نواز شریف اور عوامی توقعات
کراچی کے عوام اپنی ذہنی اور معاشی آزادی کھو بیٹھے ہیں۔
پانچ برسوں کی جمہوریت نے کراچی کے عوام کو کشت وخون کے علاوہ کچھ نہیں دیا ، روزانہ کی شرح اموات کا مجموعی اوسط15/10افراد کا ہے، بوری میں بند لاشیں، کٹی ہوئی، جوڑ جوڑ الگ چونکا دینے اور سفاکی کی ہر انسان کا دل دہلادینے والی، ٹارگٹ کرکے قتل کرنے اور پیچھا کرکے اغوا برائے تاوان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کراچی جیسے شہر پر ایک بد نماداغ سے کم نہیں۔ شرم سے سر جھکنے چاہئیں ۔ مگر حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ نواز شریف نے جیتنے کے بعد عہد وپیماں کیے جو خارجہ پالیسی کے خدوخال بتائے ہیں اس سے سکون کی مہک آتی ہے، مگر اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا۔
یہ غور طلب مسئلہ ہے اورکیسے یہ اہداف حاصل ہوں گے۔ نواز شریف جنھیں اب مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ باقاعدگی سے وہ اب اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں، ان کی ترجیحات میں بھارت اور ہمسایہ ممالک سے دوستی،انرجی کے بحران پر قابو پانا، کراچی سے لاشوں کا خاتمہ، خارجہ پالیسی میں توازن اور تبدیلی، ڈرون حملوں سے نجات نمایاں ہیں۔ بعض معاملات ایسے ہیں جن کو مضبوط داخلہ پالیسی کے ذریعے حل کیاجاسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ حکومت ہر روز ایک مذمتی بیان جاری کررہی ہے۔ اگر یہی کچھ اب ہوا تو پھر معاملات مزید پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ پالیسی تقریباً5 برسوں میں نقطہ عروج پر جا پہنچی ہے۔ کراچی کے عوام اپنی ذہنی اور معاشی آزادی کھو بیٹھے ہیں۔ اگر اب مرکزی حکومت اور مرکزی وزیر داخلہ نے کراچی کے مسئلے کو حل کیا تو کراچی کے لوگ شکر خدا ادا کریں گے کیونکہ یہ ڈرون حملوں سے بد تر اموات ہیں، وہاں تو غیر ملکی حملہ آور ہیں وہ ہماری پہنچ سے دور ہیں مگر یہاں جو اموات ہورہی ہیں وہ غیرت کا مقام ہے، اگر نواز شریف کی حکومت کراچی شہر میں ایک جلسہ منعقد کرے اور وہ جو دھماکوں میں یا نشانہ لگاکر ہلاک کیے گئے ہیں ان یتیموں بیواؤں کو بلائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ محروم عوام اور بیوہ عورتیں کس قسم کی زندگی بسر کررہی ہیں، روشنی کا یہ شہر جو پوری رات کاروبار میں مصروف تھا اب صبح دم بھی کاروبار کے لائق نہیں رہا۔
حکمران خود عوام سے پوچھتے ہیں کہ قاتل کون ہے؟ لیاری میں کچھی بلوچ سول وار جاری ہے ۔آگ بھڑکانے والے چہرے باہر کے ہیں ۔دوسرا بڑا ہدف انرجی کا بحران ہے، گیس اور بجلی میں کچھ وقت لگ سکتاہے، اگر فکر اور دور اندیشی سے کام نہ لیاگیاتو ایک دو سال کھنچ جائے گا۔ درمیان میں کوئی عبوری انتظام ناممکن ہے جب کہ بجلی کا نرخ اور نرخ کے علاوہ اس کی کمی ایک ایسا سنجیدہ معاملہ ہے کہ جس کو فوری طورپر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ نواز شریف کو یہاں جس قدر پذیرائی ملی ہے وہاں اسی قدر مزاحمت ہوگی۔ ملک تقریباً5500میگا واٹ کی کمی کا شکار ہے، گزشتہ جمہوری دور میں ایک ترکی کا جہاز کراچی آیا، مال کماکر چلاگیا اور بجلی نہ دے سکا۔ ماہ جون، جولائی اور اگست میں ایسا امتحان ہوگا جس سے مرکزی حکومت کو گزرنا باقی ہے۔
نواز شریف کی بھارت میں خاصی پذیرائی ہے گو کہ آج سے دس برس قبل ان کی حکومت نے چاغی کے پہاڑوں پر ایٹمی تجربہ کرکے بھارت کو حیران کردیا تھا۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت ان کے لیے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہے اور اعتماد کی فضا قائم ہے۔ نواز شریف نے بھارت کے پرانے سیاست دانوں کی موجودگی کو غنیمت سمجھ کر مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور خاصی کامیابی کی توقع ہے۔ غالباً ان کا خیال ہے کہ پرانی لیڈر شپ یہ جانتی ہی کہ برصغیرکیوں تقسیم ہوا اور مسائل کیسے حل کریں۔
بھارت کی نئی لیڈر شپ اس دور بینی سے واقف نہیں۔ اٹل بہاری، واجپائی کے دور میں معاہدے قریب تر تھے کہ نواز حکومت جاتی رہی۔ نواز شریف اگر چاہیں تو بھارت سے توانائی پنجاب کے لیے حاصل کرسکتے ہیں اوریہ بجلی سستی ہی ہوگی اور بلوچستان کے لیے ایران سے معاہدہ ممکن ہے، نرخ اور دیگر امور حکومت خود بہتر طورپر انجام دے سکتی ہے، بھارت سے بہتر تعلقات کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں کے فوجی اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے، دوئم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد امریکا جو بھارت کو وہاں اہم فوجی اور معاشی مفادات کا نگراں بناناچاہتا ہے مسابقت کی یہ دوڑ بھی نرم ہوسکتی ہے اور دور دراز کے ممالک کی اس خطے میں اتنی دلچسپی بھی کم ہوگی۔
مگر نواز شریف کو ایسے سیاست دانوں کو وزارت خارجہ کا قلم دان دینا ہوگا جو محض سیاست نہیں بلکہ فلسفہ سیاست، علم وادب اور ثقافت کے علاوہ تاریخ پر بھی کامل دسترس رکھتے ہوں۔ بھارت پر ان دنوں بھارت میں سیکولر حکومت ہونے کے باوجود فرقہ پرستی جاری ہے، اس کی اصل وجہ مذہبی انتہا پسند اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے گاہے بہ گاہے اپنی ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں اپنے گرو کے احکامات پر جاری رکھتے ہیں اور انسانی جان ومال کی کوئی قدر نہیں۔ بھارت میں خصوصیت سے یہ عمل مہاراشٹرا میں جاری رکھاجاتاہے۔ مگر ایسا نہیں کہ اس میں حکومت کی تائید شامل ہو جیسا کہ برما میں یہ عمل جاری ہے، برما میں مجموعی طورپر مسلمان لکڑی اور جیولری کے کاروبار میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں تو ان کو بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔
مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت مجموعی طورپر کٹرپنتھی ریاست نہیں۔ اس کی ترقی کی شرح چین کے مساوی ہے مگر چین کے کسی شہر میں جھونپڑ پٹی کا تصور نہیں، بھارت میں یہ بد نما داغ ممبئی کے ماتھے کا جھومر ہے، ملک میں ترقی اور عوام کو محروم رکھنے کی وجہ سے نکسل باڑی جنھیں عام طورپر ماؤنواز کہتے ہیں بھارت میں قبولیت کی طرف جارہے ہیں، بھارتی کمیونسٹوں کی گرفت سے لوگ نکلتے جارہے ہیں۔
یہ بھی کانگریس کے لیے ایک تنبیہ ہے لیکن ابھی بھی بھارتی قیادت میں لوگ باقی ہیں جو تقسیم ہند کی وجوہات سے آشنا ہیں۔ ان کی موجودگی میں معاملات نسبتاً بہتر طریقہ سے حل ہوسکتے ہیں۔ اگر کانگریس گئی اور مذہبی انتہا پسند آئے تو یہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ ایک انسانی المیہ ہوگا، نواز شریف نے بھارت سے رابطہ جوڑنے کا صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔
