سمندر پارپاکستانیوں کے لیے قومی پالیسی

نئی قومی پالیسی میں الگ شیلٹرز بھی سمندر پار پاکستانیز کے لیے مختص کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔


Editorial May 30, 2013
رہائشی کالونیوں کے حوالے سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے مراعات دراصل ان کے سب سے بنیادی مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم اقدام ہے۔

KARACHI: نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے سمندر پار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے پہلی قومی پالیسی کی منظوری دیدی ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی بشرطیکہ یہ سرمایہ کاری باقاعدہ قانونی طریقے سے کی جائے نیز بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے پاکستان میں موجود اثاثہ جات اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

یہ فیصلہ بدھ کو نگراں وزیر اعظم کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کے دوران کیا گیا۔ وفاقی وزیر برائے سمندر پاکستانی فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے پالیسی کے بارے میں بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کرنے کے بعد یہ پالیسی بنائی گئی ہے۔ متعلقہ وزارتوں، ایف بی آر، او پی ایف اور سرمایہ کاری بورڈ سمیت تمام اداروں کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کو بہت ساری سہولیات فراہم کی جائیں گی، مختلف شہروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کا آغاز کیا جائے گا، حکومت کی ہاؤسنگ اسکیموں میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایک مخصوص کوٹہ رکھا جائے گا۔

رہائشی کالونیوں کے حوالے سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے مراعات دراصل ان کے سب سے بنیادی مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم اقدام ہے کیونکہ بیرون ملک روزگار کمانے والوں کو سب سے زیادہ تشویش اسی مسئلے پر رہتی ہے کیونکہ ترک وطن کرنے والوں کی اکثریت اسی بنا پر پردیس جاتی ہے، بیرون ملک کام کرنے کا بہتر معاوضہ واپس وطن آ کر اپنا ذاتی مکان تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ نئی قومی پالیسی میں الگ شیلٹرز بھی سمندر پار پاکستانیز کے لیے مختص کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔ جب کہ اسلام آباد میں اوورسیز یونیورسٹی اور اسپتال قائم کیے جائیں گے، اندرون اور بیرون ملک اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اسکول قائم کیے جائیں گے۔ اس پالیسی کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ کو قانونی مدد فراہم کی جائے گی۔

سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پنشن اسکیم بھی شروع کی جائے گی۔ اچانک موت کی صورت میں دی جانے والی مالی گرانٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔ پنشن اسکیم کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس اسکیم کے لیے فنڈز پردیسی پاکستانی خود اپنے پاس سے کنٹری بیوٹ کریں گے۔ اصل میں یہ اسکیم پہلے ہی نافذ کی جا چکی ہے مگر اب اس میں مزید مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اسکیم کو اور زیادہ پر کشش بنایا جائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی میتوں کی منتقلی کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی۔ پالیسی کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک ڈیٹا بیس قائم کیا جائے گا۔

اوورسیز پاکستانیز ایڈوائزری کونسل بھی قائم کی جائے گی۔اس پالیسی کے تحت غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ خصوصی رابطہ استوار کیا جائے گا تا کہ ان ممالک میں پیدا ہونے والی ملازمتوں کے لیے پاکستانی تارکین وطن کے مستفیض ہونے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ نیز اس طریقے سے ان ممالک میں ہماری افرادی قوت کے ملازمتوں کے تنازعات بھی حل کرائے جا سکیں۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا جو ڈیٹا بیس بنایا جائے گا اس میں ان کے بارے میں تمام ''اپ ٹو ڈیٹ'' معلومات فیڈ کی جائیں گی تا کہ ان معلومات کے تجزیئے کے ذریعے ان کی فلاح و بہبود کے مزید منصوبے بنائے جا سکیں۔ غیرممالک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بیرونی کرنسی اکاونٹس کے لیے فوائد میں بھی اضافہ کرے گا۔

نیز اس امر کی بھی کوشش کی جائے گی کہ فارن کرنسی کے سرکاری نرخ اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں تفاوت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ پالیسی نہایت خوش آیند ہے لیکن اصل بات ان اعلانات پر عمل درآمد کرانے کی ہے۔ کیا نگرانوں کے جانے کے بعد آنے والی نئی باقاعدہ حکومت تارکین وطن کے معاملات پر اسی سنجیدگی سے توجہ دے گی جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا بہتر طور پر بندوبست کیا جائے گا۔

غیرممالک میں مقیم پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، اگر ہم اس اثاثے کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے توملک کی معیشت میں بہتری آئے گی اور ہمارے مسائل کم ہوں گے۔بیرون ملک پاکستانی چونکہ قانون پسند معاشروں میں رہتے ہیں اور وہاں کے سسٹم کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان میں بھی ویسے ہی کام ہوں جیسے مغربی یورپ 'امریکا 'کینیڈا یا جاپان وغیرہ میں ہوتے ہیں لیکن جب وہ پاکستان میں آتے ہیں تو انھیں سخت مایوسی ہوتی ہے۔ حکومت پاکستان کو اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اپنے سسٹم کو درست کرنے پر خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ اوور سیز پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں