کھوئی ہوئی میراث

اگرچہ پی پی پی نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل و استحکام کی خاطر انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔

رواں ہفتے قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس متوقع ہے جس میں نو منتخب اراکین اسمبلی رکنیت کے حلف اٹھائیں گے۔ اسپیکرز وڈپٹی اسپیکرز کا چناؤ ہوگا پھر وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آئے گا اور یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا تاج پہنے حلف اٹھا رہے ہوں گے۔

(ن) لیگ کے رہنماؤں، کارکنوں اور ووٹروں کے لیے تو بلاشبہ یہ مسرت کے لمحات ہیں کہ ان کی جماعت کو 11 مئی کے انتخابات میں غیر متوقع کامیابی نصیب ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کو آیندہ پانچ سال کے لیے ملک پر حکمرانی کرنے کا موقع ملا۔ دوسری جانب 11 مئی کے انتخابی نتائج کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور متاثرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے ضمن میں اٹھائے جانے والے سوالات اور اعتراضات کا شافی جواب سامنے نہیں آیا۔

انتخابات سے قبل تمام متعلقہ اداروں کا دعویٰ تھا کہ ہر صورت منصفانہ، آزادانہ اور شفاف ترین الیکشن کرائے جائیں گے لیکن ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی نتائج سے کلی طور پر مطمئن نہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کیمطابق ملک کی سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں مضبوط ووٹ بینک رکھنے والی واحد سیاسی جماعت پی پی پی کو 11 مئی کے انتخابات میں نہایت منظم طریقے سے سازش کے ذریعے دیوار سے لگادیا گیا۔ اگرچہ سندھ میں پی پی پی روایتی کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن بقیہ تینوں صوبوں میں اس کے ساتھ ''ہاتھ'' ہوگیا۔

پی ٹی آئی کو تو یقین محکم کی حد تک انتخابات میں ایک ''بڑی فتح'' کی امیدیں تھیں لیکن ماسوائے خیبر پختونخوا اسے کسی دوسرے صوبے میں کوئی نمایاں کامیابی نہ مل سکی اب پی ٹی آئی دھرنے پہ دھرنے دے کر انتخابی دھاندلی کے خلاف مسلسل احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے۔ عمران خان کے بقول انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی جس میں ریٹرننگ افسران برابر کے شریک تھے ان کا کہنا تھا کہ جب تک دھاندلی کے بارے میں ہمارے تحفظات دور نہیں ہوں گے پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے دھاندلی کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

کے پی کے میں اے این پی جیسی لبرل اور جانوں کی قربانی دینے والی جماعت کا بھی حیران کن طور پر صفایا ہوگیا جب کہ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے بعض بلوچ رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جو بلوچستان کے مخدوش حالات میں نہایت اہمیت اور سنجیدہ توجہ کا طالب ہے۔

بعض سیاستدانوں کے نزدیک اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک کی بڑی اور اہم سیاسی جماعتیں 11 مئی کے انتخابات میں ''کامیاب دھاندلی'' کا شکار ہوگئیں لیکن ابھی تک دھاندلی سے مضروب سیاسی جماعتوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی قابل ذکر اور تسلی بخش عملی اقدام نہیں کیا جا سکا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض طفل تسلیوں سے انتخابی دھاندلی کے خلاف اٹھنے والی بلند آوازوں کو خاموش کرایا جاسکتا ہے؟ کیا بہلاوے کے روایتی اخباری بیانات کے ذریعے لگنے والے دھاندلی کے داغوں کو دھویا جاسکتا ہے؟ کیا ''شفاف الیکشن'' کے بلند وبانگ دعوؤں کو ''شفاف دھاندلی'' کے ذریعے معتبر قرار دیا جاسکتا ہے؟ ایسے بہت سے سوالات کا شافی جواب دینا متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے۔


اگرچہ پی پی پی نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل و استحکام کی خاطر انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ہے تاہم اس ضمن میں اس کے تحفظات اپنی جگہ برقرار ہیں پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے انتخابات میں حیران کن اور ناقابل یقین شکست کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پنجاب میں ہم سے 45 نشستیں چھینی گئیں اور انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اگر مجھے بھی ایسے ریٹرننگ افسران مل گئے تو دوبارہ صدارتی انتخاب لڑوں گا۔پی پی پی میڈیا سیل کے جناب ضیاء کھوکھر صاحب نے راقم کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں بعض چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی پلاننگ تھی کہ اسلام آباد، کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

تاکہ امریکی (نیٹو) فورسز کی افغانستان سے واپسی کا راستہ مہیا ہوسکے اور چونکہ ''آؤٹ ڈیٹڈ'' ہونے کے باعث نیٹو فورسز کے اسلحے کی مارکیٹ ویلیو ''زیرو'' ہوچکی ہے اور اگر یہ اسلحہ واپس جاتا ہے تو اس کی باربرداری پر مارکیٹ ویلیو سے زیادہ اخراجات ادا کرنے پڑیں گے لہٰذا ایسا اہتمام کیا جائے کہ نیٹو فورسز کا اسلحہ پاکستان کو فروخت کردیا جائے اور ایسا صرف پاکستان کی طالبان حامی حکومت کرسکتی تھی اور اب عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا یہ مقصد حاصل کرلیا ہے۔

آگے چل کے اپنے خط میں ضیاء کھوکھر صاحب نے کچھ درون خانہ ''کارستانیوں'' کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی پاداش میں پیپلز پارٹی کو یہ دن دیکھنا پڑے ان کے بقول انتہا پسند عناصر کی جانب سے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خوفزدہ ماحول کے باعث پی پی پی کھل کر اپنی انتخابی مہم چلانے میں ناکام ہوئی اور پولنگ سے ایک دن قبل علی حیدر گیلانی کے اغواء نے ملتان کی انتخابی فضا کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کردیا۔ پنجاب میں پولنگ کا تمام اسٹاف صوبائی محکموں سے لیا گیا ۔

اس پہ مستزاد عدالتوں نے متعدد امیدواروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ اختیار کیا (حالانکہ اعتزاز احسن اعلان کیا کرتے تھے کہ عدالتوں کا رویہ ماں جیسا ہوگا)۔ (ق) لیگ کے حوالے سے ضیاء صاحب کا موقف ہے کہ الیکشن میں یہ جماعت بجائے اثاثے کے پی پی پی کے لیے بوجھ ثابت ہوئی تاہم پی پی پی کی شکست میں لوڈشیڈنگ، مہنگائی، گھریلو استعمال کے لیے گیس کی کمیابی اور سی این جی کی عدم دستیابی نے بھی منفی کردار ادا کیا۔

انھوں نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ پی پی پی کو پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کرنے اور گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کی سزا انتخابات میں شکست کی صورت میں ملی۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ عالمی نظم کے ٹھکیدار نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے وطن کو ایٹمی قوت بنانے کی پاداش میں تختہ دار تک پہنچایا اور اب بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو پاک ایران گیس معاہدہ اور گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے کی سزا انتخابی شکست کی صورت میں دے دی۔

1992 میں بھی پی پی پی کو 17 سیٹوں کے ساتھ سندھ تک محدود کردیا گیا تھا لیکن 2008 میں پھر اقتدار حاصل کرلیا ۔ صدر زرداری، بلاول بھٹو، پارٹی رہنماؤں اور مخلص کارکنوں کا عزم جواں ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ''سیاست کا راستہ بے نظیر کا راستہ ہے'' اور اسی راستے پر چل کر وہ کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کرلیں گے۔
Load Next Story