تیرہ کا ہندسہ اور نیا صدر
ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل ڈاکٹر ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو زندگی ہندسوں کے درمیان سفر کرتی ہے۔ یہ ہندسے قدیم ادوار سے ہمارہ پیچھا کر رہیں ہیں۔ افلاطون نے اعداد کے علم کو اعلی درجے کی معلومات کہا۔ پیتھاگورس نے فرمایا کہ نمبروں کی روح ہوتی ہے اور ان کا جادوئی اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مصر، چین ، انڈیا اور دیگر قدیم تہذیبوں نے اس حوالے سے نئی دریافتیں کیں۔
ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل ڈاکٹر ہیں۔ آپ کا علمی کیرئر شاندار رہا ہے۔ آپ نے اعلی تعلیم پنجاب یونورسٹی کے علاوہ مشی گن یونیورسٹی و پیسیفک یونیورسٹی سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں ایشیا پیسیفک ڈینٹل فیڈریشن کے صدر رہ چکے ہیں۔
اس ملک میں دو مسئلے عروج پر ہیں یعنی مینٹل پرابلمز اور ڈینٹل ڈزیز۔ شاید وجہ یہ بھی ہو کہ پاکستانیوں کا زیادہ وقت دانت پیسنے میں گزرتا ہے!
ذہنی دباو کا اثر ذہن اور دانتوں پر پڑتا ہے۔ پریشانی کوئی بھی ہو جب منھہ و گلا خشک ہو تو براہ راست دانت اور مسوڑے متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اور تندہی سے اپنے شعبے کو فروغ دیتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر علوی تحریک انصاف کی بنیاد ڈالنے والوں میں ہیں۔ آپ کا میڈیکل کا شعبہ و سیاست یکساں طور پر کامیابی سے نبھاتے رہے ہیں۔ سنا ہے کہ آپ مقصد سے سچائی اور مظبوط قوت ارادی رکھتے ہیں۔ حقیقت پسندی و منطقی سوچ انسان کو کامیابی کی بلندی پر لے جاتی ہے۔ اگر راہنما، راہنمائی کے اصول جانتے ہیں تو بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کی سوئی قسمت جاگ اٹھتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے بدلتے فیصلوں اور جلد بازی نے سمجھدار لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ یہ قول و فعل میں تضاد غیر فطری ہرگز نہیں۔ یہاں سیاست کی داغ بیل سہانے سپنوں اور خوش فہمی پر ڈالی جاتی ہے۔ لفظوں کو عمل کی طاقت کم میسر رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ مربوط سیاسی ماحول کا فقدان ہے۔ یہاں مسائل کی بھر مار ہے۔ ہر شعبہ نظرانداز اور بنیادی اصول کمیاب ہیں۔ ایک چھوٹا سا گھر بھی اصول و ترتیب کے بغیر نہیں چل پاتا۔ جس کے لیے سوچ اور عمل کی ہم آہنگی درکار ہوتی ہے۔
ایسی صورتحال میں صدر اپنی خداداد صلاحیتوں سے ملک کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر میں اسپورٹس قدر مشترکہ ہے۔ ڈاکٹر علوی کرکٹ ، ہاکی و دیگر کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اسپورٹس میں حصہ لیتے رہے ہیں لہذا دونوں لیڈر اسپورٹس مین اسپرٹ رکھتے ہونگے جو کھلاڑیوں کا خاصہ ہوتی ہے۔
اور یقینی طور ہر اب میڈیکل کا شعبہ ترقی کرے گا جو بہت برے حالات سے گذر رہا ہے۔ اس شعبے کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت ہے۔ سب سے بری حالت دیہی صحت کے مراکز کی ہے۔ شھر میں طب کی سہولیات مہنگی اور غیر معیاری ہیں۔ گورنمنٹ کے مراکز کو بہتر بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
کیونکہ طب کا شعبہ انتہائی اہم ہے جس کے ساتھ انسانی زندگیاں جڑی ہوئیں ہیں۔ کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل معافی جرم ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک مقدس شعبہ کاروباری لین دین اور غیر انسانی رویوں کا مرتکب ہو چکا ہے۔ جس میں جعلی ادویات کا فروغ ، مدت ختم ہونے والی دواؤں کی ترسیل، اسپتالوں میں غیر صحتمند ماحول ، اوزار و غذا وغیرہ شامل ہیں۔ مہنگے اور نجی اسپتال بھی معیاری سروس دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
