کراچی اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں ناکامی پر آئی جی سندھ طلب
سندھ ہائی کورٹ کا پولیس کو بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم تشکیل دینے اور ڈی آئی جی کی تبدیلی کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے شہر قائد میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں ناکامی پر آئی جی سندھ کو طلب کرلیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم روشنی ہیلپ لائن کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ پولیس بہت سارے گمشدہ بچوں کی ایف آئی آر ہی درج نہیں کرتی، تھا نے میں لواحقین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی پر عدالت نے پولیس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سید کلیم امام کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سندھ پولیس کے نمائندے اور ڈی آئی جی کرائم برانچ غلام سرور جمالی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈی آئی جی غلام سرور جمالی سے بچوں کی بازیابی میں پیش رفت سے متعلق استفسار کیا کہ تو انہوں نے جواب دیا کہ 23 میں سے ایک بچی گھر واپس آگئی ہے۔
عدالت نے اس جواب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ باقی بچوں کا کیا ہوا، بازیابی کے لیے اجلاس کب ہوگا، یہ ہے فوکل پرسن کی کارکردگی، یہ کاغذ کا ٹکڑا لے آئے ہیں، آپ کی کارکردگی خراب اور پیش رفت سست ہے، آئی جی سندھ کو کہا بھی تھا کہ کسی فعال ڈی آئی جی کو اس کام پر لگائیں، ایک ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی تھی۔
ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کو معاملہ کسی فعال اور چُست ڈی آئی جی کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم بھی تشکیل دی جائے، آئی جی سندھ اگلی سماعت پر خود پیش ہوں اور کارکردگی رپورٹ پیش کریں، اس کام کے لیے تمام وسائل بروئے کارلائے جائیں۔
عدالت نے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم روشنی ہیلپ لائن کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ پولیس بہت سارے گمشدہ بچوں کی ایف آئی آر ہی درج نہیں کرتی، تھا نے میں لواحقین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی پر عدالت نے پولیس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سید کلیم امام کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سندھ پولیس کے نمائندے اور ڈی آئی جی کرائم برانچ غلام سرور جمالی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈی آئی جی غلام سرور جمالی سے بچوں کی بازیابی میں پیش رفت سے متعلق استفسار کیا کہ تو انہوں نے جواب دیا کہ 23 میں سے ایک بچی گھر واپس آگئی ہے۔
عدالت نے اس جواب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ باقی بچوں کا کیا ہوا، بازیابی کے لیے اجلاس کب ہوگا، یہ ہے فوکل پرسن کی کارکردگی، یہ کاغذ کا ٹکڑا لے آئے ہیں، آپ کی کارکردگی خراب اور پیش رفت سست ہے، آئی جی سندھ کو کہا بھی تھا کہ کسی فعال ڈی آئی جی کو اس کام پر لگائیں، ایک ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی تھی۔
ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کو معاملہ کسی فعال اور چُست ڈی آئی جی کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم بھی تشکیل دی جائے، آئی جی سندھ اگلی سماعت پر خود پیش ہوں اور کارکردگی رپورٹ پیش کریں، اس کام کے لیے تمام وسائل بروئے کارلائے جائیں۔
عدالت نے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