عالمی کرنسی وار حصہ چہارم
امریکی مالیاتی ہتھکنڈے کے شکار سب سے پہلے یورپی ممالک بنے تھے۔
اخباری اطلاع کے مطابق چند روز قبل ترکی نے چین، روس، ایران اور یوکرائن کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد ہی جرمنی چانسلر انجیلا مرکل کا بیان سامنے آیا تھا۔ 17 اگست 2018ء کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شہ سرخی خبر شایع ہوئی۔ امریکا نے چین اور روس کی متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر متعدد روسی اور چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا۔
امریکا پہلی عالمی جنگ میں 16 اپریل 1917ء کو جرمنی کے خلاف شریک ہوا تھا یعنی امریکا 2 سال 8 ماہ 5 دن بعد جنگ شریک ہوا تھا، لیکن اس دوران امریکا یورپی ملکوں کی معاشی تباہی،کرنسی ایکسچنج بحران کا بھرپور مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کرکے فائدہ اٹھاتا رہا۔ متحارب ممالک سونے کے معیار سے ہٹ چکے تھے۔ جنگی اخراجات اور جنگ کی وجہ سے اشیا کی قلت اور مہنگائی بڑھ گئی تھی۔
امریکا اپنے سونے کے معیار 20-67 ڈالر فی اونس پرکھڑا تھا۔ یہ معیار 1837ء میں مقرر کیا گیا تھا۔ اسی معیار پر اس نے یورپی ملکوں سے سونا لے کر امریکی اشیا مہنگی فروخت کیں اور فارن ایکسچینج کے لیے امریکی کاغذی ڈالر اپنے سونے کے مقررہ معیار پر سونے کے بدلے فروخت کیے۔ اس طرح امریکا 1914ء سے 1923ء کے دوران پورے یورپ کو ڈالرائز کرچکا۔ یورپی مارکیٹوں میں پونڈ اسٹرلنگ و یورپی کرنسیوں کی جگہ کاغذی ڈالرکا راج تھا۔
امریکا آج پوری دنیا کو جنگی ہتھیاروں سے لیس ہوکر مادر پدر آزاد ہوکر جس ملک کو جس طرح چاہے استعمال کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ 1914ء سے آج 2018ء تک 104 سال تک امریکا نے پوری دنیا کے پسماندہ ملکوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز سے خوشحالیوں معاشی آزادیوں کے نام پر پوری دنیا کے ملکوں کے غریب عوام کا قتل عام کیا ہے۔ کرہ ارض پر اس کے مظالم کی داستانیں چپے چپے پر موجود ہیں۔
امریکی مالیاتی ہتھکنڈے کے شکار سب سے پہلے یورپی ممالک بنے تھے۔ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران نہایت ہی گھٹیا اور چھچھورے ہتھکنڈے استعمال کرکے پورے یورپ کو ڈالر کا قیدی بنالیا تھا۔ 15 دسمبر 1923ء کو امریکا نے ادارہ Exchange Equalization Fund قائم کرلیا تھا۔ EEF کے ذریعے (1)۔امریکا نے یورپی ملکوں کوکاغذی ڈالر فروخت کرکے اس کے بدلے سونا لینا شروع کیا۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم کے صفحہ 95 پر لکھا ہے۔
''ڈنمارک نے جولائی 1923ء کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا امریکا بھیجا کہ ڈنمارک کی کرنسی Krone(کرونی) کی قیمت ڈالرکے مقابلے میں گرانے سے روک دے۔ اپریل 1924ء کو سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے اپریل 1924ء کو امریکا سے 3 کروڑ ڈالرکا قرضہ لیا۔ بیلجیم نے 1920ء سے 1922ء تک 595.899 ملین ڈالر کا قرضہ امریکا سے لیا کہ امریکا فرانک کی قیمت ڈالرکے مقابلے میں گرانے سے روک دے۔ ناروے نے 1915ء سے 1924ء تک امریکا سے 811.356 ملین ڈالر کا قرضہ کرنسی کوگرانے سے روکنے کے لیے لیا۔ کتاب International Economy 1963 by Jhon Parke Young کے صفحہ 43-44 پر لکھا ہے۔
امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران جن ملکوں کو امریکی (کاغذی) ڈالر کے قرضے دیے تھے۔ جون 1931 کو ان قرضوں پر امریکا نے سود کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ ڈالر ان ملکوں سے وصول کیے تھے۔ امریکا کا مالیاتی ہتھکنڈا، شیطانی نوسر بازی ان یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کرکے ان ملکوں کی صنعتوں کی پیداواری لاگتیں بڑھا کر ان کی اشیا کو مہنگا کرتا تھا۔ (2)۔ ان کی مہنگی اشیا کے مقابلے میں امریکی اشیا کو ان ملکوں کی منڈیوں میں آسانی سے داخل کرتا تھا۔ (3)۔ اس کے نتیجے میں یورپی منڈیوں میں شدید معاشی بحران 1930ء کو پیدا ہوگیا تھا۔
یورپی ملکوں کی صنعتیں بند ہوتی گئیں۔ بیروزگاری بڑھتی گئی۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے یورپی ملکوں نے امریکا کو کاغذی ڈالر واپس کرنے شروع کردیے اور کاغذی ڈالروں کے بدلے 20.67 ڈالر فی اونس سونا مانگنا شروع کردیا تھا۔ کتاب International Currency Experience Lessons of the Inter-War Period. League of Nations 1944ء کے صفحہ 234 اور 235 کے مطابق 24 یورپی ودیگر ملکوں کے پاس 1924ء میں ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کے 845.0 ملین (84 کروڑ50 لاکھ ڈالر) ڈالر تھے۔ ان کے پاس گولڈ ریزرو 2281.0 ملین (2 ارب 28 کروڑ10لاکھ ڈالر) ڈالر تھا۔ 1928 میں عالمی معاشی بحران سے قبل 24 یورپی ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ڈالر 2520.0 ملین (2 ارب 50 کروڑ ڈالر ڈالر تھے اور گولڈ ریزرو 3400.0 ملین (3 ارب 40 کروڑ ڈالر) ڈالر تھے۔
امریکی کاغذی ڈالروں کے پیدا کردہ عالمی معاشی بحران جو 1930ء میں شروع ہوا اور 1932ء تک پہنچا تو 24 ملکوں کے فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 5050.0 ملین (ڈالر کروڑ50 لاکھ ڈالر) ڈالر رہ گئے تھے۔ 24 یورپی ملکوں نے کاغذی ڈالر خارج کردیے تھے اور ان کے پاس گولڈ ریزرو 5879.0 ملین ڈالر (5 ارب 87 کروڑ 90 لاکھ ڈالر) تک بڑھ گیا تھا۔ امریکا سے یورپی ممالک سونا تیزی سے نکال رہے تھے۔ کیونکہ امریکا دیوالیہ ہوچکا تھا۔
امریکی صدر روز ویلٹ نے 20 اپریل 1933ء کو بیرونی ملکوں پر امریکی بینکوں سے کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ امریکا جانتا تھا کہ یورپی ملکوں نے جان لیا ہے کہ ان کی معیشتوں کی تباہی و بحران کی وجہ امریکی کاغذی ڈالرکا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ ہے جو امریکی براہ راست سرمایہ کاری FDI کا نتیجہ ہے اور ساتھ ہی سڈمڈ (کاغذی ڈالرکا دو طرفہ ٹیکس) کا غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس کا بوجھ ان کی معیشتوں کو نچوڑ کر تباہ کر رہا ہے۔ امریکا بری طرح یورپی ملکوں کے ردعمل کی زد میں آچکا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک اور امریکی صدر روز ویلٹ نے ایک نیا مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے امریکی بینکوں کی دو روز چھٹیوں کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ کہ امریکا 25 اکتوبر 1933ء کو 31.36 ڈالر کے عوض ایک اونس خریدے گا۔ پھر 26 اکتوبر 1933ء کو امریکا نے ایک اونس سونا 31.54 ڈالر کے بدلے خریدا پھر 27 اکتوبر 1933ء کو 31.76 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 28 اکتوبر 1933ء کو 31.82 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 16 جنوری 1934ء کو 34.45 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 31 جنوری 1934ء کو امریکی حکومت نے 35.00 ڈالرکے عوض سونا خریدا۔