اب جب کہ کے پی کے(KPK) تین حروف کا نام رکھوانے والی پارٹی اور بھارت دوستی کا دم بھرنے والی عوامی نیشنل پارٹی اپنے آبائی علاقے سے ہارگئی جس سے ظاہر ہوا کہ قومیت کے نعرے میں اکٹھا کرنے کی صلاحیت تو ہے مگر لوگوں کو کچھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔پیپلزپارٹی کی صحبت میں وہی کچھ کیا جو وہ کرتے تھے، روزگار، تعلیم، کچھ نہ دے سکے۔
بس طالبان کے نام پر ایک بہانہ ہاتھ آگیا، درویش صفت خان عبدالغفار خان کے وارثوں نے پارٹی کو رسوا کردیا۔ محض سرخ ٹوپی اور کھدر سے کچھ نہیں ہوتا، عوام کو کچھ کرکے دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے، اب نواز شریف کے لیے کے پی کے کا ماحول سازگار ہے اور عمران خان کی پارٹی کے ساتھ علاقے میں امن اور کاروباری چکا جلانے کی ضرورت ہے۔ جو عمران خان کے ساتھ ممکن ہے، رہ گیا ڈرون حملوں کا معاملہ یہ ایک سیاست کا امتحان ہوگا کیونکہ عوام کو دکھانے اور نعرہ لگانے سے کچھ نہ ہوگا اگر کوئی یہ پوچھ لے کہ آپ کے سب سے بڑے شہر میں بلا جواز لوگ قتل ہوتے ہیں، آپ کیوں نہیں روک پاتے تو کیا جواب ہوگا؟ کراچی کے حالات نے ملک کا پورا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔
جس کی مثال افریقا کے پسماندہ ممالک میں بھی نہیں ملتی، البتہ میاں نواز شریف کا بیان کہ کراچی میں لاشیں نہیں ملنی چاہئیں۔ دیکھتے ہیں کتنا پر اثر ہے اور میاں شہباز شریف کی جانب سے بسوں کا تحفہ ایک اچھا قدم ہے۔ مگر شہباز صاحب سے یہ درخواست ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لائنیں پڑی ہوئی ہیں بس ون ٹو تھری کرنے کی ضرورت ہے۔ چین یا جاپان کی مدد سے یہ کرنا ہوگا۔ بعد میں بسوں کا بھی خیال اچھا ہے مگر بجلی کا بحران اگر سرعت کے ساتھ حل نہ کیاگیا تو حکومت پانچ سال پورے نہ کرسکے گی۔کیونکہ بجلی کی بحالی، معیشت کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے اور عوام کے صبر کا پیمان لبریز ہوچکا ہے، چھلکنے کی دیر ہے۔
یہ غور طلب مسئلہ ہے اورکیسے یہ اہداف حاصل ہوں گے۔ نواز شریف جنھیں اب مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ باقاعدگی سے وہ اب اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں، ان کی ترجیحات میں بھارت اور ہمسایہ ممالک سے دوستی،انرجی کے بحران پر قابو پانا، کراچی سے لاشوں کا خاتمہ، خارجہ پالیسی میں توازن اور تبدیلی، ڈرون حملوں سے نجات نمایاں ہیں۔ بعض معاملات ایسے ہیں جن کو مضبوط داخلہ پالیسی کے ذریعے حل کیاجاسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ حکومت ہر روز ایک مذمتی بیان جاری کررہی ہے۔ اگر یہی کچھ اب ہوا تو پھر معاملات مزید پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ پالیسی تقریباً5 برسوں میں نقطہ عروج پر جا پہنچی ہے۔ کراچی کے عوام اپنی ذہنی اور معاشی آزادی کھو بیٹھے ہیں۔ اگر اب مرکزی حکومت اور مرکزی وزیر داخلہ نے کراچی کے مسئلے کو حل کیا تو کراچی کے لوگ شکر خدا ادا کریں گے کیونکہ یہ ڈرون حملوں سے بد تر اموات ہیں، وہاں تو غیر ملکی حملہ آور ہیں وہ ہماری پہنچ سے دور ہیں مگر یہاں جو اموات ہورہی ہیں وہ غیرت کا مقام ہے، اگر نواز شریف کی حکومت کراچی شہر میں ایک جلسہ منعقد کرے اور وہ جو دھماکوں میں یا نشانہ لگاکر ہلاک کیے گئے ہیں ان یتیموں بیواؤں کو بلائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ محروم عوام اور بیوہ عورتیں کس قسم کی زندگی بسر کررہی ہیں، روشنی کا یہ شہر جو پوری رات کاروبار میں مصروف تھا اب صبح دم بھی کاروبار کے لائق نہیں رہا۔
حکمران خود عوام سے پوچھتے ہیں کہ قاتل کون ہے؟ لیاری میں کچھی بلوچ سول وار جاری ہے ۔آگ بھڑکانے والے چہرے باہر کے ہیں ۔دوسرا بڑا ہدف انرجی کا بحران ہے، گیس اور بجلی میں کچھ وقت لگ سکتاہے، اگر فکر اور دور اندیشی سے کام نہ لیاگیاتو ایک دو سال کھنچ جائے گا۔ درمیان میں کوئی عبوری انتظام ناممکن ہے جب کہ بجلی کا نرخ اور نرخ کے علاوہ اس کی کمی ایک ایسا سنجیدہ معاملہ ہے کہ جس کو فوری طورپر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ نواز شریف کو یہاں جس قدر پذیرائی ملی ہے وہاں اسی قدر مزاحمت ہوگی۔ ملک تقریباً5500میگا واٹ کی کمی کا شکار ہے، گزشتہ جمہوری دور میں ایک ترکی کا جہاز کراچی آیا، مال کماکر چلاگیا اور بجلی نہ دے سکا۔ ماہ جون، جولائی اور اگست میں ایسا امتحان ہوگا جس سے مرکزی حکومت کو گزرنا باقی ہے۔
نواز شریف کی بھارت میں خاصی پذیرائی ہے گو کہ آج سے دس برس قبل ان کی حکومت نے چاغی کے پہاڑوں پر ایٹمی تجربہ کرکے بھارت کو حیران کردیا تھا۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت ان کے لیے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہے اور اعتماد کی فضا قائم ہے۔ نواز شریف نے بھارت کے پرانے سیاست دانوں کی موجودگی کو غنیمت سمجھ کر مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور خاصی کامیابی کی توقع ہے۔ غالباً ان کا خیال ہے کہ پرانی لیڈر شپ یہ جانتی ہی کہ برصغیرکیوں تقسیم ہوا اور مسائل کیسے حل کریں۔
بھارت کی نئی لیڈر شپ اس دور بینی سے واقف نہیں۔ اٹل بہاری، واجپائی کے دور میں معاہدے قریب تر تھے کہ نواز حکومت جاتی رہی۔ نواز شریف اگر چاہیں تو بھارت سے توانائی پنجاب کے لیے حاصل کرسکتے ہیں اوریہ بجلی سستی ہی ہوگی اور بلوچستان کے لیے ایران سے معاہدہ ممکن ہے، نرخ اور دیگر امور حکومت خود بہتر طورپر انجام دے سکتی ہے، بھارت سے بہتر تعلقات کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں کے فوجی اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے، دوئم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد امریکا جو بھارت کو وہاں اہم فوجی اور معاشی مفادات کا نگراں بناناچاہتا ہے مسابقت کی یہ دوڑ بھی نرم ہوسکتی ہے اور دور دراز کے ممالک کی اس خطے میں اتنی دلچسپی بھی کم ہوگی۔
مگر نواز شریف کو ایسے سیاست دانوں کو وزارت خارجہ کا قلم دان دینا ہوگا جو محض سیاست نہیں بلکہ فلسفہ سیاست، علم وادب اور ثقافت کے علاوہ تاریخ پر بھی کامل دسترس رکھتے ہوں۔ بھارت پر ان دنوں بھارت میں سیکولر حکومت ہونے کے باوجود فرقہ پرستی جاری ہے، اس کی اصل وجہ مذہبی انتہا پسند اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے گاہے بہ گاہے اپنی ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں اپنے گرو کے احکامات پر جاری رکھتے ہیں اور انسانی جان ومال کی کوئی قدر نہیں۔ بھارت میں خصوصیت سے یہ عمل مہاراشٹرا میں جاری رکھاجاتاہے۔ مگر ایسا نہیں کہ اس میں حکومت کی تائید شامل ہو جیسا کہ برما میں یہ عمل جاری ہے، برما میں مجموعی طورپر مسلمان لکڑی اور جیولری کے کاروبار میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں تو ان کو بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔
مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت مجموعی طورپر کٹرپنتھی ریاست نہیں۔ اس کی ترقی کی شرح چین کے مساوی ہے مگر چین کے کسی شہر میں جھونپڑ پٹی کا تصور نہیں، بھارت میں یہ بد نما داغ ممبئی کے ماتھے کا جھومر ہے، ملک میں ترقی اور عوام کو محروم رکھنے کی وجہ سے نکسل باڑی جنھیں عام طورپر ماؤنواز کہتے ہیں بھارت میں قبولیت کی طرف جارہے ہیں، بھارتی کمیونسٹوں کی گرفت سے لوگ نکلتے جارہے ہیں۔
یہ بھی کانگریس کے لیے ایک تنبیہ ہے لیکن ابھی بھی بھارتی قیادت میں لوگ باقی ہیں جو تقسیم ہند کی وجوہات سے آشنا ہیں۔ ان کی موجودگی میں معاملات نسبتاً بہتر طریقہ سے حل ہوسکتے ہیں۔ اگر کانگریس گئی اور مذہبی انتہا پسند آئے تو یہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ ایک انسانی المیہ ہوگا، نواز شریف نے بھارت سے رابطہ جوڑنے کا صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔
اب جب کہ کے پی کے(KPK) تین حروف کا نام رکھوانے والی پارٹی اور بھارت دوستی کا دم بھرنے والی عوامی نیشنل پارٹی اپنے آبائی علاقے سے ہارگئی جس سے ظاہر ہوا کہ قومیت کے نعرے میں اکٹھا کرنے کی صلاحیت تو ہے مگر لوگوں کو کچھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔پیپلزپارٹی کی صحبت میں وہی کچھ کیا جو وہ کرتے تھے، روزگار، تعلیم، کچھ نہ دے سکے۔
بس طالبان کے نام پر ایک بہانہ ہاتھ آگیا، درویش صفت خان عبدالغفار خان کے وارثوں نے پارٹی کو رسوا کردیا۔ محض سرخ ٹوپی اور کھدر سے کچھ نہیں ہوتا، عوام کو کچھ کرکے دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے، اب نواز شریف کے لیے کے پی کے کا ماحول سازگار ہے اور عمران خان کی پارٹی کے ساتھ علاقے میں امن اور کاروباری چکا جلانے کی ضرورت ہے۔ جو عمران خان کے ساتھ ممکن ہے، رہ گیا ڈرون حملوں کا معاملہ یہ ایک سیاست کا امتحان ہوگا کیونکہ عوام کو دکھانے اور نعرہ لگانے سے کچھ نہ ہوگا اگر کوئی یہ پوچھ لے کہ آپ کے سب سے بڑے شہر میں بلا جواز لوگ قتل ہوتے ہیں، آپ کیوں نہیں روک پاتے تو کیا جواب ہوگا؟ کراچی کے حالات نے ملک کا پورا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔
جس کی مثال افریقا کے پسماندہ ممالک میں بھی نہیں ملتی، البتہ میاں نواز شریف کا بیان کہ کراچی میں لاشیں نہیں ملنی چاہئیں۔ دیکھتے ہیں کتنا پر اثر ہے اور میاں شہباز شریف کی جانب سے بسوں کا تحفہ ایک اچھا قدم ہے۔ مگر شہباز صاحب سے یہ درخواست ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لائنیں پڑی ہوئی ہیں بس ون ٹو تھری کرنے کی ضرورت ہے۔ چین یا جاپان کی مدد سے یہ کرنا ہوگا۔ بعد میں بسوں کا بھی خیال اچھا ہے مگر بجلی کا بحران اگر سرعت کے ساتھ حل نہ کیاگیا تو حکومت پانچ سال پورے نہ کرسکے گی۔کیونکہ بجلی کی بحالی، معیشت کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے اور عوام کے صبر کا پیمان لبریز ہوچکا ہے، چھلکنے کی دیر ہے۔