اسکول وینوں کی ابتر صورت حال۔۔۔
بروقت تدارک نہ ہوا تو الم ناک سانحات ہمارا مقدر ہوں گے۔
گجرات میں اسکول وین کو پیش آنے والا دل خراش واقعہ، جس میں ایک خاتون سمیت 16معصوم بچوں کی ہلاکت کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
وہ کلیاں جو بن کھلے مرجھا گئیں۔ وہ پھول جن کے دم سے آنگن میں بہار تھی، ہنستے بستے گھروں کو ویراں کر گئے۔ الغرض اس واقعے پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ جن گھروں کے چراغ گل ہوئے اُن کے دکھوں کا مداوا قطعی ممکن نہیں لیکن آئندہ ایسے سانحات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کر کے کئی گھروں کی خوشیاں لُٹنے سے بچائی جاسکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اس طرح کی دل خراش خبروں کی بھر مار ہے۔ سماعتیں اچھی خبر سُننے کو ترس گئی ہیں۔ ہر سانحے کے بعد دوسرا سانحہ، ہر تکلیف کے بعد نئی تکلیف پُھن پھلائے کھڑی ہوتی ہے۔ چند دن ماتم ہوتا ہے اور زندگی پھر سے پہلے کی طرح معمول پر آجاتی ہے۔ اہل اقتدار کے پاس سوائے زبانی کلامی دعووں اور کاغذی کارروائیوں کے اور کچھ نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا ملک سر جوڑ کر بیٹھ جاتا اور اُس وقت تک نہ اُٹھتا جب تک ان الم ناک سانحات کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی مرتب نہ ہو جاتی اور پھر ان پالیسیوں کا سختی سے نفاذ عمل میں آتا تاکہ آئندہ کوئی ماں یہ خبر نہ سُنے کہ اُس کا بچہ اسکول وین میں سلنڈر پھٹنے سے جُھلس گیا ہے، یا وہ ٹرین کی زد میں آگیا ہے یا پھر کسی تیز رفتار گاڑی نے اُسے کچل دیا ہے۔
اس حوالے سے ایک اچھی خبر کراچی ضلع وسطی کی جانب سے آئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سانحہ گجرات جیسے الم ناک سانحات کے تدارک سمیت بچوں کے تحفظ و دیگر امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضلع وسطی میں اسکول و کالج وین میں ایل پی جی کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی جب کہ سی این جی سلنڈر متعلقہ ادارے سے تصدیق شدہ استعمال کیے جائیں گے۔
اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کریں کیوں کہ ملک کا مستقبل ان ہی سے وابستہ ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسکول وین کا ڈرائیور لائسنس یافتہ ہوگا اور اس کے ساتھ کنڈیکٹر بھی لازمی ہوگا۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ گاڑیوں کی اچھی کنڈیشن، ان میں آگ بجھانے والے آلات کی تنصیب اور اسکول وین کی شناخت کے لیے ان پر مخصوص رنگ کرانے جیسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ سے گزارش کی گئی کہ وہ گاڑیوں کی فٹنس پر خصوصی توجہ دیں اور فٹنس کے بغیر چلنے والی گاڑیاں بند کر دیں جب کہ والدین سے گزارش کی گئی کہ وہ ٹرانسپورٹرز کے فٹنس سرٹیفکیٹ دیکھ کر بچوں کو ان کے حوالے کریں۔
اس موقع پر آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئر مینسمیر گلزار نے اعلان کیا کہ اسکول وین کے سی این جی سلنڈر کی تصدیق بغیر کسی خرچ کے ایسوسی ایشن کی جانب سے کرائی جا سکے گی۔ ڈاکٹر سیف الرحمن نے کہا کہ ضلع وسطی کے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کی نگرانی میں کمیٹیاں اسکول وین کا معائنہ کریں گی اور خلاف ورزی کرنے پر قانون کے مطابق عمل درآمد کریں گی۔ اُنہوں نے اسکول انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں اپنی ذمے داری بھی نبھائے۔
اجلاس میں ڈائریکٹر جرنل پرائیوٹ اسکول سندھ ڈاکٹر منسوب صدیقی، چیئرمین آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن سمیر گلزار، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، مشتاق احمد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر دوئم، فرحان غنی، ایس پی قمر زماں، سپریٹینڈنٹ رینجرز محمد اعظم خان، اسسٹنٹ کمشنر شجاعت حسین، اسسٹنٹ کمشنر شیخ محمد رفیق، اسسٹنٹ کمشنر ارشد وارث، اسسٹنٹ کمشنر محمد محبوب، اسسٹنٹ کمشنر سید الطاف علی کے علاوہ ڈی ایس پی سید شاہد اور ڈی ایس پی الطاف حسین نے شرکت کی۔