ماہر طبی ماھرین کا فقدان صحت کے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ یہاں وہ ادویات استعمال ہورہی ہیں جن پر ترقی یافتہ ممالک میں پاببندی عائد ہے۔ دیہی علائقہ جات کے طبی مراکز طبی ماھرین و خواتین پر مشتمل عملے سے محروم ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ پیشہ ورانہ رویوں کی ترویج کے لیے مظبوط حکمت عملی اور اس کا یقینی اطلاق بیحد اہم ہیں۔
صدر پاکستان اس ملک کے بچوں کی زندگی بدلنا چاہتے ہیں۔ جو کہ خوش آیند بات ہے جس کے لیے عورتوں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کو فعال کرنا ہوگا۔ اور بچوں کو ذہنی و جسمانی تحفظ دلانا ہوگا۔ بچوں کے اغوا ، جسمانی تشدد ، جبری کام و دیگر جرائم کی روک تھام کی خاطر موثر قانون سازی کرنی پڑے گی۔
ماحولیاتی آلودگی اور قانون یہ ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ دینا لازمی ہے۔ موب کلنگ، پر تشدد واقعات اور اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کیے بغیر مہذب معاشرے کا تصور غیرمکمل ہے۔ تو دوسری طرف عوامی سطح پر ماحول کی آلودگی میں اضافہ گھناونا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ ہر سطح پر مربوط قانون سازی کی فراہمی کئی مسائل کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
ملک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ عوام کو بھی حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے جیسے غیرملکی اشیاء کی خریداری ترک کرکے ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ایک سال میں ہماری قوم کھربوں روپے کی چائے پی جاتی ہے جو ہم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ یہی حال دیگر مصنوعات کا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ منفی رویے یا سوچ زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن ہم غلطی ماننے میں تجاہل سے کام لیتے ہیں۔ اس غلطی کی اصلاح تو دور کی بات ہے! اس ملک میں بہترین لیڈر آئے جنھیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکے سوچتے ہیں۔ مگر شک کی فضا ہر مثبت سوچ اور اچھے عمل کے درمیان آجاتی ہے۔ اخبارات بالخصوص سوشل میڈیا افواہوں ، منفی رویوں اور خامیوں کو خوب اچھال رہا ہے۔ کشادہ سوچ اور رویوں کی وسعت کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ تنگ نظری اور تنگ دلی کا چار سو چرچا عام ہے۔ہماری نظریں بھی ہمہ وقت دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پرکھنے میں لگی رہتی ہیں۔ جن کے بار بار ذکر سے ایک منفی توانائی ماحول میں متحرک ہوجاتی ہے جو مثبت سوچ کا راستہ روک لیتی یے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کو جمہوریت کی تیسری بہار اور تیرہواں صدر مبارک ہو۔ یہ الگ بات کہ تیرہ کا ہندسہ علم لاعداد میں مشکل اور صبر آزما سمجھا جاتا یے۔ مگر یہ منطقی سوچ، مضبوط بنیاد، آزادی، تخلیقی صلاحیت و روشن مستقبل کا بھی حامل ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل ڈاکٹر ہیں۔ آپ کا علمی کیرئر شاندار رہا ہے۔ آپ نے اعلی تعلیم پنجاب یونورسٹی کے علاوہ مشی گن یونیورسٹی و پیسیفک یونیورسٹی سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں ایشیا پیسیفک ڈینٹل فیڈریشن کے صدر رہ چکے ہیں۔
اس ملک میں دو مسئلے عروج پر ہیں یعنی مینٹل پرابلمز اور ڈینٹل ڈزیز۔ شاید وجہ یہ بھی ہو کہ پاکستانیوں کا زیادہ وقت دانت پیسنے میں گزرتا ہے!
ذہنی دباو کا اثر ذہن اور دانتوں پر پڑتا ہے۔ پریشانی کوئی بھی ہو جب منھہ و گلا خشک ہو تو براہ راست دانت اور مسوڑے متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اور تندہی سے اپنے شعبے کو فروغ دیتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر علوی تحریک انصاف کی بنیاد ڈالنے والوں میں ہیں۔ آپ کا میڈیکل کا شعبہ و سیاست یکساں طور پر کامیابی سے نبھاتے رہے ہیں۔ سنا ہے کہ آپ مقصد سے سچائی اور مظبوط قوت ارادی رکھتے ہیں۔ حقیقت پسندی و منطقی سوچ انسان کو کامیابی کی بلندی پر لے جاتی ہے۔ اگر راہنما، راہنمائی کے اصول جانتے ہیں تو بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کی سوئی قسمت جاگ اٹھتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے بدلتے فیصلوں اور جلد بازی نے سمجھدار لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ یہ قول و فعل میں تضاد غیر فطری ہرگز نہیں۔ یہاں سیاست کی داغ بیل سہانے سپنوں اور خوش فہمی پر ڈالی جاتی ہے۔ لفظوں کو عمل کی طاقت کم میسر رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ مربوط سیاسی ماحول کا فقدان ہے۔ یہاں مسائل کی بھر مار ہے۔ ہر شعبہ نظرانداز اور بنیادی اصول کمیاب ہیں۔ ایک چھوٹا سا گھر بھی اصول و ترتیب کے بغیر نہیں چل پاتا۔ جس کے لیے سوچ اور عمل کی ہم آہنگی درکار ہوتی ہے۔
ایسی صورتحال میں صدر اپنی خداداد صلاحیتوں سے ملک کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر میں اسپورٹس قدر مشترکہ ہے۔ ڈاکٹر علوی کرکٹ ، ہاکی و دیگر کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اسپورٹس میں حصہ لیتے رہے ہیں لہذا دونوں لیڈر اسپورٹس مین اسپرٹ رکھتے ہونگے جو کھلاڑیوں کا خاصہ ہوتی ہے۔
اور یقینی طور ہر اب میڈیکل کا شعبہ ترقی کرے گا جو بہت برے حالات سے گذر رہا ہے۔ اس شعبے کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت ہے۔ سب سے بری حالت دیہی صحت کے مراکز کی ہے۔ شھر میں طب کی سہولیات مہنگی اور غیر معیاری ہیں۔ گورنمنٹ کے مراکز کو بہتر بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
کیونکہ طب کا شعبہ انتہائی اہم ہے جس کے ساتھ انسانی زندگیاں جڑی ہوئیں ہیں۔ کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل معافی جرم ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک مقدس شعبہ کاروباری لین دین اور غیر انسانی رویوں کا مرتکب ہو چکا ہے۔ جس میں جعلی ادویات کا فروغ ، مدت ختم ہونے والی دواؤں کی ترسیل، اسپتالوں میں غیر صحتمند ماحول ، اوزار و غذا وغیرہ شامل ہیں۔ مہنگے اور نجی اسپتال بھی معیاری سروس دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
ماہر طبی ماھرین کا فقدان صحت کے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ یہاں وہ ادویات استعمال ہورہی ہیں جن پر ترقی یافتہ ممالک میں پاببندی عائد ہے۔ دیہی علائقہ جات کے طبی مراکز طبی ماھرین و خواتین پر مشتمل عملے سے محروم ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ پیشہ ورانہ رویوں کی ترویج کے لیے مظبوط حکمت عملی اور اس کا یقینی اطلاق بیحد اہم ہیں۔
صدر پاکستان اس ملک کے بچوں کی زندگی بدلنا چاہتے ہیں۔ جو کہ خوش آیند بات ہے جس کے لیے عورتوں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کو فعال کرنا ہوگا۔ اور بچوں کو ذہنی و جسمانی تحفظ دلانا ہوگا۔ بچوں کے اغوا ، جسمانی تشدد ، جبری کام و دیگر جرائم کی روک تھام کی خاطر موثر قانون سازی کرنی پڑے گی۔
ماحولیاتی آلودگی اور قانون یہ ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ دینا لازمی ہے۔ موب کلنگ، پر تشدد واقعات اور اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کیے بغیر مہذب معاشرے کا تصور غیرمکمل ہے۔ تو دوسری طرف عوامی سطح پر ماحول کی آلودگی میں اضافہ گھناونا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ ہر سطح پر مربوط قانون سازی کی فراہمی کئی مسائل کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
ملک معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ عوام کو بھی حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے جیسے غیرملکی اشیاء کی خریداری ترک کرکے ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ایک سال میں ہماری قوم کھربوں روپے کی چائے پی جاتی ہے جو ہم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ یہی حال دیگر مصنوعات کا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ منفی رویے یا سوچ زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن ہم غلطی ماننے میں تجاہل سے کام لیتے ہیں۔ اس غلطی کی اصلاح تو دور کی بات ہے! اس ملک میں بہترین لیڈر آئے جنھیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکے سوچتے ہیں۔ مگر شک کی فضا ہر مثبت سوچ اور اچھے عمل کے درمیان آجاتی ہے۔ اخبارات بالخصوص سوشل میڈیا افواہوں ، منفی رویوں اور خامیوں کو خوب اچھال رہا ہے۔ کشادہ سوچ اور رویوں کی وسعت کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ تنگ نظری اور تنگ دلی کا چار سو چرچا عام ہے۔ہماری نظریں بھی ہمہ وقت دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پرکھنے میں لگی رہتی ہیں۔ جن کے بار بار ذکر سے ایک منفی توانائی ماحول میں متحرک ہوجاتی ہے جو مثبت سوچ کا راستہ روک لیتی یے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کو جمہوریت کی تیسری بہار اور تیرہواں صدر مبارک ہو۔ یہ الگ بات کہ تیرہ کا ہندسہ علم لاعداد میں مشکل اور صبر آزما سمجھا جاتا یے۔ مگر یہ منطقی سوچ، مضبوط بنیاد، آزادی، تخلیقی صلاحیت و روشن مستقبل کا بھی حامل ہے۔