قابل غور پہلو ہے کہ امریکا نے یہ ہتھکنڈا استعمال کرکے اپنے آپ کو ڈیفالٹر ہونے سے بچایا۔ کیونکہ اس کو بخوبی اپنی مالیاتی نوسر بازی کا علم تھا کہ امریکی کاغذی ڈالر یورپی منڈیوں میں گردش کر رہے ہیں۔ اگر یہ واپس آنا شروع ہوگئے تو امریکا کے پاس 20.67 ڈالر فی اونس کے حساب سے سونا ادا کرنا مشکل تھا۔
امریکا ڈالرکی قیمت کو سونے کے مقابلے میں 69 فیصد گرا کر اپنے آپ کو یورپی مالیاتی حملے سے بچا لیا تھا، لیکن امریکا اپنے مالیاتی ہتھکنڈے CDMED سڈ مڈ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوچکا تھا کیونکہ امریکی ڈالرکے مقابلے میں یورپی کرنسیوں کی قیمت میں کمی برقرار تھی۔ اس طرح یورپی ملکوں کے لیے سونا ان کی کرنسیوں کی قیمتوں کے مقابلے مزید مہنگا ہوگیا جو 69 فیصد کے برابر تھا۔
کتاب Year Book of International Trade Statistics 1950. New York کے صفحہ 95 پر امریکی سونے کے تجارتی اعداد و شمارکے مطابق امریکا نے 1934ء سے لے کر 1940ء تک امریکا یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالر دے کر 15866.0 (15 ارب 86 کروڑ 60 لاکھ ڈالر) ملین ڈالرکا سونا اکٹھا کرلیا تھا۔اس کے بعد امریکا نے اسی سونے میں سے 2 ارب 75 کروڑ ڈالرکا سونا آئی ایم ایف کی 27 دسمبر 1945ء میں تشکیل کے وقت پہلے ڈپازٹ کرایا تھا ۔ پھر امریکا نے ستمبر 1949ء کو پوری دنیا کے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں 44 فیصد کمی کردی تھی ۔ اس طرح امریکی تاریخ نوسر بازیوں، بلیک میلنگ، ٹھگیوں جنگی جارحیتوں سے بھری ہوئی ہے۔ 1970ء دوبارہ امریکی کاغذی ڈالرکا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ کا معاشی بحران پوری دنیا میں نمودار ہوگیا۔ (جاری ہے)
امریکا پہلی عالمی جنگ میں 16 اپریل 1917ء کو جرمنی کے خلاف شریک ہوا تھا یعنی امریکا 2 سال 8 ماہ 5 دن بعد جنگ شریک ہوا تھا، لیکن اس دوران امریکا یورپی ملکوں کی معاشی تباہی،کرنسی ایکسچنج بحران کا بھرپور مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کرکے فائدہ اٹھاتا رہا۔ متحارب ممالک سونے کے معیار سے ہٹ چکے تھے۔ جنگی اخراجات اور جنگ کی وجہ سے اشیا کی قلت اور مہنگائی بڑھ گئی تھی۔
امریکا اپنے سونے کے معیار 20-67 ڈالر فی اونس پرکھڑا تھا۔ یہ معیار 1837ء میں مقرر کیا گیا تھا۔ اسی معیار پر اس نے یورپی ملکوں سے سونا لے کر امریکی اشیا مہنگی فروخت کیں اور فارن ایکسچینج کے لیے امریکی کاغذی ڈالر اپنے سونے کے مقررہ معیار پر سونے کے بدلے فروخت کیے۔ اس طرح امریکا 1914ء سے 1923ء کے دوران پورے یورپ کو ڈالرائز کرچکا۔ یورپی مارکیٹوں میں پونڈ اسٹرلنگ و یورپی کرنسیوں کی جگہ کاغذی ڈالرکا راج تھا۔
امریکا آج پوری دنیا کو جنگی ہتھیاروں سے لیس ہوکر مادر پدر آزاد ہوکر جس ملک کو جس طرح چاہے استعمال کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ 1914ء سے آج 2018ء تک 104 سال تک امریکا نے پوری دنیا کے پسماندہ ملکوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز سے خوشحالیوں معاشی آزادیوں کے نام پر پوری دنیا کے ملکوں کے غریب عوام کا قتل عام کیا ہے۔ کرہ ارض پر اس کے مظالم کی داستانیں چپے چپے پر موجود ہیں۔
امریکی مالیاتی ہتھکنڈے کے شکار سب سے پہلے یورپی ممالک بنے تھے۔ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران نہایت ہی گھٹیا اور چھچھورے ہتھکنڈے استعمال کرکے پورے یورپ کو ڈالر کا قیدی بنالیا تھا۔ 15 دسمبر 1923ء کو امریکا نے ادارہ Exchange Equalization Fund قائم کرلیا تھا۔ EEF کے ذریعے (1)۔امریکا نے یورپی ملکوں کوکاغذی ڈالر فروخت کرکے اس کے بدلے سونا لینا شروع کیا۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم کے صفحہ 95 پر لکھا ہے۔
''ڈنمارک نے جولائی 1923ء کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا امریکا بھیجا کہ ڈنمارک کی کرنسی Krone(کرونی) کی قیمت ڈالرکے مقابلے میں گرانے سے روک دے۔ اپریل 1924ء کو سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے اپریل 1924ء کو امریکا سے 3 کروڑ ڈالرکا قرضہ لیا۔ بیلجیم نے 1920ء سے 1922ء تک 595.899 ملین ڈالر کا قرضہ امریکا سے لیا کہ امریکا فرانک کی قیمت ڈالرکے مقابلے میں گرانے سے روک دے۔ ناروے نے 1915ء سے 1924ء تک امریکا سے 811.356 ملین ڈالر کا قرضہ کرنسی کوگرانے سے روکنے کے لیے لیا۔ کتاب International Economy 1963 by Jhon Parke Young کے صفحہ 43-44 پر لکھا ہے۔
امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران جن ملکوں کو امریکی (کاغذی) ڈالر کے قرضے دیے تھے۔ جون 1931 کو ان قرضوں پر امریکا نے سود کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ ڈالر ان ملکوں سے وصول کیے تھے۔ امریکا کا مالیاتی ہتھکنڈا، شیطانی نوسر بازی ان یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کرکے ان ملکوں کی صنعتوں کی پیداواری لاگتیں بڑھا کر ان کی اشیا کو مہنگا کرتا تھا۔ (2)۔ ان کی مہنگی اشیا کے مقابلے میں امریکی اشیا کو ان ملکوں کی منڈیوں میں آسانی سے داخل کرتا تھا۔ (3)۔ اس کے نتیجے میں یورپی منڈیوں میں شدید معاشی بحران 1930ء کو پیدا ہوگیا تھا۔
یورپی ملکوں کی صنعتیں بند ہوتی گئیں۔ بیروزگاری بڑھتی گئی۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے یورپی ملکوں نے امریکا کو کاغذی ڈالر واپس کرنے شروع کردیے اور کاغذی ڈالروں کے بدلے 20.67 ڈالر فی اونس سونا مانگنا شروع کردیا تھا۔ کتاب International Currency Experience Lessons of the Inter-War Period. League of Nations 1944ء کے صفحہ 234 اور 235 کے مطابق 24 یورپی ودیگر ملکوں کے پاس 1924ء میں ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کے 845.0 ملین (84 کروڑ50 لاکھ ڈالر) ڈالر تھے۔ ان کے پاس گولڈ ریزرو 2281.0 ملین (2 ارب 28 کروڑ10لاکھ ڈالر) ڈالر تھا۔ 1928 میں عالمی معاشی بحران سے قبل 24 یورپی ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ڈالر 2520.0 ملین (2 ارب 50 کروڑ ڈالر ڈالر تھے اور گولڈ ریزرو 3400.0 ملین (3 ارب 40 کروڑ ڈالر) ڈالر تھے۔
امریکی کاغذی ڈالروں کے پیدا کردہ عالمی معاشی بحران جو 1930ء میں شروع ہوا اور 1932ء تک پہنچا تو 24 ملکوں کے فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 5050.0 ملین (ڈالر کروڑ50 لاکھ ڈالر) ڈالر رہ گئے تھے۔ 24 یورپی ملکوں نے کاغذی ڈالر خارج کردیے تھے اور ان کے پاس گولڈ ریزرو 5879.0 ملین ڈالر (5 ارب 87 کروڑ 90 لاکھ ڈالر) تک بڑھ گیا تھا۔ امریکا سے یورپی ممالک سونا تیزی سے نکال رہے تھے۔ کیونکہ امریکا دیوالیہ ہوچکا تھا۔
امریکی صدر روز ویلٹ نے 20 اپریل 1933ء کو بیرونی ملکوں پر امریکی بینکوں سے کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ امریکا جانتا تھا کہ یورپی ملکوں نے جان لیا ہے کہ ان کی معیشتوں کی تباہی و بحران کی وجہ امریکی کاغذی ڈالرکا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ ہے جو امریکی براہ راست سرمایہ کاری FDI کا نتیجہ ہے اور ساتھ ہی سڈمڈ (کاغذی ڈالرکا دو طرفہ ٹیکس) کا غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس کا بوجھ ان کی معیشتوں کو نچوڑ کر تباہ کر رہا ہے۔ امریکا بری طرح یورپی ملکوں کے ردعمل کی زد میں آچکا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک اور امریکی صدر روز ویلٹ نے ایک نیا مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے امریکی بینکوں کی دو روز چھٹیوں کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ کہ امریکا 25 اکتوبر 1933ء کو 31.36 ڈالر کے عوض ایک اونس خریدے گا۔ پھر 26 اکتوبر 1933ء کو امریکا نے ایک اونس سونا 31.54 ڈالر کے بدلے خریدا پھر 27 اکتوبر 1933ء کو 31.76 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 28 اکتوبر 1933ء کو 31.82 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 16 جنوری 1934ء کو 34.45 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خریدا۔ پھر 31 جنوری 1934ء کو امریکی حکومت نے 35.00 ڈالرکے عوض سونا خریدا۔
قابل غور پہلو ہے کہ امریکا نے یہ ہتھکنڈا استعمال کرکے اپنے آپ کو ڈیفالٹر ہونے سے بچایا۔ کیونکہ اس کو بخوبی اپنی مالیاتی نوسر بازی کا علم تھا کہ امریکی کاغذی ڈالر یورپی منڈیوں میں گردش کر رہے ہیں۔ اگر یہ واپس آنا شروع ہوگئے تو امریکا کے پاس 20.67 ڈالر فی اونس کے حساب سے سونا ادا کرنا مشکل تھا۔
امریکا ڈالرکی قیمت کو سونے کے مقابلے میں 69 فیصد گرا کر اپنے آپ کو یورپی مالیاتی حملے سے بچا لیا تھا، لیکن امریکا اپنے مالیاتی ہتھکنڈے CDMED سڈ مڈ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوچکا تھا کیونکہ امریکی ڈالرکے مقابلے میں یورپی کرنسیوں کی قیمت میں کمی برقرار تھی۔ اس طرح یورپی ملکوں کے لیے سونا ان کی کرنسیوں کی قیمتوں کے مقابلے مزید مہنگا ہوگیا جو 69 فیصد کے برابر تھا۔
کتاب Year Book of International Trade Statistics 1950. New York کے صفحہ 95 پر امریکی سونے کے تجارتی اعداد و شمارکے مطابق امریکا نے 1934ء سے لے کر 1940ء تک امریکا یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالر دے کر 15866.0 (15 ارب 86 کروڑ 60 لاکھ ڈالر) ملین ڈالرکا سونا اکٹھا کرلیا تھا۔اس کے بعد امریکا نے اسی سونے میں سے 2 ارب 75 کروڑ ڈالرکا سونا آئی ایم ایف کی 27 دسمبر 1945ء میں تشکیل کے وقت پہلے ڈپازٹ کرایا تھا ۔ پھر امریکا نے ستمبر 1949ء کو پوری دنیا کے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں 44 فیصد کمی کردی تھی ۔ اس طرح امریکی تاریخ نوسر بازیوں، بلیک میلنگ، ٹھگیوں جنگی جارحیتوں سے بھری ہوئی ہے۔ 1970ء دوبارہ امریکی کاغذی ڈالرکا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ کا معاشی بحران پوری دنیا میں نمودار ہوگیا۔ (جاری ہے)