز زندہ ہیں یا...
ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں - کسی نہ کسی وجہ سے، جائز یا ناجائز طور پر - مسلم لیگ ن اور شریف خاندان سے شدید مخاصمت ہے تو دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو مسلم لیگ ن، شریف خاندان اور میاں محمد نواز شریف وغیرہم کی شان میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے کو فرضِ عین سمجھتا ہے اور قصیدہ گوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر اِن دونوں گروہوں کی سرگرمیاں، بلکہ کارگزاریاں دیکھ کر کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر بھی پڑھیے: نواز شریف اور کلثوم نواز کے درمیان آخری ملاقات کی ویڈیو منظرعام پر
سوشل میڈیا پر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بیگم کلثوم نواز کے انتقال کو - دبے لفظوں میں یا کھلے بندوں - کسی سازش یا ''پہلے سے طے شدہ منصوبے'' کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اس نوع کا اظہارِ خیال ان کی فکری پستی کا ثبوت ہے نہ کہ شرلاک ہومز ہونے کا۔
یہ بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز کی یادگار تصاویر
اس کے برعکس، ایک بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات حسرت آیات کو بنیاد بناتے ہوئے حسن، حسین، مریم، صفدر اور خود میاں نواز شریف کو دنیا کی مظلوم ترین ہستیوں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ کل شام سے اب تک نیوز چینلز پر مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی چھوٹے بڑے رہنماؤں کو گفتگو کرتے دیکھا، ان کی اکثریت بیگم کلثوم نواز کی وفات پر افسوس اور تعزیت کرنے سے زیادہ ''شریف خاندان کی مظلومیت'' اور ''میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں'' کا نوحہ پڑھنے میں مصروف تھی۔
کچھ دیر پہلے جب انٹرنیٹ مزید کھنگالا تو معلوم ہوا کہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کا تذکرہ ''استعمال'' کرتے ہوئے بعض کالم نگاروں اور بلاگروں نے پاکستان کے عدالتی نظام اور پاک فوج تک پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ جو لوگ میاں نواز شریف کو ''معصوم'' سمجھتے ہیں - یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں - وہ میاں صاحب کو مجرم کے بجائے ''سیاسی قیدی'' قرار دینے پر مُصِر ہیں۔ کچھ قلم کار دُہائی دے رہے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں بیٹے اپنی ماں کی تدفین میں شرکت نہیں کرسکتے۔
بعض کہنہ مشق صحافی، عوام کو ایک بار پھر سے یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ ''پاناما'' پر چلا تھا لیکن انہیں سزا ''اقامہ'' پر سنائی گئی... یعنی وہ ''مظلوم ترین ہستی'' ہیں جنہیں عدالتی جبر کے ذریعے پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ یہ دعوے کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ میاں صاحب کو اُن کے حقیقی جرائم پر تو کوئی سزا سنائی ہی نہیں گئی۔ غیر سیاسی اور غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاناما جے آئی ٹی کی دس کی دس جلدیں سامنے رکھتے ہوئے تفتیش کی جاتی تو میاں صاحب کو صرف نااہلی ہی نہیں بلکہ اپنی تمام جائیداد کی قرقی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا... اور کوئی بعید نہیں کہ وہ سزائے موت کے سزاوار بھی قرار پاتے۔
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے چاہنے والوں سے معذرت، لیکن بیگم کلثوم نواز کی وفات اور میاں نواز شریف کے جرائم پر ملنے والی سزاؤں میں - کہ جن میں ان کی بیٹی، داماد اور دونوں بیٹے شریکِ جرم رہے ہیں - کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بیگم کلثوم نواز شریف ایک عظیم عورت تھیں جنہوں نے ضرورت پڑنے پر سیاست میں بھی حصہ لیا اور گھریلو محاذ تک پر مضبوطی سے جمی رہیں؛ اور یہ کہ ان کی وفات بلاشبہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ لیکن اس سے کہیں بھی یہ طے نہیں ہوتا کہ ان کی وفات سے میاں نواز شریف ''مظلوم'' اور ''معصوم'' ہوگئے ہیں، یا یہ کہ میاں صاحب پر لگنے والے سارے الزامات اور ان کے ثابت شدہ جرائم یکسر ختم ہوگئے ہیں۔
آخر میں اتنا مزید کہوں گا کہ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ایک سانحہ ہے، اسے تماشا نہ بنائیے... سیاست چمکانے کےلیے ان گنت مواقع مل جائیں گے، بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات پر اپنی سیاست نہ چمکائیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر ایک طرف انہوں نے اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں ان کی سیاسی جماعت (مسلم لیگ ن) کی باگ ڈور سنبھالے رکھی تو دوسری جانب اپنے پورے خاندان کو یکجا و یکجان رکھنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ یہاں ان تلخ واقعات کا تذکرہ مقصود نہیں لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں میاں نواز شریف کی گھریلو زندگی میں کئی گفتنی و ناگفتنی مواقع ایسے آئے کہ جب ان کے خاندان کا شیرازہ بکھرنے کو تھا؛ مگر اُس آڑے وقت میں بیگم کلثوم نواز نے صبر و تحمل، فہم و فراست اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام اہلِ خانہ کو اکٹھا کیے رکھا۔ غرض بیگم کلثوم نواز کی وفات، میاں نواز شریف کے خاندان کےلیے ایک ایسا سانحہ ہے جس کا ازالہ شاید کبھی نہ ہو پائے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز لندن میں انتقال کرگئیں
مرحومہ کی شخصیت ایسی تھی کہ جس کی عظمت کے صرف دوست ہی نہیں، دشمن بھی معترف تھے۔ مثلاً معروف کالم نگار جناب حامد میر نے، جو میاں نواز شریف پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں، بیگم کلثوم نواز کے بارے میں اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے ایک بار لکھا:
''مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں سیف الرحمان کو احتساب بیورو کا سربراہ بنا دیا اور سیف الرحمان اپنے ہاتھ میں احتساب ایکٹ 1997 کا گنڈاسا لے کر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی چڑھ دوڑے۔ اُن دنوں سیف الرحمان کبھی کسی اخبار کا نیوز پرنٹ بند کراتے تو کبھی کسی کے پرنٹنگ پریس کی بجلی بند کراتے۔ بیگم کلثوم نواز نے ایک سے زائد بار سیف الرحمان کو روکنے کی کوشش کی۔ ایک دن سیف الرحمان نے ایف آئی اے اور آئی بی والوں کے ذریعے مجھ پر حملہ کیا تو بیگم صاحبہ نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ وہ مجھ سے معذرت کریں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بیگم صاحبہ نے پرویز مشرف کے دور میں اپنے خاوند کی رہائی کےلیے تحریک شروع کی تو اکثر اسلام آباد میں اپنے دل کی باتیں مجھ سے کر لیا کرتی تھیں۔ اُنہی دنوں پتا چلا کہ اُنہیں قرۃ العین حیدر کا ناول ''آگ کا دریا'' بڑا پسند ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں میں نواز شریف صاحب کو آگ کے دریا سے نکالوں گی اور پھر وہ اپنے سسر میاں محمد شریف کی مدد سے نواز شریف کو آگ کے دریا میں سے نکال کر لے گئیں۔ افسوس کہ ہم نے سیاست کو ایک دوسرے کےلیے آگ بنا دیا ہے اور ایک دوسرے کو اس آگ میں جلانا چاہتے ہیں۔''
البتہ، میرا مقصد مرحومہ کلثوم نواز کی سوانح کھنگالنا نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے حامیوں اور مخالفین کے اُس چلن کا تذکرہ ہے جس کا مظاہرہ وہ بار بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر کرنے میں تاحال مصروف ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز کی زندگی پر ایک نظر
چند ماہ پہلے ''ایکسپریس بلاگ'' میں بیگم کلثوم نواز شریف کی علالت سے متعلق ایک ہمدردانہ بلاگ شائع کیا گیا تھا جس پر نون لیگ کے مخالفین نے طنز اور استہزاء کے ایسے ایسے نشتر چلائے تھے کہ جو اخلاقیات کی حدود سے ماوراء تھے۔ سیاسی مخالفت اور حمایت کے چکر میں شاید ہم بھول چکے ہیں کہ انسانی معاشرے میں ادب، تمیز، تہذیب، شائستگی اور اخلاق کی کیا اہمیت و ضرورت ہے۔ آج بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر بھی وہی کہانی ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: محترمہ کلثوم نواز زندہ ہیں یا...
ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں - کسی نہ کسی وجہ سے، جائز یا ناجائز طور پر - مسلم لیگ ن اور شریف خاندان سے شدید مخاصمت ہے تو دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو مسلم لیگ ن، شریف خاندان اور میاں محمد نواز شریف وغیرہم کی شان میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے کو فرضِ عین سمجھتا ہے اور قصیدہ گوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر اِن دونوں گروہوں کی سرگرمیاں، بلکہ کارگزاریاں دیکھ کر کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر بھی پڑھیے: نواز شریف اور کلثوم نواز کے درمیان آخری ملاقات کی ویڈیو منظرعام پر
سوشل میڈیا پر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بیگم کلثوم نواز کے انتقال کو - دبے لفظوں میں یا کھلے بندوں - کسی سازش یا ''پہلے سے طے شدہ منصوبے'' کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اس نوع کا اظہارِ خیال ان کی فکری پستی کا ثبوت ہے نہ کہ شرلاک ہومز ہونے کا۔
یہ بھی پڑھیے: بیگم کلثوم نواز کی یادگار تصاویر
اس کے برعکس، ایک بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات حسرت آیات کو بنیاد بناتے ہوئے حسن، حسین، مریم، صفدر اور خود میاں نواز شریف کو دنیا کی مظلوم ترین ہستیوں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ کل شام سے اب تک نیوز چینلز پر مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی چھوٹے بڑے رہنماؤں کو گفتگو کرتے دیکھا، ان کی اکثریت بیگم کلثوم نواز کی وفات پر افسوس اور تعزیت کرنے سے زیادہ ''شریف خاندان کی مظلومیت'' اور ''میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں'' کا نوحہ پڑھنے میں مصروف تھی۔
کچھ دیر پہلے جب انٹرنیٹ مزید کھنگالا تو معلوم ہوا کہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کا تذکرہ ''استعمال'' کرتے ہوئے بعض کالم نگاروں اور بلاگروں نے پاکستان کے عدالتی نظام اور پاک فوج تک پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ جو لوگ میاں نواز شریف کو ''معصوم'' سمجھتے ہیں - یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں - وہ میاں صاحب کو مجرم کے بجائے ''سیاسی قیدی'' قرار دینے پر مُصِر ہیں۔ کچھ قلم کار دُہائی دے رہے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں بیٹے اپنی ماں کی تدفین میں شرکت نہیں کرسکتے۔
بعض کہنہ مشق صحافی، عوام کو ایک بار پھر سے یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ ''پاناما'' پر چلا تھا لیکن انہیں سزا ''اقامہ'' پر سنائی گئی... یعنی وہ ''مظلوم ترین ہستی'' ہیں جنہیں عدالتی جبر کے ذریعے پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ یہ دعوے کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ میاں صاحب کو اُن کے حقیقی جرائم پر تو کوئی سزا سنائی ہی نہیں گئی۔ غیر سیاسی اور غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاناما جے آئی ٹی کی دس کی دس جلدیں سامنے رکھتے ہوئے تفتیش کی جاتی تو میاں صاحب کو صرف نااہلی ہی نہیں بلکہ اپنی تمام جائیداد کی قرقی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا... اور کوئی بعید نہیں کہ وہ سزائے موت کے سزاوار بھی قرار پاتے۔
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے چاہنے والوں سے معذرت، لیکن بیگم کلثوم نواز کی وفات اور میاں نواز شریف کے جرائم پر ملنے والی سزاؤں میں - کہ جن میں ان کی بیٹی، داماد اور دونوں بیٹے شریکِ جرم رہے ہیں - کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بیگم کلثوم نواز شریف ایک عظیم عورت تھیں جنہوں نے ضرورت پڑنے پر سیاست میں بھی حصہ لیا اور گھریلو محاذ تک پر مضبوطی سے جمی رہیں؛ اور یہ کہ ان کی وفات بلاشبہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ لیکن اس سے کہیں بھی یہ طے نہیں ہوتا کہ ان کی وفات سے میاں نواز شریف ''مظلوم'' اور ''معصوم'' ہوگئے ہیں، یا یہ کہ میاں صاحب پر لگنے والے سارے الزامات اور ان کے ثابت شدہ جرائم یکسر ختم ہوگئے ہیں۔
آخر میں اتنا مزید کہوں گا کہ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ایک سانحہ ہے، اسے تماشا نہ بنائیے... سیاست چمکانے کےلیے ان گنت مواقع مل جائیں گے، بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات پر اپنی سیاست نہ چمکائیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