قید کے بجائے جرمانہ کیوں نہیں

ایسے معاملات کا ایک واضح ثبوت ایک سرمایہ دار سکندر جتوئی کا بیٹا شاہ رخ جتوئی ہے۔


Muhammad Saeed Arain September 14, 2018

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس کیس میں پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر عمران علی شاہ کا معاملہ داؤد چوہان کے ملزم عمران کو اﷲ کے لیے معاف کردینے کے بعد نمٹادیا اور عمران شاہ کو 15 روز کے اندر 30 لاکھ روپے ڈیمز فنڈ میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ عمران شاہ پر ایک بزرگ شہری کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کے میڈیا پر آنے پر کڑی تنقید کے بعد پی ٹی آئی کی کمیٹی نے 5 لاکھ جرمانے اور ایدھی سینٹر کے کہنے پر 20 ہڈیوں کے مریضوں کے مفت علاج کرنے کی سزا دی تھی یہ جرمانہ ادا ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس کا یہ فیصلہ نہایت خوش آیند اور دور رس نتائج کا حامل ہے جس سے عمران شاہ جیسے دولت مندوں کے دماغ ٹھکانے آجائیں گے اور آیندہ اپنی دولت کے باعث تکبرکا شکار اور دوسروں کو انسان نہ سمجھنے والے بھی محتاج ہوجائیںگے بشرطیکہ سزا کا یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔ مہنگی گاڑیوں اور مسلح گارڈزکے جھرمٹ میں رعب وغضب سے گھومنے والے نو دولتیے اور پولیس افسران یا بڑے افسروں کی اولادوں نے دولت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر اپنے راستے میں آجانے والوں کی درگت بنادینا معمولی معاملات پر قتل و زخمی کردینا کسی کو اپنے اثر ورسوخ سے گرفتار کرا دینا معمول اور شوق بنایا ہوا ہے ۔ایسے واقعات بڑی عمر کے لوگ کم اور جذبات میں اندھے نوجوان زیادہ اس لیے کر رہے ہیں کہ دولت، سیاسی طاقت اور اپنے اثر و رسوخ کے باعث وہ جو چاہیں کرتے پھریں ، ان کے بڑے انھیں چھڑا لیںگے اور انھیں کچھ نہیں ہوگا۔

ایسے معاملات کا ایک واضح ثبوت ایک سرمایہ دار سکندر جتوئی کا بیٹا شاہ رخ جتوئی ہے، جس کی اکڑ فوں، مقتول کے والدین کو بھاری رقم دے کر عدالتی رہائی حاصل کرلینے میں کامیاب ہوجانے کے بعد اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو سزا پانے والا مجرم رہا ہوکر ملک میں پہلے کی طرح ہی دندناتا پھر رہا ہوتا ۔ پولیس افسروں کے خصوصاً اور بڑے سویلین افسروں اور سیاست دانوں کے بھائیوں اور بیٹوں نے ایسا کرنا اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے کیونکہ وہ حکومتی اداروں پر اثر انداز ہوکر آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں اور سزا سے بچ جاتے ہیں اور ایسے واقعات ملک بھر میں ہوتے آرہے ہیں۔

سڑکوں پر دولت و تکبر کے باعث دوسروں کی عزتیں اچھالنے، پامال کرنے اور خون میں نہلادینے والے زیادہ تر وہ لوگ خصوصاً وہ ہوتے ہیں جن کے والدین نے رشوت کی کمائی سے ان کی ناز و نعم سے پرورش کی ہوتی ہے اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینا اپنا مشغلہ اور شوق بنالیتے ہیں اور جب کبھی قانون کے آہنی شکنجے میں آتے ہیں تو ان کے با اثر والدین انھیں بچالیتے ہیں مگر میڈیا کی نظروں میں آنے اور پھر عدلیہ کے ایکشن کے نتیجے میں وہ خود تو حوالات کا منہ دیکھ لیتے ہیں اور اپنے والدین کے لیے بھی مسئلہ بن جاتے ہیں اور اگر والد نہ ہوں تو معاملہ انھیں خود بھگتنا پڑتا ہے جس کا تازہ ثبوت ڈاکٹر عمران شاہ ہے جس کے اپنے والد وفات پا چکے ہیںوہ ایک شخص کو سرعام تھپڑ مار کر ایسے پھنسے کہ سپریم کورٹ میں ذلیل ہوئے اور 35 لاکھ جرمانہ بھی ان کے گلے پڑ گیا۔

سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور افسروں کی حد سے بڑھی ہوئی اولادیں اپنے والدین کو یہ دن دکھاکر رسوا کر رہی ہیں اور پھنسنے کے بعد لاکھوں،کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی محض عدلیہ کی وجہ سے نجات نہیں حاصل کر پا رہیں وگرنہ حکومت میں موجود انھیں بچانے والے کوشش تو ازحد کر ہی لیتے ہیں مگر اب فعال عدلیہ انھیں کامیاب نہیں ہونے دے رہی اور وہ بری طرح پھنس رہے ہیں۔

بعض جرائم اور واقعات دانستہ ہی کیے جاتے ہیں اورکبھی کبھی نادانستگی میں بھی قانون ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے۔ آج کل کرپشن کا بہت زور ہے کرپشن صرف رشوت لینے ہی کا نام نہیں اپنی نااہلیت سے سیاسی سفارش کے ذریعے اعلیٰ عہدے لے لینا، بھاری رشوت دے کر یا سیاسی اثر و رسوخ سے لاکھوں روپے تنخواہ کی سرکاری ملازمتیں لینا اور اپنے سرکاری عہدوں سے غیر قانونی ملازمتیں، ٹھیکے دینا یا مالی فائدہ پہنچانا بھی کرپشن ہے ۔ عدلیہ نے ایسی تعیناتیاں غیر قانونی قرار دی ہیں اور بعض معاملات میں سرکار سے وصول کی گئی رقوم کی واپسی کے فیصلے بھی دیے ہیں جن سے قومی خزانے کو فائدہ پہنچا ہے، ملک میں اربوں کھربوں روپے خرچ اور سالوں کا وقت ضایع ہوا جن کے ذمے داروں سے بھی حساب لیا جانا چاہیے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے سابق حکمرانوں کے غیر قانونی کام عیاں ہو رہے ہیں۔

نواز شریف اپنے برطرفی کے ایک سال میں سزا بھی پاچکے۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ انھیں بغیر ثابت ہوئے کرپشن کے الزام میں جیل میں رکھا گیا، گیلانی کی سیاسی قربانی سے بھی سوئس بینکوں سے لوٹا پیسہ نہ لوٹایا جا سکا مگر پھنسنے والا پھنس کر رہتا ہے اب اعلیٰ افسران اور سیاست دان پھنسے ہوئے ہیں۔ جب ایک کروڑ رشوت لینے والے کو چند لاکھ کی ادائیگی پر بارگیننگ سے چھوڑ دیا جاتا ہے تو جیلوں میں بند یا کرپشن مقدمات بھگتنے والوں کو عدلیہ بھاری جرمانوں کی ادائیگی پر باہر آنے کا موقع دے کر ڈیمز فنڈز وصول کرے تو بے شمار ڈیم بھی بن سکتے ہیں اور جیلوں میں بند ہونے والوں کی سماعتوں پر جو قومی سرمایہ خرچ ہو رہا ہے وہ بھی بچ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں