نظام انصاف اور نیا عدالتی سال

کرپشن کے مقدمات کے بروقت فیصلوں کے لیے بھی ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے چاہیے۔


مزمل سہروردی September 13, 2018
[email protected]

پاکستان کے نئے عدالتی سال کا آغاز ہو گیا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں عدلیہ کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے جو ہونی بھی چاہیے لیکن چیف جسٹس پاکستان نے خود فرمایا ہے کہ میڈیا نہ صرف عدالتی فیصلوں پر تبصرہ کر سکتا ہے بلکہ عدالتی نظام کی بہتری کے لیے بھی تنقید کر سکتا ہے تاہم اس تنقید سے کسی بھی طرح کسی بھی محترم جج صاحب کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلنا چاہیے۔میں سمجھتا ہوں یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ چیف جسٹس پاکستان مثبت تنقید سننے کا نہ صرف حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

اس نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال پچھلے پانچ سال کی نسبت سب سے زیادہ کیسز کے فیصلے کیے ۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے میڈیکل کالجز میں فیسوں کو ٹھیک کرنے، بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے، دیامر بھاشا ڈیم کے آغاز سے لے کر اس سال میں عدلیہ نے بہت سے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔تاہم چیف جسٹس پاکستان نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر جھوٹے مقدمات اور دیگر خرابیاں نظام انصاف کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

پاکستان میں اس وقت کرپشن کا بھی بہت شور ہے۔ کرپشن کے خلاف تحریک ابھی تک غیر موثر ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نیب جتنا مرضی متحرک ہو جائے حکومت جتنی مرضی کوشش کر لے کرپشن کے خلاف کوئی بھی تحریک تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک نظام انصاف اس میں موثر کردار ادا نہیں کرے گا۔

بے شک نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دی گئی ہے لیکن کیا اکیلے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے سے ملک میں کرپشن کے خلاف کوئی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ کیا ملک میں صرف نواز شریف اور مریم نواز کی سزا کرپشن کے خلاف مہم کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اگر ایک طرف دوسرے سابق وزراء اعظم اور متعدد مقدمات میں دس دس سال سے فرد جرم بھی عائد نہ ہو سکے تو بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔

ملک میں نظام انصاف کی کارکردگی اور نظام انصاف کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی کام کرنے ہو نگے۔ یہ معمولی نوعیت کے کام ہیں۔ لیکن ان کے دور رس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی قانونی ترامیم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے پہلے تاریخ پر تاریخ پر کا کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں آؤٹ آف بکس حل تلاش کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے بے شک خود سپریم کورٹ میں مقدمات میں التوا کی حوصلہ شکنی شروع کی ہے۔ جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میںمقدمات نبٹانے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ ماتحت عدلیہ میں ہے۔ ماتحت عدلیہ میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر بن چکا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس ضمن میں واضح احکامات جاری کرنے چاہیے جس سے تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہو سکے۔ انھیں ملک بھر کی ماتحت عدلیہ کے ججز کی ایک کانفرنس بلانی چاہیے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی بھی سننی چاہیے۔بے شک اس میں بار کے نمایندوں کو بھی بلا لیا جائے۔

حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر کے خاتمہ کی واضح حکمت عملی سامنے آنی چاہیے۔ جو تاریخ مانگے اس کی سزا ہونی چاہیے۔ جج صاحب پر بھی مقدمہ میں کسی پیش رفت کے بغیر تاریخ دینے پر قدغن ہونی چاہیے۔ تاریخ پر تاریخ دینے کی کوئی حد ہونی چاہیے۔کب احتساب شروع ہو گا۔ کب نظام انصاف حرکت میں آئے گا۔ کب تاریخ پر تاریخ کو نا انصافی سمجھا جائے گا۔کچھ تو طے ہونا چاہیے۔ جب تک آپ کچھ طے نہیں کریں گے معاملہ ایسے ہی چلے گا۔ کہیں نہ کہیں عدلیہ کو خود کو بھی جوابدہ بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ملک میں نظام انصاف آگے نہیں چل سکتا۔ آپ مانیں کہ کئی مقدمات دس دس سال سے تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا شکار ہیں۔

اسی طرح چیف جسٹس پاکستان نے نئے عدالتی سال کے آغاز پرجھوٹے مقدمات کی بھر مار کو زیر التوا مقدمات کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان نے درست مرض کی نشاندہی کی ہے۔پولیس کی جانب سے جھوٹے مقدمات کے چالان ، عدالتوں میں جھوٹے مقدمات کی بھر مار ہے۔ لوگ بے وجہ ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمات دائر کرتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عملی طور پر جھوٹے مقدمات دائر کرنے اور درج کروانے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ عدالتیں بھی اس ضمن میں نرم رویہ رکھتی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب عدالت اپنے فیصلہ میں یہ طے کرتی ہے کہ مقدمہ جھوٹا ہے تو جھوٹا مقدمہ دائر کرنے والے کو سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ دیوانی مقدمات میں مثالی جرمانے کرنے کی ضرورت ہے۔یہ مثالی جرمانے رسمی نہیں ہونے چاہیے بلکہ ان کی وصولی کا بھی مثالی نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فوجداری مقدمات میں بھی جب یہ طے ہوجائے کہ مدعی نے جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا تو اس کو بھی مثالی سزا دینے کا آغاز ضروری ہے۔

میرا نہیں خیال کہ پولیس اصلاحات سے جھوٹے مقدمات ختم کیے جا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 154پولیس کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ہر قابل دست اندازی درخواست پر پرچہ درج کرے۔ قطع نظر اس بات کے درخواست سچی ہے یا جھوٹی۔ یہ بات بعد از تفتیش طے ہوتی ہے کہ مقدمہ سچا تھا یا جھوٹا۔ لیکن تب تک ملزم کا بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ اور بری ہونا بھی کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔ وہ بے وجہ گرفتار ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کی معاشرہ میں تذلیل ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک لمبے جھوٹے مقدمہ کا سامنا کرنے کی وجہ سے اس کی زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔

لیکن مقابلہ میں دیکھا جائے تو مدعی کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ وہ چپ کر کے عدالت سے واپس چلا جاتا ہے۔یہ بھی ناانصافی ہے۔ عدلیہ کو ملزم کے حقوق کا بھی خیال کرنا ہو گا۔ جھوٹے مقدمہ میں صرف بری کرنا انصاف نہیں۔ جس نے جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے اس کو سزا دینا بھی ضروری ہے۔

کون دوبارہ نیا مقدمہ کرے اور کئی سالوں پر مشتمل ایک نئی عدالتی جنگ شروع کرے۔ یہ کام اسی مقدمہ میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر پولیس نے کسی بے گناہ کو گناہ گار لکھا ہے۔ تو اس تفتیشی افسر کو بھی قانون کے آگے جوابدہ ہونا چاہیے۔ عدالت کو اسے بھی سزا دینی ہوگی۔ بغیر ثبوت گرفتاری پر پولیس کو بھی جوابدہ کرنا ہوگا۔ یہ کیا ہے کہ جب بھی عدالت کے سامنے ضمانت کی کوئی درخواست آتی ہے تو ملزم سے اس کی بے گناہی پوچھی جاتی ہے۔

تفتیشی افسر سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ اس کے پاس گرفتاری کے لیے کیا ثبوت ہے۔ کیا شامل تفتیش کرنے کے لیے گرفتاری ضروری ہے۔ گرفتاری صرف تب ہونی چاہیے جب ناگزیر ہو۔ ضمانت کے مقدمات کا بوجھ عدلیہ کو اپنے اوپر سے ختم کرنا ہوگا۔ اس سے عدلیہ کا بہت وقت ضایع ہورہا ہے۔

کرپشن کے مقدمات کے بروقت فیصلوں کے لیے بھی ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے چاہیے۔ دس دس سال سے مقدمات کا التوا کرپشن کے فروغ کا باعث ہیں۔ ایک رائے ہے کہ بس ایک دفعہ ضمانت مل جائے پھر کچھ نہیں ہوتا۔ کئی مقدمات سامنے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب کرپٹ آزاد پھر رہے ہیں۔ سخت قوانین کے باوجود ملک میں کرپشن کا فروغ ہے۔

ماتحت عدلیہ کی مانیٹرنگ بھی سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ ججز کے کام کے اوقات بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ججز کی کارکردگی کے فرانزک آڈٹ کی بھی ضرورت ہے۔ کہیں نہ کہیں ججز کو نظام انصاف میں مقدمات کے فیصلوںمیں تاخیر کا بھی ذمے دار ٹھہرانا ہوگا۔ جیوڈیشل افسران کی ٹرانسفر پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جب جج کو کیس کی سمجھ آنے لگتی ہے اس کی ٹرانسفر ہو جاتی ہے اور نیا جج آکر پھر سے کیس سمجھنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں