عوامی ڈیم اور مسئلہ گیس کا
عمران خان سے امید ہے کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کریں گے تاکہ عوام کو سکون مل سکے۔
پہلی مرتبہ 1972ء میں بھاشا ڈیم کی آواز میرے کانوں میں گونجی، یہ آواز تھی پشتو کے نامور شاعر اجمل خٹک کی، ورنہ اس سے پہلے کالا باغ ڈیم کی آواز آتی تھی۔ مگر اجمل خٹک نے اس ڈیم کے متعلق بڑی معلومات اکٹھی کر رکھی تھیں اور موازنے کے اعتبار سے ایک مسودہ بھی ان کے پاس موجود تھا جو بعد میں پورے پاکستان کی آواز بنا، جب کہ ان کے تمام ساتھی بلند پایہ زندگی گزارتے رہے۔ وہ ہر روزکے واقعات کی ڈائری لکھتے تھے اور پشتو نظم اور غزل، مگر منظرعام پرکچھ نہ آیا فقط ایک نام بھاشا اور اس کے ساتھ اب متصل زمین دیامرکا نام منسلک ہو گیا جو ملک کے لیے ایک خوشی کی علامت ہے۔ تقریباً 40 برس سے زائد وقت گزرنے کے بعد ایک عملی قدم اٹھایا گیا ۔
30/28 برس تو مباحثے کی نذر ہو گئے اور جو بھی آیا ملک کی حقیقی اقتصادی ضروریات کے بجائے کاسمیٹک چینج میں مبتلا رہا۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی زیبائش اورنج ٹرین کا آغاز مکان مسمار کیے گئے مگر کسی کوکراچی کی کسمپرسی کا خیال نہ آیا کہ ٹریفک جام ہمہ وقت کا۔ موضوع سخن سے بھٹکنا نہیں چاہتا، اب واپس اسی سمت جو ملک کی بقا کا ضامن ہے یہ ایٹمی اسلحہ سے اس وقت ملک کے لیے زیادہ اہم۔ کیونکہ وہ دفاعی عنصر اور یہ حیات کا ضامن۔ عالمی سائنسدانوں کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے حقیقت سے روشناس کرایا اور وزیر اعظم نے اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کرکے ڈیم کا فنڈ طلب کیا اور ان کی صوابدید پہ چھوڑ دیا محض ایک ہزار ڈالر جو بجلی اور زراعت کا سرچشمہ اور ہماری تجلی کا ضامن ہے۔
ایسے موقعے پر آنحضرتؐ کا یہ قول یاد دلانا ضروری ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، گویا آدھا ایمان صفائی میں ہی مضمر ہے اور یہ بھی خوب ہے کہ صفائی بغیر پانی ممکن نہیں۔ پانی کی فراوانی گویا ایمان کی تازگی، ذی حیات کے لیے زندگی کا پیام۔ سندھ طاس معاہدہ ایوب خان سے ہو چکا، نہرو نے بڑی آہستگی سے یہ عارضی جنگ جیت لی مگر پاکستان کے حکمرانوں کو 50 برس ملے کہ وہ اپنا علاج کریں۔ محض درآمد شدہ چیزوں اور امارت پر زندگی بسر نہ کریں۔ مگر امارات کے دورے کرتے کرتے لوگ انھی کی تہذیب میں رنگ گئے اور اب صورت حال یہ ہے کہ پورا ملک امپورٹڈ آئٹم سے لبریز ہے۔ یہ قرض میں ڈوبنے کے نتائج ہیں یوں ہی قرض نہیں ملتا کچھ رعایتیں تو قرض پر دینی ہوتی ہیں۔
ایک بات بہت اہم ہے کہ کسی بھی کاروباری کو ہیڈ آف دی اسٹیٹ نہیں بنایا جاتا کیونکہ وہ ایسے قوانین واصول وضع کرتا ہے جو اس کے کاروباری عمل میں فائدہ مند ہے۔ اسی لیے ملک میں ملازمین کے لیے کوئی کاروباری اصول نہیں۔20 ، 20سال کے ملازمین اب تک مستقل نہیں ہوئے۔ فیکٹریوں میں بھی یہی سسٹم روا ہے۔ لہٰذا ایک ایسا طبقہ ملازمین کا پروان چڑھا جس کو ملکی قوانین سے قربت نہیں، دوم ان کی یہ حیثیت بھی نہیں کہ وہ ملکی بند میں فنڈ دے سکیں لہٰذا وزیراعظم نے جو غیر ملکی پاکستانیوں سے اپیل کی وہ نہایت ہی مناسب ہے اور امید ہے کہ وافر مقدار میں اس کا ردعمل آئے گا، البتہ تھوڑا بہت جو نقصان ہوگا۔
