پاکستان کو دلوں میں آباد کر لیں
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک پر کڑا وقت آیا ہم سب سر بکف میدان میں نکل آئے۔
ڈیم کی تعمیر کے لیے میں نے وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر لبیک کہنے کے لیے پاکستانی بھائیوں کو آمادہ کرنے کا تحریری پروگرام بنایا ہے ۔ ایک اخبار نویس ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک شہری بھی ہوں اس لیے خود میرا بھی فرض ہے کہ میں پاکستان کی راہ میں جو اللہ کی راہ ہے اس میں کچھ خرچ کروں ۔
میرے پاس نقد رقم کا کچھ زیادہ ذخیرہ نہیں کیونکہ میں آج کے وقت کا اخبار نویس نہیں ہوں آج کے وقت سے مراد میری ٹیلیویژن ہے جہاں کام کرنے والے میرے صحافی دوست خوشحالی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں جب کہ ہم جیسے روزانہ کالم لکھنے والے ابھی تک اخبارات کے صفحے ہی کالے کر رہے ہیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ اخبار نویسی کے ساتھ میں ایک کاشتکار بلکہ زمیندار بھی ہوںاور وہ بھی بارانی زمین کا لیکن آج کل کے زمینداروں کے پاس بھی نقد رقم نہیں ہوتی وہ بے فکر ہو کر کھاتا پیتا اور زندگی کی معمول کی ضروریات تو پوری کر لیتا ہے مگر بیماری یا مقدمہ پڑ جائے تو پھر زمین بکتی ہے، الیکشن کو بھی انھی بیماری اور مقدمے کے مصائب میں شامل کر لیجیے ۔بہر کیف میں ذاتی طور پر جس قدر ہو سکا اس فنڈ میں دامے درمے سخنے اپنا مقدور بھر حصہ ضرور ڈالوں گا اور اپنے وطن کے حضور سرخرو ہوں گا۔
آپ سے بھی بار بار عرض کرتا رہوں گا کہ جتنا بھی ممکن ہو اس فنڈ میں حصہ لیں ۔ ملک دشمنوں کو بتا دیں کہ ہم پاکستانی زندہ رہنے کا فن جانتے ہیں اپنے وطن عزیز کے لیے قربانی دینا ہمارا دینی فرض بھی ہے ۔
آج سے پہلے بھی ایٹمی دھماکوں کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے مالی مدد طلب کی تھی اوراس مقصد کے لیے ملک بھر کے بینکوں میں اکاؤنٹ بھی کھولے گئے تھے ۔ ایک غیر ملکی سکہ جمع کرانے کا اور دوسرا روپے کا۔ اس وقت بھی قوم نے اسی جذبے کا مظاہرہ کیا تھا اور قرض اتارنے کے لیے کئی ارب حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے تھے لیکن اس پیسے کا مصرف کیا ہوا آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کیونکہ ملکی قرض میں تو ہوشرباء اضافہ ہو گیا۔
نواز شریف کے اس وقت کے وزیر خزانہ اور بعد میں سمدھی بن جانے والے اسحاق ڈار جو ان دنوں لندن میں پاکستانی عدالتوں سے مفروری کی زندگی گزار رہے ہیں انھوں نے ایک بے وقوفانہ فیصلہ کیا اور پاکستانیوں کے پاکستانی بینکوں میں کھولے گئے ڈالر اکاوئنٹ ضبط کر لیے جس کا ملک کو نقصان یہ ہوا کہ نوازشریف کی حکومت پر سرمایہ کاروں اور خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتبار ختم ہو گیا جس کا خمیازہ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک نے بھگتا۔ بہر حال ماضی کے قصے تو ہمیشہ دکھ ہی دیتے آئے ہیں اور یہ قوم دکھوں کی ماری ہے اس لیے مزید مایوسیاں پھیلانے کے بجائے اچھی باتیں لکھنی چاہئیں تا کہ قوم بیدار اور جاندار رہے اور مایوسیوں کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔
آبی ذخائر کی تعمیر ایک ایسا قومی فریضہ ہے اور وطن کی پکار ہے کہ ہر پاکستانی کو اس میں حصہ لینا چاہیے بلکہ بہر حال حصہ لینا ہے ۔ وطن عزیز نے ہم پاکستانیوں کو بہت کچھ اور بہت زیادہ دیا ہے ۔ آزادی بذات خود ایک بے مثال نعمت ہے لیکن اس آزادی کے ساتھ ساتھ اس ملک نے ہمیں اس خطے کا رئیس بھی بنایا ہے ۔یہ درست ہے کہ غلط حکومتوں کی وجہ سے ہمارے کئی پاکستانی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ اب تو نوبت خود کشیوں تک بھی پہنچ گئی ہے لیکن پھر بھی اس ملک کی اکثریت ملک کو کچھ نہ کچھ ضرور دے سکتی ہے، میں اگر اپنے آپ کو دیکھوں تو پاکستان نہ بنتا تو میں صحافت میں شاید ہی آ سکتا اور اگر آبھی جاتا تو کسی معمولی درجے پر کام کر رہا ہوتا یہ ملک کی برکات ہیں کہ میں صحافت کی بدولت مشہور ہو گیا۔ پاکستان نہ ہوتا تو میں ایک متوسط خوشحال زمیندار تو شاید ہوتا مگر میری اس معاشرے میں کوئی خاص حیثیت نہ ہوتی۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک پر کڑا وقت آیا ہم سب سر بکف میدان میں نکل آئے۔یہ ہماری روایت ہے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ کے پاس نقد رقم نہیں ہے تو کچھ بیچ دیجیے لیکن بہت بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی ہے جو ماشاء اللہ کچھ بیچے بغیر بھی اس ملک کو بہت کچھ دے سکتے ہیں ۔یہ ملک ہر روز آپ کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے آپ بھی کبھی کبھار اس کی آواز سن لیں اور اس پر خوشدلی کے ساتھ لبیک کہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں جب کہ خطرات نے وطن عزیز پر ہجوم کر رکھا ہے اور دشمن ہماری تاک میں ہیں اس وقت ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہے اور یہ تو آسان راستہ ہے کہ مشکل مالی ہے کوئی ایسی نہیں کہ اس کا علاج نہ ہو ۔
آبی ذخیروں کی اہمیت سے کون آگاہ نہیں اگر ان کی اہمیت کوئی نہیں جانتا تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ ذرایع ابلاغ میں ایسی موثر اشتہار بازی کی جائے جو کہ قوم کو سمجھانے کے لیے ہو ۔ حالانکہ یہ قوم ایسی ہے جس کے سامنے ملک کی مشکل کا ذکر ہی کر دیا جائے تو وہی بہت ہوجاتا ہے اس کو مسئلہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی قوم خود بخود مسئلے کے حل کے لیے نکل پڑتی ہے ۔ بات وہی ہے کہ قوم جاندار ہے لیکن لیڈر کوبھی عقلمندی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
میری عرض یہ ہے کہ خدا اور پاکستان کی راہ میں دلوں کو کھول دیجیے ۔ اللہ اس کا کئی گنا اجر دے گا ۔ سب کچھ لوٹ آئے گا۔