بچوں کے بہتر تحفظ کے سلسلے میں مذکورہ بالا اجلاس میں کیے گئے فیصلے یقیناً خوش آئند ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے فیصلے پہلے کیوں نہیں کیے جاتے؟ عمومی طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب اس طرح کے سانحات رونما ہوتے ہیں تو انتظامیہ حرکت میں آتی ہے، مجرموں سے سختی سے نمٹنے کے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جب کچھ دن گزر جاتے ہیں، معاملہ ٹھنڈا ہو نے لگتا ہے تو انتظامیہ کی پھرتیاں بھی ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے یہ دہائی ملنے لگتی ہے کہ چوں کہ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اس لیے صرف کسی ایک ادارے کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں انتظامیہ کے اس موقف میں سچائی نظر آنے لگے گی۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سارا کا سارا ملبا حکم رانوں پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے گریبانوں میں کبھی جھانکنے کی کوشش نہیں کر تے۔ اسکول وین مالکان زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ میں ہر طرح کے حفاظتی معیارات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی وینیں سخت گرمیوں میں بھی بچوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ وین کے اندر گنجائش نہ ہو تو بچوں کو لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی سی این جی سلنڈرز منی بسوں، کوچز، رکشوں اور اسکول وینوں کے اندر لگائے جاتے ہیں۔
یہ سلنڈرز چلتے پھرتے بم سے کم نہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر کئی گھروں کے چراغ گل کر سکتا ہے، لیکن افسوس کہ ہم خاموش تماشائی بنے کسی بھی طرح کی مزاحمت سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً الم ناک سانحات ہمارا مقدر بنتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بجائے اس کے کہ تمام تر ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہیں، ایسے سانحات کا تدارک کریں۔ ٹھوس اور واضح حکمت عملی تیار کریں اور اس پر سختی سے عمل درآمد کریں تاکہ آئندہ ہم ایسی خبریں سُننے سے محفوظ رہیں۔
وہ کلیاں جو بن کھلے مرجھا گئیں۔ وہ پھول جن کے دم سے آنگن میں بہار تھی، ہنستے بستے گھروں کو ویراں کر گئے۔ الغرض اس واقعے پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ جن گھروں کے چراغ گل ہوئے اُن کے دکھوں کا مداوا قطعی ممکن نہیں لیکن آئندہ ایسے سانحات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کر کے کئی گھروں کی خوشیاں لُٹنے سے بچائی جاسکتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اس طرح کی دل خراش خبروں کی بھر مار ہے۔ سماعتیں اچھی خبر سُننے کو ترس گئی ہیں۔ ہر سانحے کے بعد دوسرا سانحہ، ہر تکلیف کے بعد نئی تکلیف پُھن پھلائے کھڑی ہوتی ہے۔ چند دن ماتم ہوتا ہے اور زندگی پھر سے پہلے کی طرح معمول پر آجاتی ہے۔ اہل اقتدار کے پاس سوائے زبانی کلامی دعووں اور کاغذی کارروائیوں کے اور کچھ نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا ملک سر جوڑ کر بیٹھ جاتا اور اُس وقت تک نہ اُٹھتا جب تک ان الم ناک سانحات کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی مرتب نہ ہو جاتی اور پھر ان پالیسیوں کا سختی سے نفاذ عمل میں آتا تاکہ آئندہ کوئی ماں یہ خبر نہ سُنے کہ اُس کا بچہ اسکول وین میں سلنڈر پھٹنے سے جُھلس گیا ہے، یا وہ ٹرین کی زد میں آگیا ہے یا پھر کسی تیز رفتار گاڑی نے اُسے کچل دیا ہے۔
اس حوالے سے ایک اچھی خبر کراچی ضلع وسطی کی جانب سے آئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سانحہ گجرات جیسے الم ناک سانحات کے تدارک سمیت بچوں کے تحفظ و دیگر امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضلع وسطی میں اسکول و کالج وین میں ایل پی جی کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی جب کہ سی این جی سلنڈر متعلقہ ادارے سے تصدیق شدہ استعمال کیے جائیں گے۔
اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کریں کیوں کہ ملک کا مستقبل ان ہی سے وابستہ ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسکول وین کا ڈرائیور لائسنس یافتہ ہوگا اور اس کے ساتھ کنڈیکٹر بھی لازمی ہوگا۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ گاڑیوں کی اچھی کنڈیشن، ان میں آگ بجھانے والے آلات کی تنصیب اور اسکول وین کی شناخت کے لیے ان پر مخصوص رنگ کرانے جیسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ سے گزارش کی گئی کہ وہ گاڑیوں کی فٹنس پر خصوصی توجہ دیں اور فٹنس کے بغیر چلنے والی گاڑیاں بند کر دیں جب کہ والدین سے گزارش کی گئی کہ وہ ٹرانسپورٹرز کے فٹنس سرٹیفکیٹ دیکھ کر بچوں کو ان کے حوالے کریں۔
اس موقع پر آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئر مینسمیر گلزار نے اعلان کیا کہ اسکول وین کے سی این جی سلنڈر کی تصدیق بغیر کسی خرچ کے ایسوسی ایشن کی جانب سے کرائی جا سکے گی۔ ڈاکٹر سیف الرحمن نے کہا کہ ضلع وسطی کے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کی نگرانی میں کمیٹیاں اسکول وین کا معائنہ کریں گی اور خلاف ورزی کرنے پر قانون کے مطابق عمل درآمد کریں گی۔ اُنہوں نے اسکول انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں اپنی ذمے داری بھی نبھائے۔
اجلاس میں ڈائریکٹر جرنل پرائیوٹ اسکول سندھ ڈاکٹر منسوب صدیقی، چیئرمین آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن سمیر گلزار، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، مشتاق احمد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر دوئم، فرحان غنی، ایس پی قمر زماں، سپریٹینڈنٹ رینجرز محمد اعظم خان، اسسٹنٹ کمشنر شجاعت حسین، اسسٹنٹ کمشنر شیخ محمد رفیق، اسسٹنٹ کمشنر ارشد وارث، اسسٹنٹ کمشنر محمد محبوب، اسسٹنٹ کمشنر سید الطاف علی کے علاوہ ڈی ایس پی سید شاہد اور ڈی ایس پی الطاف حسین نے شرکت کی۔
بچوں کے بہتر تحفظ کے سلسلے میں مذکورہ بالا اجلاس میں کیے گئے فیصلے یقیناً خوش آئند ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے فیصلے پہلے کیوں نہیں کیے جاتے؟ عمومی طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب اس طرح کے سانحات رونما ہوتے ہیں تو انتظامیہ حرکت میں آتی ہے، مجرموں سے سختی سے نمٹنے کے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جب کچھ دن گزر جاتے ہیں، معاملہ ٹھنڈا ہو نے لگتا ہے تو انتظامیہ کی پھرتیاں بھی ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے یہ دہائی ملنے لگتی ہے کہ چوں کہ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اس لیے صرف کسی ایک ادارے کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں انتظامیہ کے اس موقف میں سچائی نظر آنے لگے گی۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سارا کا سارا ملبا حکم رانوں پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے گریبانوں میں کبھی جھانکنے کی کوشش نہیں کر تے۔ اسکول وین مالکان زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ میں ہر طرح کے حفاظتی معیارات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی وینیں سخت گرمیوں میں بھی بچوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ وین کے اندر گنجائش نہ ہو تو بچوں کو لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی سی این جی سلنڈرز منی بسوں، کوچز، رکشوں اور اسکول وینوں کے اندر لگائے جاتے ہیں۔
یہ سلنڈرز چلتے پھرتے بم سے کم نہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر کئی گھروں کے چراغ گل کر سکتا ہے، لیکن افسوس کہ ہم خاموش تماشائی بنے کسی بھی طرح کی مزاحمت سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً الم ناک سانحات ہمارا مقدر بنتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بجائے اس کے کہ تمام تر ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہیں، ایسے سانحات کا تدارک کریں۔ ٹھوس اور واضح حکمت عملی تیار کریں اور اس پر سختی سے عمل درآمد کریں تاکہ آئندہ ہم ایسی خبریں سُننے سے محفوظ رہیں۔