وہ ماضی کے حکمرانوں کے عملی قدم کی وجہ سے، جب ماضی میں ایک جمہوریت پسند نے یہ نعرہ لگایا کہ ''ملک سنوارو اور قرض اتارو'' اسی نعرے کے بعد قرض کی لہریں اور دبیز ہوتی گئیں اور اب ایسا وقت آگیا کہ ملک کا ہر باشندہ کا قرض دار ہو گیا ہے۔ لہٰذا آئی ایم ایف اور دیگر ادارے پاکستان کو قرض دینے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ معاشی صورتحال ایسی ہے کہ خسارے کو پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمت میں 50 فیصد اضافے کی تیاری ہے، جس کو وزیر اعظم نے وقتی طور پر روک رکھا ہے، مگر ایک خوشی کی بات ہے کہ ایرانی گیس پائپ لائن کئی برس سے بے جان پڑی ہے اور پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی میں کمزوری کے تحت یہ گیس کی لائن کو پاکستان میں نہیں آنے دے رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقعے پر جب کسی عرب ملک نے کشمیرکی موومنٹ پر پاکستانی موقف کی کھلم کھلا حمایت نہیں کی۔
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ان کے موقف کی حمایت کی ہے لہٰذا ایسے موقعے پرگیس لائن کو لینے سے پاکستان کو معاشی طور پر بہت بڑا فائدہ ہوگا، مگر اب تک گیس کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوگا اگر ایران کی گیس پائپ لائن کو فوری طور پر نہ کھولا گیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے جواد ظریف کے ساتھ جو طرز عمل اپنایا ہے، اس سے یہ محسوس تو ہوتا ہے کہ ایرانی گیس لائن جو ہمارے بارڈر تک آگئی اب گھروں کا رخ کرے گی، اگر ایسا کیا گیا تو یہ آزاد خارجہ پالیسی کا پہلا عملی مظاہرہ ہو گا جس سے باشندگان پاک سرزمین شاد باد کا نغمہ دہرائیں گے۔ اور عوام کو پہلی دفعہ حکومت میں سکون ملے گا۔
عمران خان سے امید ہے کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کریں گے تاکہ عوام کو سکون مل سکے۔ ملک میں صرف گیس کی قیمتیں غریب عوام کے لیے سکون کا باعث ہیں اور اس کو جاری رہنا چاہیے، تاکہ عوام الناس کو فوری طور پرکسی صدمے کا سامنا نہ کرنا پڑے، اگر ایسا کیا گیا تو ممکن ہے 20 کروڑ عوام خاک کا ڈھیر بن جائیں،کیونکہ ان کی پرجوش مسرت جو آتش بازی کی شکل میں تھی اور تبدیلی کی علامت تھی ، اس کو ضایع نہ ہونا چاہیے۔ اس وقت عوام پانی کو ترس رہے ہیں ۔ ان کو امید ہے کہ چند برسوں میں ان کو پانی میسر ہو گا اور اگرکہیں نا انصافی ہو رہی ہے تو ختم ہو جائے گی ۔
عمران خان نے سادگی اپنائی اور شاہ خرچی پر بظاہر ضرب لگائی ہے ابھی دیکھنا باقی ہے کہ یہ بات ہی بات ہے یا واقعی کوئی حقیقت۔ اگر عمل گفتگو سے مطابقت رکھتا ہوگا تو غیر ملکی پاکستانی ضرور عوامی ڈیم جو بھاشا دیامر کے نام سے منسوب ہے ایک ماہ میں بنیادی رقوم آ جائیں گی۔
بصورت دیگر پاکستان کو سرمایہ دار جمہوریت سے انحراف کرنا ہو گا کیونکہ یہ صرف غربا کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ایک اور اہم نکتہ جو پیش کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ اہل قلم حضرات کی آراء کو اہمیت دینا ضروری کیونکہ یہ کابینہ مدبروں اور مفکروں کا مجموعہ نہیں ہے لہٰذا اہل قلم کی انجمنوں کو اہمیت دینی ہوگی۔کیونکہ وہ آب و گل کے پروانے ہیں، تاکہ ماضی کے حکمرانوں کے لفافہ گروپ کو فروغ نہ ملے اور ان کی رونمائی کو روکا جا سکے ۔ جہاں تک ڈیم کا تعلق ہے اس پر ملک کا ہر شخص متفق اور اس کی تعمیر میں دل سے ساتھ ہے۔ اس ڈیم کا نام عوامی ڈیم میں نے اس لیے لکھا کہ ٹھیک ہے علاقہ تو بھاشا اور دیامرکا ضرور ہے مگر اس ڈیم میں پاکستانی عوام کے خلوص ، جدوجہد اور محبت کا سرمایہ شامل ہے ۔